چینی انجنیئروں پر بلوچستان میں حملہ
رپورٹ۔ سی پیک واچ
ترجمہ۔ دی بلوچستان پوسٹ
11 اگست 2018 کو ایک خود کش حملہ آور نے چینی انجنیئروں کو لیجانے والے ایک بس پر بلوچستان میں حملہ کردیا۔ بعد میں یہ پتہ چلا کہ اس حملے کے پیچھے بلوچ لبریشن آرمی ہے۔ اس حملے کے بعد چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحفظ پر خاص طور پر بلوچستان میں بہت سارے سوال اٹھ چکے ہیں۔ اس واقعے پر کچھ ماہرین کی رائے درج ذیل ہے۔
بی ایل اے کے اس خودکش حملے کے بہت سے سیکیورٹی مضمرات ہوسکتے ہیں:۔
صفدر سیال ( ریسرچ انالیسٹ، پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پِیس اسٹیڈیز)
بلوچ لبریشن آرمی نے گاڑی کے ذریعے کیئے گئے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، جس میں چینی انجنیئروں کے بس کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے کے کثیر الجہت اثرات ہیں، خاص طور پر بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک اور امن و امان کی صورتحال پر اسکے وسیع اثرات مرتب ہونگے۔
اول تو شاید یہ پہلا خود کش حملہ ہے، جس کی ذمہ داری قومی پرست مسلح جماعتوں نے قبول کی ہے۔ زیادہ تر لوگ بلوچ انسرجنسی کے موجودہ سطح کو بلوچ مسلح جماعتوں کے طریقہ کار اور حکمت عملیوں کی وجہ سے نچلے درجے کی انسرجنسی قرار دیتے رہے ہیں۔ ان گروہوں کے حملے اتنے خطرناک نہیں رہے ہیں جتنی کہ مذہبی شدت پسند تنظیموں تحریکِ طالبان، جماعت الاحرار، داعش اور دوسرے اس طرز کے چھوٹے گروہوں کے رہے ہیں۔ لیکن دالبندین میں بی ایل اے کا خود کش حملہ یہ ثابت کرتا ہے کہ بلوچ مسلح جماعتیں اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کیلئے زیادہ مہلک اور خطرناک طریقے اختیار کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، سو وہ اپنے روایتی طریقہ جنگ جس میں فائرنگ کے تبادلے اور دیسی ساختہ بموں کے استعمال سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
دالبندین حملے سے جڑے کچھ اور عوامل بھی ہیں، جو اس خدشے میں مزید اضافہ کرتے ہیں کہ بلوچ مزاحمتی تنظیمیں بلوچستان اور پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کیلئے کتنا بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔ اول تو یہ کہ یہ حملہ کسی اکیلے، مایوس شخص کا انفرادی عمل نہیں تھا، بلکہ اس حملے کی پوری منصوبہ بندی بی ایل اے کے اس کارکن کے پورے خاندان نے کیا تھا۔ دوسری بات یہ کہ نا صرف بی ایل اے بلکہ دوسرے آزادی پسند تنظیموں کے سربراہان جیسے کے بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ نے اس حملے اور حملہ آور کو داد دی ہے۔ گوکہ اسکی پہلے مثال نہیں ملتی لیکن یہ بات محیرالعقول بھی نہیں۔ بہت سے غیر مذہبی شدت پسند جماعتوں نے بھی خودکش حملوں کے حکمت عملی کو انیسویں صدی کے آغاز سے اپنانا شروع کیا، جن میں سری لنکن ایل ٹی ٹی ای اور معاصر انارکسٹ تنظیمیں شامل ہیں۔ تاہم اب تک یہ دیکھنا باقی ہے کہ بلوچ مزاحمت کار جو مذہبی شدت پسند کے بجائے قوم پرست ہیں، وہ مستقبل میں خود کش حملوں کے ہتھیار کو مزید استعمال کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو پھر شاید وہ مذہبی شدت پسند جماعتوں سے بھی کوئی تعلق قائم کرلیں، جو خود کش حملے کرنے میں ماہر ہیں۔
پاکستانی فوج، میگا پراجیکٹس اور غیر مقامی مزدور ( بشمول غیر بلوچ پاکستانی اور چینی مزدور) اور ریاستی تنصیبات اب تک بلوچ مزاحمتکاروں کے نشانے پر رہے ہیں۔ سی پیک منصوبے کے مزید متحرک ہونے کے ساتھ وہاں مزید مزدور آئینگے اور تحفظ کیلئے مزید فوج بلانی پڑیگی، جو وہاں تحفظ دینے کیلئے بھلے آئیں لیکن خود نشانہ بنتے جائیں گے۔ اسکے ساتھ ہی اگر بلوچ مزاحمت کار اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کیلئے زیادہ مہلک طریقہ کار اختیار کرتے ہیں، تو پھر وہ ایک انتہائی سنجیدہ خطرہ بن کر ابھر سکتے ہیں۔
حملے میں اس خاندان کا ملوث ہونا خطرے کی ایک گھنٹی ہے:۔
راحت ملک ( سینئر سیاسی و سماجی تجزیہ نگار)
غالباً یہ تاریخ میں پہلا موقع ہے جب کسی بلوچ مزاحمتی تنظیم نے کھلے عام چینیوں پر حملہ کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے، جب انہوں نے سیندک پروجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجنیئروں کے بس کو دالبنین میں نشانہ بنایا۔
سب سے خطرہ ناک بات، اس خاندان کی ہے جو اس حملے میں ملوث ہے۔ یہ حملہ بی ایل اے کے کمانڈر اسلم بلوچ کے بیٹے نے کیا۔ سوشل میڈیا پر جاری ایک ویڈیو کے مطابق، جو حملے سے کچھ دیر پہلے بنایا گیا ہے، اسلم بلوچ کو اپنے بیٹے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، جہاں حملہ آور چینیوں کے خلاف ایک تقریر بھی کرتا ہے۔
تاہم، بد قسمتی سے ہم جس زمانے میں رہتے ہیں یہ ایک پر امن زمانہ نہیں ہے۔ سیکورٹی اہلکار امن و امان کی خاطر سب کی تلاشی لیتے ہیں لیکن سب دہشت گرد نہیں ہوتے۔ لوگوں کے بہت سے تحفظات ہیں، جس طرح اہلکار انکی تلاشیاں لیتے ہیں جبکہ ان میں سے کوئی دہشتگرد نہیں ہوتا۔
امن و امان کی کوئی بھی کوشش تب تک کامیاب نہیں ہوسکتی، جب تک لوگوں کا اعتماد نہیں جیتا جاتا، اہلکاروں کو سب کے ساتھ ایسا برتاؤ نہیں رکھنا چاہیئے جیسے کہ سب دہشت گرد ہوں اور مقامی لوگوں کا احترام کرنا چاہیئے۔
دریں اثناء، سیکورٹی کے اندرونی صورتحال کے ساتھ ساتھ بیرونی حالات کا بھی خیال رکھنا چاہیئے۔ بتایا جاتا ہے کہ شدت پسند افغانستان کی سرحد، غیرقانونی طریقے سے بآسانی پار کرتے ہیں۔ سرحد کے دونوں پار شدت پسندوں کے محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ خودکش حملے خود میں اتنے خطرناک نہیں ہوتے، لیکن ان حملوں کے پیچھے جو مقاصد کارفرماہوتے ہیں، وہ بہت خطرناک ہوتے ہیں، انکے اوپر ضرور سوچنا چاہیئے۔
حملے سے ضروی نہیں ہے کہ سی پیک کے تکمیل پر اثر پڑے:۔
شہزادہ ذولفقار
(سینئر صحافی، کوئٹہ)
چینی انجنیئروں کو لیجانے والی بس پر ہونے والا خودکش حملہ باعثِ حیرت نہیں ہے۔ تقریباً تمام بلوچ مسلح تنظیموں بشمولِ بلوچ لبریشن آرمی بلوچستان میں چین کے کام کرنے پر مخالفت کا اظہار کر چکے ہیں، یہ الزام لگاچکے ہیں کہ وہ بلوچستان کی دولت لوٹ رہے ہیں۔ ساتھ ہی یہ کہنا غفلت ہوگا اگر کہا جائے کہ چین کو اس بابت پتہ نہیں تھا۔ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ بلوچ مزاحمتی گروپوں کے زیر اثر علاقوں میں چین مخالف سوچ کس قدر گہری ہے۔
حتیٰ کے سی پیک کے آغاز سے پہلے ہی، چین کو گوادر اور جنگ زدہ بلوچستان میں کام کرنے کے مضمرات کا اندازہ تھا۔ لیکن پھر بھی انہوں نے یہاں آکر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایسے ماحول میں کام کرنے کا مسئلہ جتنا سی پیک پر اثر انداز ہوتا ہے اتنا ہی ” براڈر بیلٹ اینڈ روڈ انیٹیٹو” پر بھی ہوتا ہے، جو دنیا کے خطرناک ترین علاقوں میں سے گذرتا ہے۔
لہٰذا اس نتیجے پر پہنچنا غلط ہوگا کہ بی ایل اے کا یہ حملہ، سی پیک منصوبوں کے تکمل پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔
حملے کے وقت، حملہ آوروں نے ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے، جو اب سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے۔ جس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ انہیں بروقت کیوں نہیں پکڑا گیا۔ در اصل ” ایس ایس ڈی ” کے خصوصی اہلکار چینی شہریوں اور سی پیک کے حفاظت پر معمور ہیں، لیکن یہ انکیلئے بھی مشکل ہے کیونکہ اکثر حملہ آور عام لوگوں کے بیچ میں سے ہوکر آتے ہیں۔ اس لیئے تمام تر سخت اقدامات کے باوجود حملہ آور حملہ کرنے میں کامیاب ہوا۔
ایسا لگتا ہے کہ اب حکومت کو یہاں کام کرنے والے چینیوں کے حفاظت پر نظر ثانی کرنی پڑیگی۔ سیاسی معاملات آگے بڑھانے کیلئے بہت اہم ہیں۔ پہلے ایسی اطلاعات آرہیں تھیں کہ چین بلوچ مسلح مزاحمت کاروں سے مذاکرات بھی کررہا ہے۔ پاکستانی اور چینی حکام نے اسکی تردید کی تھی۔
حملے کے نتائج مزید سخت سیکورٹی کی صورت آسکتے ہیں:۔
اکبر نوتیزئی( صحافی و تجزیہ نگار، بلوچستان)
بی ایل اے کا چینی انجنیئروں پر حملے کی سب سے اہم بات، حملے کی جگہ ہے۔
ضلع چاغی دوسرے علاقوں کے نسبت پرامن رہا ہے۔ جبکہ دارلحکومت کوئٹہ یا گوادر میں واقعات ہوتے رہے ہیں لیکن چاغی ایک پر سکون ضلع رہا ہے۔ بلوچ قوم پرست مستونگ اور کوئٹہ جیسے علاقوں میں ایک طویل عرصے سے ایک مضبوط پوزیشن رکھتے ہیں لیکن دالبندین، چاغی کا وہ شہر جہاں حملہ ہوا، وہاں پر بلوچ مزاحمت کاروں کی بہت قلیل تعداد ہوگی۔
چینی تقریباً آٹھ سال سے سیندک پروجیکٹ پر کام کررہے تھے اور کچھ اطلاعات کے مطابق یہ منصوبہ اب تقریباً اپنے حتمی مراحل میں ہے۔ اس سے ظاھر ہوتا ہے کہ بی ایل اے اور اسکے ہم خیال مزاحمت کار تنظیمیں چین کی موجودگی سے خوش نہیں ہیں، جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ چین انکی قومی دولت لوٹ رہا ہے۔ ایک اور مائننگ منصوبہ ریکوڈیک فوراً ذہن میں آجاتا ہے، جو ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے۔
بلوچ وسائل کے استحصال بابت یہ خیال بلوچستان کے سیاسی پارٹیوں میں بھی پایاجاتا ہے، جن کا موقف ہے کہ سی پیک کے پروجیکٹس سے حاصل آمدنی کو مقامی لوگوں کے بہبود پر خرچ نہیں کیا گیا ہے اور انہیں انکے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ یہ مقامی لوگوں میں چین مخالف جذبات کی بنیاد وجہ ہے، جو چینیوں اور چینی منصوبوں پر مزید حملوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
حالانکہ حکومت پاکستان سیکورٹی کے سخت تدابیر اختیار کیئے ہوئے ہے، لیکن پھر بھی بلوچ آزادی پسند چینیوں پر حملہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ مقامی لوگوں کے حمایت اور مدد کے بغیر ہرگز ممکن نہیں۔ یہی بات مذکورہ خودکش حملےپر بھی صادق آتی ہے کہ مقامی لوگ اس میں ضرور شامل تھے۔
لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ سی پیک کے رفتار میں خلل آئے گا، ان تمام سیکورٹی خدشات کے باوجود چینی نہیں رکیں گے، وہ سی پیک منصوبے کو کامیاب کرنے پر جتے ہوئے ہیں۔
چین پاکستان پر دباؤ ڈال سکتا ہے کہ وہ سی پیک منصوبے کے سیکورٹی پر نظر ثانی کریں اور چینی مزدوروں کی حفاظت یقین بنائے تاکہ وہ سیندک اور ریکوڈیک پر کام کرسکیں۔ اطلاعات کے مطابق چینی ورکر کراچی سے بلوچستان تک سفر صرف فضائی راستے سے کرتے ہیں، چینی ورکروں کے سیکورٹی کو مزید یقینی بنانے کیلئے شاید مستقبل میں تمام ٹریفک بند کیئے جائیں جب چینیوں کو اندرونِ بلوچستان ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہو، یا شاید وہ بلوچستان کے اندر بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ فضائی راستہ اختیار کریں۔
کسی بھی مشترکہ منصوبے کیلئے مقامیوں کا اعتماد حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ مقامی لوگوں کی شراکت کو یقینی بنانا پڑے گا اور انکے تحفظات دور کرنی پڑینگی۔
( یہ رپورٹ مورخہ 18 اگست 2018 کو “سی پیک واچ” میں شائع ہوا، دی بلوچستان پوسٹ قارئین کے دلچسپی کو مدنظر رکھ کر اسکا ترجمہ شائع کررہا ہے)