سچ میں سچائی کیا ہے؟ – برزکوہی

1856

سچ میں سچائی کیا ہے؟

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

سچائی میں اگر سچ اور سچائی کی جستجو کی سعی کرنا ہو تو سچ اور خود سچائی کیا ہے؟ کہاں پر ہیں، کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور کہاں پر ختم؟ میں کیسے سچا ہوں، تم کیسے سچے ہو؟ فیصلہ کہاں پر ہے، کون کرتا ہے اور کیسے کرتا ہے؟ انتہائی آسان معنی و مفہوم میں سچ سمجھنا اور سچ بولنا سچائی ہے مگر کیسے؟ اگر سہل الفاظ میں بیان کریں تو سب لوگ سچے ہیں، سچ کے دعویدار ہیں، کوئی نہیں کہتا میں جھوٹا ہوں، پھر کیا سب کے سب سچے ہیں؟ پھر جھوٹا کوئی نہیں؟ جب جھوٹ کا وجود دنیا میں نہیں یا جب جھوٹ اور سچ کا تضاد ہی نہیں ہے، تو پھر سچ خود کیسے وجود رکھتا ہے، پھر سچ کی اہمیت اور افادیت کیا ہوگا؟ جب پیداواری نظام سے طبقات کا جنم نہیں ہوگا، تو خود طبقہ موجود نہیں ہوگا، جب طبقہ موجود نہیں ہوگا تو تب طبقاتی جہدوجہد ہی نہیں ہوگا، اسی طرح جب جھوٹ نہیں ہوگا تو سچ کے وجود کا کہاں سے نمو ہوگا؟

کیا ہر ایک کے شعور و مزاج کی سطح سے جنم لینے والا اس کا زوایہ نظر اور نقطہ نظر جو بھی ہو، وہ سچ ہے؟ یا ہر ایک کا مزاج و سوچ شعور خواہشات اور سمجھنے کے مطابق من و عن اظہار کرنا عمل کرنا یا تحریر کرنا وہ سچ ہے؟ کیا ایسا ممکن ہوگا؟ اگر ناممکن ہے پھر کسی بھی انسان کی ذاتی شعور خواہشات تمناوں مزاج اور سوچ کے برعکس کچھ لکھنا کچھ کہنا سچائی نہیں جھوٹ فریب اور دوکھا باعث نفرت ہے؟ کیسے اور کس طرح؟ اسی حوالے سے یونانی فلاسفر جوسفر تھیلس کہتا ہے ہر انسان جو سچ سمجھتا ہے اس کے لیئے وہی حقیقت و سچائی ہے اور جو دوسرا خیال کرتا ہے، اس کے لیئے وہی سچ ہے، اس طرح ایک ہی حقیقت کے کئی روپ سامنے آگئے، اصل حقیقت اور سچ معدوم ہوگئے۔

میں ایک بار پھر مشہور و معروف دانشور و ماہر نفسیات انتھونی رابنز کے الفاظ مستعار لیتا ہوں، وہ کہتا ہے کہ “غلط ملط اچھا برا اور ہر قسم کے مختلف خیالات پہلے انسان کے ذہن پر مسلسل اثر انداذ ہونگے، پھر وہ خیالات رفتہ رفتہ عقائد بن جائینگے اور وہ ان عقائد کو سچ مانے گا، پھر ان کو توڑنا انتہائی مشکل ہوگا، وہ میز کی مثال دیتا ہے کہ میز کی چار ٹانگیں انسانی خیالات ہیں اور خود میز عقیدہ ہوتا ہے اور عقیدے کو انسان ہمیشہ سچ سمجھتا ہے۔” یہاں عقیدے سے مراد مذہبی یا غیر مذہبی بھی لیا جائے یعنی مذہب سیاست اور تحریکی خیالات اور عقائد سب شامل ہیں۔

انسانی نفسیات کے ماہرین نے بیسویں صدی میں نفسیاتی مسائل اور ذہنی بیماریوں کو‘ جن میں شائزووفرینیا SCHIZOPHRENIA ڈیپریشن DEPRESSION اور بائی پولر ڈس آرڈرBIPOLAR DISORDER بھی شامل ہیں‘ سمجھنے اور ان کا علاج کرنے کے لیئے جو ماڈل تیار کیا ہے، جو بائیو سائیکو سوشل ماڈل BIO-PSYCHO-SOCIAL MODELکہلاتا ہے۔ اس ماڈل کے مطابق انسان کے نفسیاتی مسائل کو سمجھنے کے لیے تین طرح کے عوامل اہم ہیں۔

۱۔ حیاتیاتی عوامل۔۔۔BIOLOGICAL FACTORSجن میں موروثی عوامل شامل ہیں جو بچوں کے ذہنوں کو متاثر کرتے ہیں. ۔ بعض بچے بعض ذہنی امراض وراثت میں پاتے ہیں۔

۲۔ نفسیاتی عوامل۔ PSYCHOLOGICAL FACTORSنفسیاتی طور پر غیر صحتمند خاندانوں میں پلنے والے بچوں کی نشوونما میں شامل تلخ تجربات اور نفسیاتی دھچکے مستقبل میں ان کی شخصیت کو منفی انداز میں متاثر کرتے ہیں اور نفسیاتی مسائل کو جنم دیتے ہیں۔

۳۔ سماجی عوامل۔SOCIAL FACTORS خاندانی مسائل‘ معاشرے میں تشدد کے واقعات اور ہجرت کے تلخ تجربات ان عوامل میں شامل ہیں۔

جب ماہرینِ نفسیات مریضوں کی تشخیص کرتے ہیں تو وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ مریض کے مسائل میں حیاتیاتی‘ نفسیاتی اور سماجی عوامل کی اہمیت کیا ہے۔ اس تشخیص کے بعد وہ ان کا علاج تجویز کرتے ہیں جس میں ادویہMEDICATIONS ‘ تھیراپیTHERAPY اور ذہنی صحت کے بارے میں تعلیم و کونسلنگ EDUCATION شامل ہیں۔

اکثریت لوگ آج تک نفسیاتی مریضوں کو روحانی اور جن و بلا کا حملہ سمجھ کر مذہبی پیشواؤں، مولویوں اور فقیروں کے پاس لے جاتے ہیں، جو ان کا گنڈا تعویز، خیرات، دعا اور چالیس دن ایک کمرے میں اکیلا بند کرنے (رکھ)سے علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ ان نفسیاتی مسائل کو روحانی مسائل سمجھتے ہیں۔

کیونکہ نفسیاتی مسائل اور ان کے علاج کے حوالے سے لوگوں کے غلط اور فرسودہ خیالات اب ان کے عقائد بن چکے ہیں اور ان ہی عقائد کو سچ اور سچائی مانتے ہیں، کیا واقعی یہ سچ اور سچائی ہے؟ اگر نہیں ہے، تو آج بلوچ سیاست اور قومی تحریک میں ایسی بہت سے چیزیں اور معاملات نہیں ہیں کہ وہ خلط ملط ہی صحیح پہلے ہمارے خیال، بعد میں عقائد اور آج ہم ان کو سچ سمجھ کر سچائی کے دعویدار ہیں؟

اگر ہم یہ دلیل پیش کرتے رہے ہیں کہ وہ اور معمالہ ہے، یہ اور معمالہ پھر میرے خیال میں یہ غیرمنطقی منطق اور سراسر غلط ہوگا کیونکہ انسان کا سوچ ذہن و شعور کا سطح ایک ہے اور وہ ہر جگہ ایک ہی رہتا ہے، انسان کے سر میں ایک سے زیادہ دماغ نہیں ہوتے، صرف ایک ہی دماغ ہوتا ہے اور اسی طرح شعور اور علم بھی ایک جیسا ہوتا ہے۔

آج ہم روز مرہ ذندگی اور تحریکی زندگی میں کیسے کیسے خیالات کا شکار ہوکر، انہیں اپنا عقائد بنا چکے ہیں، نفیساتی مسائل کا تعویز گنڈا اور خیرات سے علاج اگر غلط ہے، وہ لوگ ہمارے نظر میں جاہل اور بے وقوف ہیں، تو کیا ایسے باشعور اور لوگ دنیا میں موجود نہیں ان کی نظر میں ہمارے تحریکی عقائد کس طرح غلط اور پسماندہ ہیں؟ جس طرح تعویز گنڈا پرعقائد و علاج اور یقین رکھنے والے سچ کو ماننے کو تیار نہیں، اسی طرح ہم پھر کس حد تک اپنے عقائد پر ڈٹے ہوئے، سچ کو ماننے کے لیئے تیار ہیں؟ ہم ان کو بے وقوف اور جاہل تو کہہ سکتے ہیں، پھر جو ہم سے سوچ کے حوالے سے باشعور ہیں اور اعلیٰ سوچ کے مالک ہیں، ان کی نظر میں ہم کہاں پر کھڑے ہیں اور ہماری سچائی کیا ہے؟

سچائی کے حوالے سے جرمن فلاسفر آرتھر شوپنہار کی مستند رائے ہے کہ “تمام سچائی تین درجوں سے گذرتی ہے، سب سے پہلے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے، پھر اس کی سختی سے مخالفت کی جاتی ہے اور آخر میں اسے خود آشکار کی صورت میں مان لیا جاتا ہے۔”

ایلیا کے رہنے والے ایلیائی مکتبہ فکر کے بانی اور فلاسفر پارمینی ڈیز کے نزدیک “حرکت، تغیر، عروج و زوال اور ارتقاء سب کچھ نظر کا دھوکہ ہے، انکی کوئی حقیقت نہیں۔” اس کا خیال تھا کہ حقیقت کا علم صرف عقل سے حاصل ہوسکتا ہے، انسانی حواس صرف دھوکا دیتے ہیں یہ حقیقت اور سچائی کا علم نہیں دے سکتے۔

تو عقل سے علم و ادراک اور علم سے شعور و اداراک سب مل ملا کے آخر عقل ہی سے عقلمندی اور دانش مندی تخلیق ہوتا ہے، ابھی علم و شعور کا پیمانہ کیا ہے؟ کس سطح پر ہے؟ تاکہ ہم اصل سچائی کو پرکھیں اور سمجھیں؟ اگر نہیں ہے بھی تو کمزور ہے، تو پھر حواس کے ذریعے پرکھنے اور سمجھنے والی چیزوں سے جنم لینے والے خیالات کو عقائد پھر عقائد کو سچ اور حقیقت مان لیں؟ کیا ہم غلط رخ اور غلط سمت میں محو سفر نہیں ہونگے؟ فریب دھوکے کا شکار نہیں ہونگے؟

کثیر تعداد میں ہی نہیں، قلیل تعداد میں انسانوں کا نفسیات ہوتا ہے، وہ عقل سے شاید ہی سچ کو سچ مان کر جان کر بھی بقول فلسفی آرتھر سچ کا مذاق اور مخالفت کو مدنظر رکھ کر مذاق اور مخالفت کی خوف یا ذاتی خواہشات، مفادات، مجبوریوں، سماجی خدوخال و شعور ذاتی رشتوں، جذباتی و ذاتی تعلق، رواداری اور لالچ کی حصول کے خاطر سمیت یا اپنی ضد و ہٹ دھرمی کی وجہ سے سچ کو تسلیم کرنے اور سچ کہنے کی جرت نہیں کرتے ہیں۔

اسی لیئے اکثریت لوگ جو عقل سے عاری ہوکر حواس کے مطابق عمل کرتے ہیں، وہ تیسرے درجے یعنی سچ کو تسلیم کرنے کی حد تک نہیں پہنچ سکتے ہیں یعنی اس میں عقل والوں کے گناہ زیادہ، حواس والوں کے کم ہیں۔ کیونکہ عقل والے لالچ اور خوف کی وجہ سے مسلسل مذاق اڑانے اور مخالفت سے گھبرا کر سچ کو سچ ثابت کرنے اور اپنانے سے گریزاں ہوتے ہیں، پہلے وہ گناہ گار ہوتے ہیں، دوسرا وہ جو عقل کے بجائے حواس سے کام لیتے ہیں۔

انسان کو ہمیشہ عقل و شعور حیوانوں سے ممتاز کرتا ہے، یعنی حواس کے بجائے عقل سے کام لینا چاہے کبھی کبھبار اور اکثر باقی لوگوں کو چھوڑ کر ہم تحریک سے وابستہ جہدکاروں کی سطحی تصوراتی حواس کے بل بوتے پر اندازوں، سطحی تجزیوں، قیاس آرائیوں، مختلف خلط ملط خیالات سے بننے والے عقائد اور عقائد کے ردعمل سے پیدا ہونے والے اظہار آراء فیصلوں، ادارک اور اقدامات کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں، اس وقت ان کے سوچ پر ماتم کے سوا ہمارے پاس کچھ نہیں ہوتا ہے کہ عقل و شعور کا تقاضہ کرنے والے راستے پر چل کر بھی شعوری جہد کے دعویداری میں اس طرح بھیڑ و بکریوں کی طرح سر نیچے کرکے بھاگنا یعنی جانوروں سے بھی کئی گناہ زیادہ عملاً جانور بن کر وقت گذاری کرنا باعث حیرت اور باعث تعجب ہے۔

روس کے مہشور و معروف عظیم ناول نگار فوہیڈر دستوفیسکی کہتے ہیں کہ “دنیا میں سب سے مشکل کام سچ بولنا اور آسان کام خوشامد کرنا ہے۔” دستوفیسکی کے معنی خیز پراثر اور وسیع خیال جملے کے تناظر میں ہمیں سچ اور سچائی سے انحراف کی جستجو میں مدد کا بہترین موقع ملتا ہے، جس کو ضائع کرنا ناانصافی ہے۔

لوگ سچ کیوں نہیں بولتے ہیں؟ ایک تو وہ لوگ جو عقل سے پیدل ہوکر، حواس کے آغوش میں حقیر سے فقیر ہیں، وہ ہمیشہ حالات و ماحول کا شکار ہوکر درخت کے خشک پتوں کی طرح ہوا کے رخ کا ساتھ کبھی ادھر کبھی ادھر ہوتے رہتے
ہیں۔

دوسرا جو سچائی اور سچ کو جان کر بھی مشکل کام سمجھتے ہیں، جب سچ مشکل ہوگا، تو وہ آسان کام خوشامد کو سمجھتے ہیں پھر تو خوشامدی خود سچ کے تضاد جھوٹ منافقت دھوکا فریب خوف لالچ اور چاپلوسی کا مربہ ہوتا ہے، یہاں سے سچ کو پیروں تلے روند کر جھوٹ کا سفر خوشامدی کی شکل میں شروع ہوتا ہے، پھر اس کی مختلف شکلیں دھوکا و فریب، منافقت، خوف و لالچ، خود غرضی، حسد، بغض، ضد، ہٹ دھرمی وغیرہ کی شکل میں نمودار ہونگے۔

مزے کی بات یہ ہے، سچ سے انحراف کے لیئے اور خوشامدی کو سچ ثابت کرنے کے لیئے بھی ہر قسم کے لیئے منطق بھی موجود ہوتا ہے، اگر ایسا ممکن نہیں ہوتا تو دنیا میں اس وقت تمام جھوٹے برملا کہتے کہ ہم جھوٹے ہیں لیکن کوئی نہیں کہتا اسی لیئے کہ جھوٹ کے لیئے بھی منطق کے دروازے کھلے رہتے ہیں وہ الگ بات جھوٹ کی منطق کس حد تک اور کب تک دیرپاء اور اثرانداز ہوتا ہے، اگر ہوتا تو اس وقت تک دنیا کی سینے میں تاریخ کے صفحوں میں کوئی جھوٹا نہیں ہوتا، سب کے سب برابر یعنی سچے ہوتے۔

منطق جتنا ٹھوس ہو، سچ کو دھندلا نہیں کرسکتا البتہ ان لوگوں کو بے وقوف بنا سکتے ہیں، جو عقل سے نہیں حواس کے بل بوتے پر دوڑتے ہیں۔ دنیا میں اب تک کے سب سے ذہین انسان اور مشہور و معروف سائنسدان البرٹ آئن اسٹائن کیا خوب فرماتا ہے کہ “جو شخص چھوٹے کاموں میں سچ کا پرواہ نہیں کرتا، تو اس پر بڑے کاموں میں اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے۔”

میں عظیم انسان کے اس خیال کی تناظر میں اگر جرت کرکے یہ کہوں، شاید غلط نہ ہو ایک بار یا بار بار سچ کو مسخ کرکے جھوٹ بولنے اور غلط بیانی سے پھر انسان کسی جگہ سچ کہے بھی تو وہ بھی جھوٹ ظاہر ہوگا، بار بار جھوٹ بولنے یا غلط بیانی سے اک دم نہیں بلکہ رفتہ رفتہ دوسروے انسانوں کے دل و دماغ میں بداعتمادی کا آتش فشان تیار ہوگا، آج نہیں کل ضرور پھٹ جائیگا، اعتماد کا شیرازہ بکھر کر خاک ہوجائیگا۔ اسی لیئے کہتے ہیں، حادثہ اک دم نہیں ہوتے ہیں اس کی پشت میں طویل داستان ضرور ہوگا۔

تھامس جیفرسن کا مہشور قول، جس کے بغیر شاید زیر بحث ہمارا موضوع مکمل نہ ہو، جس میں وہ سچائی و ایمانداری کو دانائی کے کتاب کا پہلا باب قرار دیتا ہے۔

واقعی جب انسان میں سچائی نہیں ہوگا، اس وقت تک دانائی کا وجود ہی نہیں ہوگا، دانائی میں سچائی اور سچائی میں دانائی ہوگا، جھوٹ فریب لالچ اور خوف انسان کے تخلیقی صلاحیتوں کو ہمیشہ ملیا میٹ کردینگے، پھر دانائی کا سفر ہی ممکن نہیں ہوگا۔

ویسے شمالی افریقہ کے رومی صوبے کارتھیج کے سینٹ آگسٹائن نے جو فلسفہ اور الٰہیات کے درمیان جو خط امتیاز کھینچھا، اس حوالے سے اس کو فلسفی تو نہیں کہہ سکتے ہیں، گوکہ انہوں نے نوافلاطونیت میں جاکر پناہ لی، وہ کسی ایک جگہ نہیں ٹہرتا تھا، یہ خود ایک الگ اور طویل بحث ہے البتہ سچائی کے حوالے سے اس کا فلسفیانہ موقف سے استفادہ حاصل کیا جاسکتا اس کے نزدیک “وہی نظریہ علم قابل فہم اور قابل قبول ہے جو حقیقی سچائی کی طرف انسان کو لے جاتے ہیں۔”

تو اس وقت قومی آزادی کی پرپیچ اور پرکھٹن راستے میں بغیر علم و عمل خاص کر فلسفیانہ علم سے نابلد ہوکر محو سفر ہونا سچ اور سچائی سے کوسوں دور جھوٹ فریب اور دھوکے کی سحر سے ہم کبھی آزاد نہیں ہونگے، اگر ہم خود یہ فیصلہ اور تعین کرچکے کہ جھوٹ کو جھوٹ غلط کو غلط جان کر بھی اپنے خواہشات، مجبوریوں اور مفادات کی خاطر جھوٹ اور غلط کے ساتھ سمجھوتہ کرکے خود شعوری یا دانستہ فیصلہ کرچکے ہیں، تو وہ اور بات ہے۔

میرے خیال میں کوئی بھی کسی کو اس وقت تک سچ کو مسخ کرکے جھوٹ فریب اور غلط بیانی کی بل بوتے پر بے وقوف احمق اور دھوکہ نہیں دے سکتا اور غلط استعمال نہیں کرسکتا، جب تک اس کی اپنی خواہش، رضامندی اور مفاد شامل نہ ہو، کچھ نہ کچھ فیصد انسان کا اپنا باقی دھوکہ دینے والے کا کمال ہوتا ہے، یہ غلط ہے کہ انسان دھچکا اور پشیمانی کے بعد یہ کہے میں غلط ہوا، استعمال ہوا یا اس وقت ماحول کا شکار ہوا، یہ بذات خود بدترین منافقت اور دروغ گوئی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔

میرے اس رائے کی تصدیق کارل مارکس کی اس رائے سے ہوتا ہے کہ ” 80 فیصد فیصلے انسان کے داخلی (اندر)اپنی رضامندی اور صرف20 فیصد خارجی (باہر) یعنی ماحول حالات اور دوسروں کے ہوتے ہیں”

تو پھر ایسے ذہینوں پر آج بھی ماتم ہوگا، تاریخ اور وقت میں بھی ماتم کریگا، بس پھر انسان اتنا ہی کہہ سکتا ہے کہ دنیا میں اس وقت تک کھربوں اور عربوں انسان اگر استعمال ہوتے گئے، ضرورت اشیاء اور ذرائع کی طرح یہ لوگ بھی اسی طرح استعمال ہونگے اور ہوتے رہینگے۔

اگر سچائی کے دامن کو تھام کر ایک سچا اور حقیقی رول ماڈل کردار کی خواہش اور شعور ذہن میں ہو تو علم و عقل ہی سے کام لینا، یہ تجسس اور پیاس خود انسان کو آخرکار سچائی کی دریا تک پہنچا سکتا ہے، بشرطیکہ انسان کی خود کی داخلی (اندر) چاہت لگن اور ارادہ ہو۔