کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے لگائے گئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3142دن مکمل

147
File Photo

پنجگور سے اجتماعی قبروں کی دریافت نے پھر سے ریاستی اداروں کے چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ماما قدیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ ویب ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے لگائے گئے بھوک ہڑتالی کیمپ 2142دن مکمل ہوگئے۔ حب چوکی سے سیاسی و سماجی کارکن نور محمد رند بلوچ نے اپنے ساتھیوں سمیت لاپتہ افراد و شہداء کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے کیمپ کا دورہ کیا۔

وائس فاربلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات مثلِ خورشید عیاں ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں پاکستانی فورسز مکمل ملوث ہے ۔ سابقہ نام نہاد حکومتوں کے ادوار میں لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ ختم کر کے اُنہیں اب ایک نئی پالیسی کے تحت زمین میں ڈمپ کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے تا کہ وہ اپنی بربریت کو اسی تسلسل کے ساتھ جاری بھی رکھ سکیں لیکن اجتماعی قبروں کی دریافت نے پھر سے ریاستی اداروں کے چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے کیونکہ توتک کے بعد پنجگور میں دوسری دفعہ اجتماعی قبریں مل رہے ہیں ۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا اقوام متحدہ و عالمی اداروں کی بلوچ نسل کشی و اجتماعی قتل عام پر خاموشی پوری انسانیت کے لیے ایک انسانی المیہ سے کم نہیں بلکہ ایک عالمی سانحہ ہے ، میڈیا اور عالمی انسانی حقوق کے اداروں بشمول اقوام متحدہ کی اس انسانی المیے پر خاموشی خود بلوچ نسل کشی پر مہر ثبت کرتی ہے بلوچستان میں آئے روز لوگوں کا لاپتہ ہونا اور حراستی قتل کے بعد مسخ لاشوں کی برآمدگی سے بنگلہ دیش کی طرح پاکستانی فورسز کی صور ت بلوچستان میں بھی دنیا کے سامنے عیاں ہونے لگی ہے ۔ پاکستانی میڈیا نے اپنی طرف سے بلوچ نسل کشی کو چھپانے کی بہت ہی کوشش کی ہے اور کر رہا ہے لیکن اب یہ تاثر سامنے آنے لگی ہے کہ بلوچستان کے ہر علاقے اور کونے میں اجتماعی قبریں موجود ہیں ۔

ما ما قدیر دعویٰ کیا کہ ہمیں یہ اطلاع بھی ہے کہ خضدار کے علاقے توتک میں زندہ لوگوں کو دفن کر کے اُن کے اُوپر چونا ڈال دیا گیا تھا تاکہ اُن کے چہرے پہچانے نہ جاسکیں۔