آواران زلزلے کے بعد ریاستی مظالم ۔ محراب بلوچ

271

آواران زلزلے کے بعد ریاستی مظالم

محراب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

جدید دور کے جدیدتقاضات سے محروم آوارانی باسی قدیم رہن سہن پر مبنی عوام کے ذریعہ معاش کھیتی باڑی پر منحصر ہے۔ اگر کوئی دبئی و امارات میں مزدوری کرکے اپنے بچوں کے دو وقت کی روزی کماتا ہے تو وہ لوگوں کی نظر میں قدرے سیر نان ہے۔ یہاں کے عوام ریاستی روڈ، بجلی، بسرِ زندگی کے جدیدسہولیات سے یکسر محروم رہے ہیں، حتٰی کہ دورِ حاضر میں دنیا کے سستے سہولیات انٹرنیٹ سے محروم ہیں۔ روز فوجی بوٹوں کے تلے روندے جارہے ہیں۔ آج تک کسمپرسی کی زندگی بتا رہے ہیں۔

آواران چار تحصیلوں، آ واران، مشکے، جھاؤ، گیشکور پر مشتمل ایک ضلع ہے۔ آواران کا کُل رقبہ 21,630 کلومیٹر 8,350 مربع میل پر مبنی ہے۔ آواران کی کل آبادی تقریباً سات لاکھ سے بڑھ کر آٹھ لاکھ کے قریب ہے، پاکستانی مردم شماری اس گنتی کے برعکس ہے، ریاستی مردم شماری کے مطابق ساڑھے دو لاکھ کے قریب ہے۔ لیکن ایسا بالکل نہیں ہے وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے ریاستی مردم شماری سے بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ اصل تعداد ریاست کے پاس موجود نہیں ریاستی گنتی قیاس آرئی پر مبنی ہے۔ یہاں کے لوگ ایک دوسرے کے کمک و تعاون میں ایک دوسرے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں، ایک دوسرے کے درد،غم خوشی سب میں شریک ہیں۔

یہاں کی طرزِ زندگی کو قدرتی آفات، زلزلے کے بعد ریاستی فورسزنے بالکل بدل ڈالی، لوگوں کی رواں زندگی کے سمت کو روانگی سے برطرف کردیا، لوگ آج تک ذہنی کوفت کا شکار ہیں۔ فورسز کو اپنی لاچارگی کا سبب ٹہراتے ہیں۔ زلزلے کے جھٹکے 24 ستمبر2013 کو قریب چار یا ساڑھے چار بجے کے قریب محسوس ہوئے، جس کی شدت 7.8 ریکارڑ ہوئی۔ زمینی جھٹکے نے ڈنڈار سے لیکر مشکے جیبری تک جھاؤ کے مختلف علاقوں میں بھی گاؤں کے گاؤں منہدم کردیئے۔ پانچ سو کے قریب لوگ موت کی نیند سوگئے۔ دوہزار آٹھ سو سے زائد لوگ زخمی ہوگئے، سینکڑوں لوگ بے گھر بے یارو مدد گاررہے۔

زلزلہ کے بعد لوگوں کوریاستی اداروں سے کوئی تعاون و اقدام نظر نہیں آیا، نہ کہ ہمہ وقت ریاستی ریسکو زرائع پہنچے، سوائے بی ایس او کے نوجوان، بی این ایم کے ورکروں کے۔ انہوں نے لوگوں کے ملبوں کو آٹھاتے ہوئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی۔ دو تین دن بعد غیر ملکی این جی اووز دو تین اور انسان دوست اداروں نے لوگوں کی مدد کیلئے خورد و نوش کی مختلف اشیاء لے آئے، لیکن ریاستی فورسز نے متاثرہ علاقوں تک پہنچنے سے روک لیا، راشن سے لدے ٹرکوں کو اپنے کیمپوں میں ٹہرایا۔ برابر ایک ہفتے کے بعد اچھے خاصے ضروری اشیاء کو اپنے کیمپوں میں رکھا، حتٰی کہ فوجیوں نے اپنے آبائی علاقوں میں یہی متاثریں عوام کے اشیاء بھیجے۔ بعد میں فورسز نے اپنے سرکاری وردی کو چمکانے کیلئے بڑی تعداد میں زمینی فوج کو رلیف کے اشیا دے کر رلیف کیلئے روانہ کی اور فضامیں ہیلی کاپٹرزکے ذریعے گشت کے دوران بہت سے جگہوں پر شیلنگ کی گئی، شیلنگ کے نتیجے میں مشکے نلی میں دو نہتے لوہار شہید ہوگئے۔

ریاستی فورسز نے صحافیوں کو حالتِ اظہار پیش کرنے سے منع کیا، انہیں اُن متاثرہ علاقوں کی خبرنشر کرنے سے روک لیا، حقیقی حالت سے برعکس فوج نے حالات کو اپنی من گھڑت خبروں کو جھوٹ کا جامعہ پہنا کرپھیلایا، دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی کہ پاکستانی افواج لوگوں کی مدد میں پیش پیش ہیں۔ کیونکہ فوج اپنا مسخ چہرہ دیکھانا گوارہ نہیں کرتے تھے۔
2013 سے قبل آواران کے ایسے بعض علاقے تھے، جہاں فوج کا جانا کجا کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ فوج وہاں تک اپنے قبضہ کو جمانے میں سود مند ہوگی، ہماری زندگی کو اجیرن بنادیگی کیونکہ ماقبل زلزلہ آواران کے بہت سے علاقے ریاستی فوج و اداروں کیلئے نوگو ایریاز میں شمار ہوتے تھے۔ فوج نے ریلیف کے نام پر فائدہ اُٹھاکر زمینی فورسز کے ساتھ فوجی و ہیلی کلاپٹروں کے زریعے بہت سے علاقوں میں کچھ راشن دیکر لوگوں کو اپنے جال میں پھنسایا، لوگوں کی قتل و غارت کے ساتھ ساتھ انہیں اُٹھاکر لاپتہ کردیا گیا۔ ہمیں دو اشخاص کے بارے میں اچھی طرح یاد ہے ایک کراچی کے رہنے ولا کریم ولد فقیر محمد ایک آواران کے سیاہ گزی کے رہائشی انور ولد جان محمد کو آواران کے علاقے ہوور سے دورانِ راشن تقسیم گولی مار کر زخمی کردیا گیا، پھر دونوں کواُٹھا کر لاپتہ کردیا جو تاحال لاپتہ ہیں۔

پسماندہ، بھوکے لوگوں کے معاشرے میں مراعات زہرقاتل ثابت ہوسکتی ہیں، اگر قبضہ گیر کی فریبانہ حرکات و سکنات کو سمجھ نہ پائے تو اسی طرح سادہ لوح عوام فوج سے قربت حاصل کی، اسی دوران بلوچ قومی آزادی کی تحریک انُ علاقوں سے آج کی نسبت زیادہ تر متحرک تھی، ریاستی فوج لوگوں کو مجبور کرنے لگا کہ آزادی پسند ریاست مخالف عناصر کی نشان دہی کریں تاکہ انہیں آسانی سے حراساں کریں یا انہیں مار کر قتل کردیں۔ لوگوں نے اس گھناؤنی عمل میں شراکت داری سے انکار کی فورسز نے لوگوں کو مختلف ذہنی و جسمانی تشدد کا شکار کیا اور قتل و غارت شروع کی۔

بہت سے ایسے واقعات ہیں، یہاں میں ایک بیان کرتا ہوں، یہ واقعہ جو کھلم کھلا لوگوں کے سامنے پیش آیا۔ گیشکور کے رہاشی گورنمنٹ ٹیچر واجہ خدا بخش اپنے گاؤں کے میر تھے، آپ نے فوج سے نزدیکی کی تاکہ گاؤں کے لوگوں کیلئے کچھ حاصل کرسکیں، کیونکہ لوگوں کی سرپرستی آپکو حاصل تھی، لوگوں کی آنکھیں خدابخش پر ٹکی تھیں۔ خدابخش قبضہ گیر فوج کے مکر و فریب سے ناواقف تھے، ایک دن گیشکور کے کیمپ میں کاشف نامی میجر نے کہا کہ گیشکور، کولواہ کے مختلف آزادی پسند عناصر کی مخبری کرو ہم انہیں اپنا ہدف بنائیں گے، آپ لوگوں کی ہر ضرورت پورا کرنے کو ہم تیار ہیں۔ یہ بات ایک غیرت مند بلوچ کیلئے تیر سے کم نہیں کہ صدیوں سے ایک ہی زمین پر زندگی بتاِنے والوں کو غیر ملکی قبضہ گیر کی ہاتھوں قتل کروا دے اور اپنی زمین کی مبارک خاک سے اپنے ہمسائے یا اپنے رشتہ دار کا خون ایک غیر سے کروا دے، اپنے پیٹ کی خاطر۔ واجہ خدا بخش ان باتوں سے بالکل انکاری رہا، بعد میں خدابخش کو ایک اور بلوچ ، ڈاکٹر ثنااللہ کے ساتھ آٹھا کر لاپتہ کردیا گیا، دو مہینے کے بعد موصوف کی لاش کے ساتھ ماسٹر ثناللہ کی لاش خضدار میں پھینک دیا گیا۔ لاشیں پہچانے جانے کے قابل نہیں تھا۔ آج تک دورِ حاضر میں لوگوں کے اغوا برائے تعاون، اغواکے بعد لاشیں ملنا، گھروں کو جلانا، مسمار کرنا، مسلسل جاری ہے ریاستی فوج کے سرپرستی میں چوری ڈکیتی روز بہ روز جڑ پکڑ رہے ہیں، عوام کی سب سے بڑی سردرد ریاستی فوج ہے۔

 

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔