کاش میں بھی ریحان ہوتا – میرین بلوچ

317

کاش میں بھی ریحان ہوتا

تحریر: میرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دالبندین سیندک پروجیکٹ کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے، جہاں سے کاپر اور سونے کے ہزاروں ٹن نکالے جا چکے ہیں، یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے، یہ پروجیکٹ چائنیز کمپنی کے ہاتھ میں ہے، جہاں تمام انجنئیرز سے لیکر ٹیکنیشن تک چائنیز ہیں، ہاں البتہ بلوچ اور سیندک کے لوگوں کے لیئے ڈرائیور اور خاکروب کی آسامیاں آتے ہیں، کیونکہ چائنیز کو سیندک سے باہر آنے جانے میں بلوچ سرمچاروں کی وجہ سے دشواری ہے، ورنہ یہ کام چائنیز خود کرتے اور سیکورٹی پاکستانی فوج کا ذیلی ادارہ ایف سی کے پاس ہے، جو سیکورٹی کے مد میں کروڑوں روپے روزانہ کے حساب سے بٹورتا ہے، سیندک پروجیکٹ کی وجہ سے جو پرسنٹ(فیصد) پاکستان کو ملتی ہے، وہ وفاق اور پنجاب پر خرچ ہوتی ہے. دالبندین سیندک کے لوگوں کے مقدر میں بے روزگاری، جہالت، بیماریوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں. جہاں تعلیمی ادارے، اسپتال غیر فعال ہیں، بےروزگاری کی وجہ سے یہاں کے لوگ نان شبینہ کو محتاج ہیں، تعلیمی اداروں کا یہ حال ہے کہ نوکنڈی میں ایک کالج ہے جس کے دو لیکچرار ہیں اور پرنسپل برائے نام تک نہیں.

‎11 اگست کی صبح دس بجے کے قریب وٹس آپ پہ میسج آیا کہ دالبندین میں دھماکے کی آواز سنی گئی ہے اور دوسرا میسج آیا کہ سیندک سے چائنیز انجینئرز پر دالبندین ایئرپورٹ کی طرف جارہے تھے ان پر حملہ ہوا ہے. جب میں نے دیکھا تو خوشی ہوئی کہ ضرور یہ کارروائی بلوچ جہد کاروں نے کی ہے، کیونکہ آج کا دن تو مبارک دن بھی ہے آج کا دن ہی تو انگریز سامراج سے بلوچ قوم کو آزادی ملی تھی، بلوچ جہد کار پھر سے اپنی آزادی لینے کے لئے برسرے پیکار ہیں اور دشمن کو بتانا چاہتے ہیں کہ آپ نے ہماری آزادی سلب کی ہےاور ہمیں یہ غلامی قبول نہیں، اپنی قومی آزادی ایک دن ضرور لےکے رہینگے، انہیں سوچوں میں تھا کہ ایک اور میسج آیا، جس میں لکھا تھا کہ دھماکہ خودکش تھا، میری خوشی غائب ہوئی کہ یہ تو ریاست کی چال ہوگی. طالبان کے نام پر دھماکا کرنا اور چائنا سے اپنے ڈیمانڈ پورے کرانا ہے اور کچھ نہیں.

ایک دو منٹ گزرنے کے بعد بعد میسج آیا کہ آج کا خودکش حملہ بلوچ لیبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کر لیا ہے اور ساتھ ہی مادر وطن کی جانثار کی تصویر بھی شائع کی ہے کہ ہمارے سرمچار مجید برگیڈ کی فدائی ریحان بلوچ نے کی ہے، میں تصویر دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس نے تو ابھی ابھی جوانی میں قدم رکھا ہے، اتنی چھوٹی سی عمر میں اتنا بڑا کارنامہ؟ اتنی بڑی قربانی، اتنی بڑی زمہ داری؟ عقل حیران رہ جاتی ہے۔۔۔ یقیناً یہ قومی جزبہ ہے پھولین ریحان جان کو اتنی بڑی قربانی کے لیئے تیار کیا ہوگا. یقیناً بلوچ شہدا کی قربانی، ماں بہنوں کی عزمتوں، بلوچ اسیران کی گمشدگی کو، بلوچ قوم کی غلامی، لاچاری کو سامنے رکھ کر انفرادی زندگی کو اجتماعی لوگوں کی خوشحالی اور آزادی جیسی خوبصورت نعمت کے لیئے قربانی دی ہوگی.

دشمن سے لڑائی میں بلوچ نوجوانوں کے سینکڑوں نام آتے ہیں، جنہوں نے جام شہادت نوش کی ہے اور سینکڑوں اسیروں کے لسٹ میں شامل ہیں اور سینکڑوں دشمن سے برسرِ پیکار ہیں لیکن فدائی (خودکش) حملہ کرنے والوں میں ایک دو نام ہی سامنے آتے ہیں، شہید مجید اور شہید درویش. اور ایسا لگتا تھا کہ یہ سلسلہ رک گیا ہے۔ نہیں، نہیں۔۔۔۔ ہم غلط تھے، جب تک ریحان جیسے جانباز موجود ہیں، یہ سلسلہ رک نہیں سکتا.

شہید پھولین ریحان جان نے چھوٹی سی عمر میں ایک بڑا کارنامہ انجام دے کر شہید مجید، درویش جان کے قافلے میں شامل ہو گیا، جو نصیب والوں کو نصیب ہوتی ہے.


اتنے میں عظیم گوریلا کمانڈر ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کی سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پہ پیغام آئی جس میں لکھا تھا کہ ریحان جان کی شہادت اور اس کے والد بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مشہور و معروف کمانڈر استاد اسلم بلوچ کو خراج تحسین پیش کی کہ اس نے اپنے بیٹے کی رہنمائی کی ایک عظیم مقصد کے لیے.

میں حیران رہ گیا کہ یہ کیسا فلسفہ، کیسا شعور، کیسی فکر، اور کس جزبے کے تحت ایک باپ اپنے بیٹے کو قوم کے آنے والے دنوں کے لیئے بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیتا ہے اور مرنے کی دعا دیتا ہے؟
.
‎یقیناً یہ جزبہِ آزادی ہے اور غلامی سے نفرت ہے. جس کے لیے استاد کی خود کی زندگی اجتماعی لوگوں کی زندگی کے لیے وقف ہے اور کئی سالوں سے ظالم کے خلاف لڑرہا ہے. اور کئی بار زخمی بھی ہوا ہے، موت اور تکلیف کو روزانہ قریب سے دیکھتا ہے. باوجود اس کے اپنے لخت جگر کو قومی کاز، قوم کی بقا، قوم کی آزادی کے لیئے بارود کے ڈھیر پر بِٹھاتا ہے۔

‎وہ کیسا لمحہ ہو گا کہ استاد اور ریحان کی ماں نے اپنے بچے کو گلے سے لگایا ہوگا اور رخصت کی ہوگی اور مقصد میں کامیاب ہونے کی یعنی مرے کی دعا دی ہوگی۔ پھولین ریحان جان خندہ پیشانی، مسکراتے چہرے کے ساتھ ماں باپ کی نصیحت سنی ہوگی، اور دل میں قومی فکر، قومی درد لیئے گھر سے رخصت ہوا ہوگا، منزل کی طرف روانہ ہوا ہوگا۔.

ایک دفعہ بھی جینے کی امید، زندگی کے لیئے فکر مند نہیں ہوا، غلامی کی زندگی کو موت پہ ترجیح دیتے ہوئے، منزل کی طرف روادواں ہوا ہوگا، ادھر ماں باپ مقصد میں کامیابی (مرنے) کا انتظار کررہے ہونگے۔

اوخدایا! یہ کیسہ جزبہ ہے، اس احساس کو لکھنا، بیان کرنا دور کی بات ہے. محسوس تک نہیں کرسکتے۔ یقیناً آج ریحان نے بلوچ تحریک میں ایک بڑا نام پیدا کیا ہے. اور تحریک کو میری نظر میں ایک نیا رخ دیا ہے اور جوانوں کو ایک پیغام کہ موت کو آنا ہی ہے کیوں نا اسے خود ایک عظیم مقصد کے لیے چنا جائے. میں پھولین ریحان کے جزبے کو سرخ سلام پیش کرتا ہوں. جس نے چھوٹی سی عمر میں بڑا کارنامہ سرانجام دیا اور بلوچ تاریخ میں بڑا نام پیدا کیا.

محترم استاد اسلم بلوچ کو سلام پیش کرتا ہوں. جس نے اپنے جگر گوشے کو گلے لگا کر عظیم مقصد کے لیئے زندگی قربان کرنے کے لیئے روانہ کیا. پھر نا اسطرح کا والد پیدا ہوگا اور نا ہی ریحان جیسا بہادر بیٹا پیدا ہو گا، نہ ہی ریحان جیسے بہادر شعور یافتہ بیٹے. کاش ہر بلوچ باپ استاد اسلم ہوتا، کاش ہر ماں کا بیٹا ریحان ہوتا، کاش میں بھی استاد کا بیٹا ہوتا، کاش میں بھی ریحان ہوتا.

دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔