امام مسجدوں نے چندے کی رقم سے لینن کا مجسمہ دوبارہ نصب کر دیا

280

وسطی ایشیائی ممالک میں ذرائع ابلاغ اس امر پر حیران ہیں کہ جنوبی تاجکستان میں مسلمان علما اپنے ہفتہ وار چندے کی رقم 70 سال تک ملک میں لادینیت مسلط رکھنے والے بولشیویک انقلاب کے رہنما لینن کے مجسمے کی مرمت پر خرچ کر رہے ہیں۔

ریڈیو لبرٹی کے ریڈیو آزادی تاجک سروس کے مطابق شہر طوس کی مساجد کے امام اور خطیبوں نے جمع ہونے والی رقم سے روسی کمیونسٹ رہنما کے مجسمے کو شہر کے مرکز میں اسی ستون پر دوبارہ کھڑا کر دیا ہے جہاں پر دو سال پہلے اسے گرایا گیا تھا۔

اس مجسمے پر دوبارہ سنہری رنگ کیا گیا ہے اور اس کے ٹوٹے ہوئے ہاتھ کی جگہ نیا ہاتھ لگایا گیا ہے۔

شہرطوس کونسل کی مہرینیسو راجابووا کا کہنا یہ خیال تاجکستان کے اماموں کا اپنا ہے۔ انھوں نے آزادی ریڈیو کو بتایا ’انھوں نے مجسمے کی مرمت کی اور اس یادگار کے گرد پارک کی صفائی کی اور فواروں کی بھی مرمت کر رہے ہیں۔‘

ایک امام مسجد نے آزادی ریڈیو سے بات کی لیکن وہ خرچ ہونے والی کل رقم کے بارے میں انکساری سے کام لے رہے تھے تاہم انھوں نے بتایا کہ ہر مسجد نے ہر ہفتے تقریباً 100 ڈالر چندہ لیا۔

شہرطوس میں لینن کا یہ مجسمہ سنہ 1980 میں سویت دور میں نصب کیا گیا تھا اور جنوبی تاجکستان میں یہ سب سے بڑا مجسمہ تھا۔

آزادی کے 11 سال بعد ملک میں سویت یونین کے بانی کے بیشتر مجسموں کو گرا دیا گیا تھا لیکن اس یادگار کو تاریخی طور پر اہم سمجھا گیا اور یہ نقصان سے محفوظ رہی۔

تاہم سنہ 2016 میں مقامی حکام نے سویت دور کے مجسموں کو تاجک کے قومی ہیروز سے تبدیل کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ انھوں نے لینن کے اس مجسمے کو اوبشورون گاؤں پہنچا دیا جہاں وہ ایک گودام میں خراب ہوتا رہا۔

امام مساجد نے یہ واضح نہیں کیا کہ انھوں نے لینن کے مجسمے کو دوبارہ شہرطوس میں نصب کرنے کے لیے رقم کیوں جمع کی لیکن شہر کا مرکزی ستون تقریبا دو سال تک خالی رہا تھا۔

اس واقعے کا سوشل میڈیا پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا اور بہت سے تبصرے ایسے تھے کہ انھیں اس حقیقت کا یقین نہ آرہا ہو۔ آزادی کی ویب سائٹ پر ایک صارف کا تبصرہ تھا کہ ‘وہ علما نہیں ہیں، وہ بت پرست ہیں’ جبکہ دیگر افراد کو کہنا تھا کہ یہ رقم غریبوں کی مدد پر خرچ ہو سکتی تھی۔

کچھ لوگوں نے جلد ہی تاجکستان کی موجودہ صورتحال کا موازنہ سویت دور میں طرز زندگی سے کرنا شروع کر دیا۔ مہاجر نے لکھا کہ ’انھوں نے ٹھیک کیا۔ اگر لینن نہ ہوتا تو تمام وسطیٰ ایشیائی افغانستان کی طرح ان پڑھ ہوتے۔‘

کچھ صارفین کا کہنا تھا کہ انھیں ملک کے ماضی کو تسلیم کرنا چاہیے۔ آزادی نیوز سائٹ پر ایک اور تبصرہ تھا کہ ’رہنما تھا یا نہیں، یہ ہماری تاریخ ہے اور ہمارے بچوں کو اس بارے میں علم ہونا چاہیے۔‘