امریکہ کے وزیر دفاع جِم میٹس نے کابل میں افغان صدر اشرف غنی اور دیگر اعلیٰ افغان حکام سے ملاقات کی۔ ملاقات میں چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ بھی شریک تھے۔
ملاقات کے دوران اشرف غنی نے کہا کہ افغان اہلکاروں کے نیٹو افواج پر حملوں کو روکنا قومی اولیت کا معاملہ ہے۔ یہ واقعات گرین آن بلو یا اندرونی حملوں کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔
فضائی کارروائیوں کو وسعت دینے پر اشرف غنی نے امریکہ کو سراہا۔
غیر اعلانیہ دورے پر میٹس جمعے کو بگرام ایئر بیس پہنچے تھے۔ ان کا یہ دورہ ایسے وقت ہوا ہے جب افغانستان کے بارے میں امریکہ کی نئی حکمتِ عملی کو ایک برس مکمل ہوگیا ہے۔
شدت پسندی کی کارروائیوں میں تیزی آنے کے باوجود میٹس اور دیگر اعلیٰ امریکی اہلکار اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے بارے میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی حکمتِ عملی، جس کا اعلان اگست 2017ء میں کیا گیا تھا، افغان جنگ ختم کرنے میں معاون ثابت ہو رہی ہے۔
منگل کو بھارت سے کابل روانگی کے دوران طیارے میں اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے میٹس نے کہا کہ اس وقت ہمیں بہت سے اشارے ملے ہیں کہ مفاہمت اب خوش فہمی کا معاملہ نہیں رہا، اب یہ محض نظروں کا دھوکا نہیں ہے۔
میٹس نےکھلے رابطوں کی نشاندہی کی، لیکن انہوں نے اس بات کی تصدیق سے گریز کیا کہ آیا جولائی کے آواخر میں قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے یا نہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ محکمۂ خارجہ نے مفاہمت کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ اس خاص مقصد کے لیے اُس نے سفارت خانے میں اضافی عملہ تعینات کیا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ زور پکڑے گی۔
بطور وزیرِ دفاع میٹس کا افغانستان کا یہ چوتھا دورہ ہے۔ اس سے قبل جِم میٹس نے بھارت کا دورہ کیا تھا جہاں اُنھوں نے بھارت کی جانب سے افغانستان کے لیے معاشی اور ترقیاتی اعانت کو سراہا تھا۔
رواں ہفتے آرمی جنرل اسکاٹ مِلر نے امریکی کمانڈر برائے افغانستان کا عہدہ سنبھالا ہے۔ وہ 17 برس سے جاری افغان جنگ کے دوران کمان سنبھالنے والے نویں امریکی جنرل ہیں۔
مِلر کو یہ کام سونپا گیا ہے کہ تنازع کے مفاہمت پر مرتکز مرحلے کے لیے ہدایات دیں باوجودیکہ دونوں فریقوں کی جانب سے ایک دوسرے پر حملے جاری ہیں۔
گذشتہ روز کابل کے شیعہ اکثریتی علاقے میں کھیلوں کے کلب میں دو خودکش بم دھماکے ہوئے جب کشتی کا مقابلہ جاری تھا۔ ان حملوں میں کم از کم 26 افراد ہلاک ہوئے، جن میں دو صحافی شامل ہیں۔