وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یوں تو بلوچستان میں بلخصوص بلوچوں کے ساتھ ہونیوالی ناانصافیوں کی داستان بہت طویل ہے، 1948ء کے بعد بلوچستان پر غاضبانہ قبضے سے لیکر تاحال جاری بربریت اور ظلم و ستم میں ہزاروں بلوچوں کو ماراگیا۔ 1948ء کے بعد 59 ۔ 63 ۔ 69 ۔ 77 ۔ 73 اور پھر 2001 سے اب تک بلوچوں کے خلاف فوجی آپریشن کیئے گئے لیکن بلوچستان کے اس طویل بحران میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ بلوچ عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئیں ہیں اور بلخصوص ریاستی اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے بلوچوں کی بازیابی کے لیے بلوچ خواتین کاکردار دن بدن مظبوط ہوتا جارہاہے، بلوچوں کے حقوق کی اس جنگ میں چائے وہ مظاہرے ہوں، دہرنے ہوں ،ریلیاں ہوں، لانگ مارچ ،سیمینار ،پریس کانفریس یا بھوک ہڑتالی کیمپ ہوں، بلوچ خواتین ہر پلیٹ فارم پر اپنی موجودگی کا بھر پور احساس دلارہے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ پاکستان میں بلوچ خواتین کے بارے میں عام تاثر یہ قائم کیاگیا تھا کہ اُنھیں ان پڑھ رکھا جاتا ہے اور چادر و چاردیواری سے باہر کی دنیا ان کے لیئے ممنوع ہے لیکن گزشتہ چند برسوں میں بلوچوں کی آزادی و حقوق کی تحریک میں بلوچ خواتین کی شمولیت نے نہ صرف اس تاثر کو غلط ثابت کیا بلکہ اس تحریک کو ایک نیا موڑ بھی دیا ہے جس کی مثال حوران بلوچ، وشی بلوچ زرجان بلوچ، مائیکان بلوچ سمیت دیگر ہزاروں بلوچ خواتین ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہیہ خواتین بلوچستان میں ریاستی اداروں کے ہاتھوں ہونے والے اغوا ء، ماروائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف بلوچ عوام کی آواز بن گئیں ہیں لیکن جہاں ایک طرف بلوچ خواتین کی شمولیت نے بلوچستان کی تحریک کو ایک نیا موڑ دیا ہے وہی ریاستی اداروں اور فورسز کے بلوچستان میں بلوچوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور حربوں میں بھی تبدیلی آئی ہے ۔ اُن حربوں میں بلوچ خواتین کو ڈرانے اور دھمکانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیاہے بلکہ خواتین کو لاپتہ کرنا بھی اس میں شامل ہیں ۔