یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا
تحریر: بہرام بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
11 اگست بلوچستان کی آزادی کا دن ہے، بلوچ قوم نے اس دن بڑی مشکلات و مصائب، پُر کھٹن حالات و واقعات کے بعد اپنے وطن کو انگریز سامراج کے شکنجوں سے آزاد کروایا۔ بلوچ قوم اس دن کو ہمیشہ اپنے آزادی کے طور پر مناتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے جس طرح اس دن کے منانے کا حق ہے، اس طرح منایا نہیں جا سکتا ہے، کیونکہ بلوچستان انگریزوں کے ہاتھوں سے نکل کر ایک اور سامراج کے ہاتھوں چڑھ گیا اور اسی طرح بلوچ قوم کی آزادی ایک بار پھر سلب کر دی گئی لیکن بلوچ قوم نے اس جبری قبضے کو مسترد کرتے ہوئے جہد آزادی کے راستے کو پھر اپنا لیا، یوں یہ بے حس اور لالچی سامراجی ملک نام نہاد اسلامی نام کا سہارہ لیکر کر مسلمانیت کے نام کا ڈھنڈورا پیٹتا ہوا بلوچستان پر اپنے قبضہ کو دوام بخشنے کیلیئے آج تک سرگرم ہے۔
ستر سالوں سے ریاست بلوچستان پر قبضہ جمائے رکھنے کیلئے مختلف حربے استعمال کر رہا ہے۔ بلوچ قوم نے نہ انگریزوں کےظلم پر چُپ سادھ لیا اور غلامی قبول کی اور نہ نام نہاد اسلامی ریاست کے خلاف بغاوت ترک کر دیا۔ انیس سو اڑتالیس سے لے کر آج تک بلوچ قوم نے وہ اذیتیں سہہ لیئے ہیں کے تاریخ میں ایسے ظلم و جبر کے نظیر نہیں ملتی ہے، لیکن بلوچوں نےکبھی اپنے وطن پر کمپرومائز نہیں کیا۔ دشمن جس طرح ظلم کے پہاڑ ڈھائے جاتا ہے، بلوچ سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور مقابلہ کرتے ہیں۔ دشمن نے کونسا ظلم نہیں کیا، گھروں کو جلا دیا گیا چھوٹے چھوٹے بچوں کو زندانوں میں بند کر دیا گیا، نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں پیھنک کر یہ خواب دیکھتا رہا ہے کہ پیچھے ہٹ جایئنگے لیکن یہ خواب خواب ہی رہا۔ بلوچ قوم آگے بڑھتا جا رہا ہے اور اپنے وطن کیلیئے کسی طرح کے قربانی سے پیچھے نہیں ہٹ رہا ہے۔
11 اگست 2018 کو بلوچستان کے علاقے دالبندین میں جو واقعہ پیش آیا اس نے مجھ سمیت ہر ذی شعور انسان کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا. میں بیٹھا فیس بک دیکھ رہا تھا کہ دالبندین میں دھماکہ ہوا، تو دل کو تسلی ہوگیا، بلوچ تنظیموں نے کی ہوگی تھوڑی دیر بعد ایک اور خبر پڑھا کہ یہ دھماکہ بلوچستان میں سونا، تانبا، کوئلہ اور دیگر معدنیات کی لوٹ مار میں پاکستان کے ساتھ دینے والے چینی انجینئروں پہ ہوا ہے، تو دل اور خوش ہوا کہ چینی انجینئروں پر اس سے پہلے بھی کئی حملے ہو چکے ہیں، لیکن یہ بلوچستان کی معدنیات کی لوٹ مار اب تک ترک نہیں کرتے ہیں۔ لیکن میری ساری یہ خوشی اچانک اس وقت ختم ہوگئی، جب میں نے تیسرا خبر پڑھا کہ یہ حملہ خودکش تھا۔ اور میں سوچنے لگا کہ یہ خودکش تو بلوچ نہیں کر سکتے ہیں، یہ دشمن کی کوئی نئی چال ہوسکتی ہے. کیونکہ بلوچ تنظیموں کی طرف سے یہ تاثر نہیں تھا مجھے۔ اس سے پہلے 2011 میں بلوچ راجی گل (بی ایل اے )کے ایک ساتھی درویش بلوچ نے بھی کوئٹہ میں ڈیتھ سکواڈ کے کیمپ پر فدائی حملہ کیا تھا، جس سے ڈیتھ سکواڈ کے بہت سارے بندے مارے گئے۔
البتہ اس سے پہلے والے فدائی حملے سے میں بے خبر تھا کہ 1974 میں مجید بلوچ نے ذولفقار علی بھٹو کے قافلے پر خود کو اُڑا دیا تھا. اس خبر نے مجھے کافی تشویش میں مبتلا کردیا کہ آخر یہ کون ہے، جس نے اتنا بڑا رِسک لے کر اپنے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، کچھ ہی دیر میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا بیان سامنے سے گذرا تو میں چونک گیا ریحان بلوچ کی تصویر دیکھ کر مجھے یہ یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ فدائی ہوسکتا ہے. بلوچ راجی گل کی طرف سے یہ بیان دیا گیا تھا کہ دالبندین میں چینی انجنیئروں پر فدائی حملہ کرنے والے ریحان بلوچ ہمارے مجید بریگیڈ کے ساتھی تھے، جس کی ذمہ داری ہم قبول کرتے ہیں۔
ریحان بلوچ نے تو وطن پر قربان ہوکر ایک نئی تاریخ رقم کرلی۔ خودکش حملہ کرنے والوں کو اکثر برین واش کرکے ان سے یہ کام لیا جاتا ہے، جو صرف مرنا جانتے ہیں، زندہ رہنے کی خواہش ختم ہوگئی ہوتی ہے۔ لیکن ریحان بلوچ نے جس بہادری سے خود کو وطن پر نثار کیا اس کی مثال نہیں ملتی ہے، ریحان بلوچ اپنے آخر میسج میں قابض ریاست کے ساتھ دینے والے چین کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلوچ کے مرضی و منشاء کے بغیر بلوچستان کو لوٹنے کی اجازت کسی کو نہیں دینگے، اگر کوئی بلوچستان کے معدنیات کو لوٹنے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کو ہمارے قہر کا سامنا کرنا پڑیگا۔ آہ! ریحان آپ جیسے جوان صدیوں میں پیدا نہیں ہوتے ہیں، آخری لمحات میں بھی آپ کی چہرے پر کوئی خوف کوئی جھجھک تک نہیں تھا، دیکھنے میں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ آپ دشمن کو زیر کرنے کیلئے فدائی کرنے جا رہے ہو۔
ایسے خوشی سے اپنے جسم پر بارود باندھ کر خود کو ختم کرنے کیلئے جگر چاہیئے ہوتا ہے۔ لیکن22 سالہ نوجوان ریحان اسلم بلوچ کے دل میں وطن کی محبت نے موت کا ڈر ختم کر دیا، وہ وطن سے انتہا کی حد تک محبت کرتا ہے، وہ دشمن کو دکھاتا ہے کہ بلوچستان پر جبری قبضہ کرنا کبھی بھی ہم قبول نہیں کریں گے، چاہے آپ جتنے ظلم و ستم کرلو، جتنے بلوچ قوم کے خلاف طاقت کا استعمال کرلو، ہم ہرگز اس قبضہ گِیریت کو پھلنے پھولنے نہیں دینگے، اس عزم کے ساتھ میرا ریحان جان بخوشی وطن کی خاطر جان دے کر ہمیشہ کیلئے امر ہوتا ہے.
یوں ہی سوشل میڈیا پر اس نوجوان فدائی کی خبریں گردش کر رہے تھے، تو ایک اور تصویر میں نے دیکھا، جس پر لکھا تھا ایک عظیم باپ اپنے نڈر بیٹے کو مشن پر بھیجنے سے پہلے اس کے سر پہ بوسہ دے کر رخصت کر رہے ہیں، میں بار بارتصویر کو دیکھ کر حیرت میں پڑ جاتا، ایک والد اپنے لخت جگر کو ایسے کیسے خندہ پیشانی کے ساتھ رخصت کر کے فدائی کیلئے بھیجتا ہے۔ مجھے اپنے آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا، لیکن اس عظیم باپ اور عظیم بیٹے نے یہ دشمن پر ثابت کردیا کہ وطن سے محبت کیسے کرتے ہیں۔
سلام اس باپ کو جو خود پہاڑوں پہ بیٹھ کر دشمن کے ہر ظلم و ستم سہہ رہا ہے، اپنی زندگی وطن پر قربان کی ہے. اپنے بیٹے کو بھی وطن کلیئے نثار کردیا ایسے باپ کی شان میں لکھنا، مجھ جیسے کم علم لوگوں کے پاس الفاظ نہیں ہے کہ میں کچھ لکھوں۔ اس سے بڑھ کر ایک اور تصویر نے مجھے رُلانے پر مجبور کر دیا، میری سانس رُک گئی، میرے آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ آہ! یہ کیا دیکھ رہا ہوں، ایک ماں اپنے بیٹے کو وطن کی خاطر قربان ہونے کیلئے رخصت کررہی ہے۔ اُف! کیا لمحہ تھا، جب ماں بیٹے گلے لگ رہے تھے اور بیٹا ماں کو کہہ رہا تھا “ماں دل چھوٹا نہیں کرنا” اور ماں کہہ رہی تھی “جا بیٹا میں نے تجھے وطن پہ قربان کردیا ہے۔” مجھ سمیت ہر زندہ دل انسان ماں بیٹے کے اس تصویر کو دیر تک نہیں دیکھ سکتا.
ایسی ماں کی شان کو الفاظ میں بیان کرنا شائد مشکل نہیں ناممکن ہو. ایسے لمحات کو قلمبند کرتے ہوئے بڑے بڑے لکھاریوں کے قلم بھی رُک جائے، الفاظ ان کا ساتھ چھوڑ جائے۔ میرے پاس کوئی الفاظ نہیں۔ لکھنے کیلئے بس اتنا کہہ سکتا ہوں مات یاسمین تجھے لاکھوں سلام۔