انسان حقوق کی پامالیاں آج کسی خبر سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہیں – ماما قدیر بلوچ
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کیجانب سے لگائے گئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو3154 دن مکمل ہوگئے جبکہ کوئٹہ سے نور محمد بلوچ، نوروز بگٹی سے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لاپتہ افراد و شہداء کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیمپ کا دورہ کیا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کی مناسب سے انسان اپنی حیثیت اور پہچان کو لے کر آج خود میں ایک سوال بن گیا ہے۔
انہوں نے کہا آج اکیسویں صدی کو ترقی یافتہ دور اور جدید میڈیا کا دور کہا جاتا ہے مگر انسان تو صرف پیٹ کی بھوک مٹانے کا نام ہے، کیا زندہ انسان کا وجود ہے، کیا انسان آج کی ترقی یافتہ دور میں کوئی مقام رکھتا ہے۔ یہ سوالات شاید کسی ذی الشعور کے لیے جھنجوڑنے والے ہوں مگر اس سماج میں آج کل کے پڑھے لکھے لوگوں کے لیے وقت گزاری یا صحافتی اداروں کے لیے ایک سرخی ہونگی مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان حقوق کی پامالیاں آج کسی کے لیے صرف خبر سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہیں اس لیے کہ اپنی خودی میں زندہ ہیں اور زندہ انسان ناپید ہوچکی ہے۔
ماما قدیر نے کہا انسانی حقوق کی پامالیاں آج یہاں ایک سنگین مسئلہ ہیں اور انسانی حقوق ہم سب کے لئے کئی سوالات کا باعث بھی ہے کہ آج ہر انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ارد گرد پر نظر دوڑائے اور پھر اپنے ضمیر کو جھنجوڑتے ہوئے خود سے سوال کرے کہ کسی حد تک اس سماج کو یہ کھو کھلاکررہی ہے-
انہوں نے مزید کہا کہ وائس بلوچ فار مسنگ پرسنز کی طویل جدوجہد آج نہ صرف بلوچ قوم کے لیئے باعث فخر ہے بلکہ میرے خیال میں یہاں بسنے والے تمام قوام کی آواز اور ان کی ہمت ثابت ہوئی ہے۔ آج پنتالیس ہزار سے زاہد بلوچ ریاستی اداروں کے عقوبت خانوں میں ہیں، ہزاروں بلوچوں کو ان چند سالوں میں ٹارگٹ کلنگ اور مسخ کر کے شہید کیا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ خاموشی کیوں ہیں، اس لئے کہ اس جبر کا شکار بلوچ ہیں۔