آہ مرد کہ میاراں جَلاں، نیم روچءَ نہ وپسان کُلاں ۔ فضیلہ عمر

258

آہ مرد کہ میاراں جَلاں
نیم روچءَ نہ وپسان کُلاں
تحریر: فضیلہ عمر

بلوچستان میں پیدا ہونے والے انسانی بحران پر دنیا کی خاموشی اور بلوچ پارلیمانی پارٹیاں انہی آپشن کو پوائنٹ اسکورنگ کی صورت میں بلوچ کی مجبوری سمجھتے ہوئے اپنے لیئے اقتدار کے خوبصورت مراعات کو پانے کی ناکام کوششوں میں برسر پیکار ہیں چنانچہ اگر بلوچ تاریخ پر ہونے والے بے شمار کارنامے جو ہماری بقا کی علامت سمجھے جاتے ہیں جن میں دودا بلوچ وہ قد آور شخصیت ہیں جو اپنی شادی کے بندھن میں بندھے مگر گوھر بی بی کے ساتھ ہونے والی نا انصافی پر جب دودا بلوچ کے والدہ محترمہ کہتی ہے کہ
آہ مرد کہ میاراں جلاں
نیم روچءَ نہ وپسان کلاں

چونکہ اس تاریخی پس منظر کا ذکر کرنا چاہیں کہ گوئر کو دی جانے والی اذیت اپنوں سے ہوئی تھی، مگر جس کا ازالہ یا بدلہ دودا اپنے مقدس لہو سے ثابت کرسکتا ہے اس لیئے آج بلوچ تاریخ انہی انمول کردار پر نازاں ہے۔ اگر آج بلوچ کے ساتھ ہونے والی ظلم و بربریت کا ذکر کریں تو انسانیت کے آداب سے عاری جیسے دشمن پنجابی فوج کے ہاتھوں تذلیل ہورہی ہے، اسی ظلم و بربریت کے خلاف محاذ میں موجود دودا کے جان نشین بڑی بہادری کے ساتھ لڑ رہے ہیں، مگر انسانی اخلاق سے عاری دشمن انتقامانہ کاروائیوں کا بدلہ بلوچ خواتین سے لےرہی ہے، تو دوسری جانب اقتدار میں بیٹھے نام نہاد بلوچ جو دودا کے کردار کو سیڑھی بناکرپارلیمنٹ کے ایوانوں تک اس گھناونی کھیل میں کھلاڑی بن کر شراکت داری کا شرمناک کردار ادا کر رہے ہیں جو بلوچ اور بلوچیت سے عاری اپنی آسائشی زندگی کو بلوچ قومی بقا اوروقار سے زیادہ اہم اور عزیز سمجھتے ہیں ہاں البتہ لکھی جانے والی تاریخ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔ یقیناًآج ہونے والے کردار بلوچ تاریخ کے اوراق میں نقش ہونگے۔

اکیسویں صدی کے ادوار میں ایشیا سمیت دنیا بھر میں مظلوم اقوام کے باسی آج بھی اپنوں کی خاطر لازوال قربانیوں کے تاریخی تسلسل کو برقرار رکھ کر رواں دواں ہیں، مگر ترقی یافتہ اور تہذیبی مراحل سے گزرنے والے آزاد سماج کے باسیوں کی چند انسانی اور اخلاقی ذمہ داریاں بنتی ہیں کہ وہ بحثیت آزاد قوم دنیا بھر کے مظلوم اقوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے سنگین محرکات کو اُجاگر کریں تاکہ لفظ انسانیت انسانوں پر ہونے والے تذلیل پر ندامت نہ ہو۔ بلوچستان میں حالیہ شورش دنیا میں زیر بحث ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے علمبردار اداروں کیلئے ایک فریاد بھری التجا کرتی چلی آرہی ہے، آج کے علم و شعور سے منسلک لوگ اور روشن خیال اشخاص کیلئے بلوچوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کوکس قدر اہمیت دی جاتی ہے؟ کیا بلوچ کو دنیا میں ایک باوقار قوم کی حیثیت سے جینے کا حق دیا جا سکتا ہے؟ جسکی خاطر آج بلوچ کو جن تکالیف اور مصائب کا سامنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بلوچ خواتین کی اغوانماگرفتاری اور قابض کی نئی پالیسی جہد آزادی کو متاثر کرنے کا ایک دیرینہ پالیسی ہے جو 1973کے زمانے میں بہت دیدہ دلیری کے ساتھ کی گئی تھی، جنکے نتائج میں بلوچ باغی اپنے روایتی اور تاریخی کارنامے پر کاربند رہ کردشمن کے خلاف لڑتے رہے، مگر بلوچ قومی وقار پر سمجھوتہ نہ کرپائے۔

اگر قابض پاکستان سمجھتا ہے کہ انہی پالیسیوں پر عمل پیرا رہ کر بلوچ قومی آزادی کی تاریخ میں کمزوری لانے کی کوشش میں کامیاب ہوگا تو میں یہ واضح کرتی چلوں کہ بلوچ اپنی قومی بقا اور وقار کی خاطر بڑے سے بڑے قربانی دینے کو تیار تھا اور آج بھی ہے اسی تناظر میں بلوچ حلقوں میں اس غیرانسانی اور غیر اخلاقی اقدام کے خلاف ایک نفرت پائی جارہی ہے، جو آنے والے دنوں میں ایک منظم اور متحرک قوت ہوتا چلا جائے گاچونکہ بلوچ تاریخ میں چند نقاط ہمیشہ اہمیت کے حامل پائے گئے ہیں جو جنگی حالات میں پیدا ہونے والی بحران میں ہمیشہ خواتین اور بچوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے جو آج ہمارےcode of honours میں شامل ہے اس طویل جنگ اور پیچیدہ حالات میں ان نقاط کی سختی سے پابندی ہوتا چلا آرہا ہے جو تاحال پابندی کے ساتھ کیا جا رہا ہے، مگر دوسری طرف انسانیت سے عاری دشمن جو تاریخی اعتبار سے قومی وقاراور ناموس جیسی عظیم احترام سے نابلد اپنی وحشیانہ اور درندگی کا اظہار اسی انداز میں اپنا رہی ہے، جو مستقبل قریب میں اپنی ان گھناُونی حرکات کے سبب قومی زوال اور تذلیل کا باعث ہوگا۔