“چنبیلی” کی کوکھ میں پروان چڑھتا “نازبو”
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
اس فلسفے کو میں نے پروان چڑھتے دیکھا بھی ہے اور سنا بھی ہے کہ پھول اپنی کوکھ سے خوشبو کی مہک کے ساتھ کانٹوں کو بھی جنم دیتی ہے لیکن کبھی یہ نہیں دیکھا، نہ سنا تھا کہ پھول اپنے کوکھ سے ایک اور مختلف رنگ و خوشبو کے پھول کو بھی جنم دی سکتی ہے لیکن ابھی یہ ناممکن سا سچائی ممکن بن گیا کہ پھول تو پھول کو جنم بھی دیتا ہے۔
یہ پہلا تاریخی واقعہ ہے، اس کی نظیر نہ کتابوں میں اور نہ ہی تاریخ کے دریچوں میں ملے گی، اس لیئے آج، اس تاریخی واقعے کے بعد تمام کتابیں اور میرے ذہن میں جتنا بھی مواد تھا، وہ سب کے سب اس تاریخی واقعے اور کرداروں کے سامنے بے بس اور لاچار ہوگئے، میرے ذہن میں ایسا کوئی واقعہ نہیں یا میرے دسترس کی کتابوں میں بھی نہیں کہ میں اس کا حوالہ دوں، بہت سے ایسے افسانوی، رومانوی، مبالغہ آرائی، تصوراتی یاغیر حقیقی قصے ضرور ذہن میں یا کتابوں میں موجود ہیں، لیکن سب کے سب اپنے نوعیت و حالت کی وجہ سے بہت مختلف ہیں۔ جن کا اس تاریخی کردار، واقعے یا کارنامے سے موزانہ کرنا، خود اس تاریخی واقعے اور کرداروں کے ساتھ سراسر ناانصافی ہوگی، اس لیئے میں نے انتہائی سوچ و سمجھ، تجزیہ اور موازنہ کرکے تمام کتابی معلومات کے حوالہ جات سے گریز کیا، تا کہ میں اپنی بہن یاسمین بلوچ اور بھائی اسلم بلوچ اور ریحان بلوچ کے کردار، سوچ و افکار، نظریات اور قربانیوں کے بارے میں کچھ لکھ سکوں۔
قدرت کا بھی کمال ہے، فیصلے سے قبل ہی، دونوں عظیم انسانوں، ماں اور بیٹے کے نام اس وقت کیسے اور کس طرح مشترک اور معنی خیز رکھ دیا،ایک کو اسلم کا شریک حیات اور دوسرے کو بیٹا بناکر اسلم کو ایک لیجنڈ اور تاریخ بنادیا۔ میرے تجربے اور مشاہدے کے مطابق یہ سب کچھ انسان کو اپنی نیک نیتی، خلوص، عمل اور محنت سے حاصل ہوتا ہے، جیسا نیت اور سوچ ہوگا ویسا ہی نتیجہ و عمل اور کردار آپ کے حصہ میں آئے گا، اسے کوئی بھی طاقت بدل نہیں سکتا ہے۔
اب یاسمین کا لفظی معنی چنبیلی کا پھول اور ریحان کا لفظی معنی نازبو(سوئیٹ بیزل) کا پھول، یہ تو تاریخ بتاتی ہے کہ کچھ پھول کھلتے ہی مرجھا جاتے ہیں، اور کچھ ہمیشہ ہمیشہ کھلے رہنے کیلئے کھلتے ہیں۔
ریجان جان کو تو آج ویسے بھی معلوم نہیں ہوگا کہ تاریخ ساز دور میں ریحان ایک تاریخ بن کر کس مقام پر پہنچ چکا ہے، کیونکہ وہ تو خود کو مادروطن کی مٹی میں تا ابد تحلیل کرچکا ہے، لیکن میری بہن یاسمین اور اسلم بلوچ کو بھی شاید خود انداذہ نہیں ہورہا ہے کہ وہ آج مورخین اور بلوچ قوم کے دلوں اور ذہنوں میں کہاں پر اور کس حد تک اثر انداذ ہوچکے اور ہورہے ہیں۔ کیونکہ یہ دنیا کی اور انسانی تاریخ کی ایک مستند حقیقت ہے کہ انسان جب زوال کے دہانے پرہو یاعروج کے دہانے پر، اس کو خود کبھی صحیح طریقے سے صحیح اندازہ نہیں ہوتا۔
ریحان جان کے ماں اور باپ کی ساتھ ان کے آپسی خونی رشتے سے زیادہ یہاں فکری رشتے نمایاں نظر آتے ہیں، میری رائے کو ایک دفعہ پھر تصدیق کا بہترین موقع ملا کہ جب بھی جہاں بھی قومی جہدوجہد کے ساتھ وابستہ ہوتے ہوئے، ذاتی، خونی، قبائلی، علاقائی، رشتوں کے ذرہ بھی آثار ظاہر ہوں، تو وہاں لازماً قومی فکر کی کمزوری اور مفلوج زدگی موجود ہوگا، پھر یہ ضرور سمجھنا قومی فکر خود انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیر علاج پڑا ہے۔
اگر آج بہن یاسمین اور اسلم بلوچ میں ذرہ بھی ذاتی و خونی رشتوں کا اہمیت ہوتا، تو وہ ریحان کو راستہ فراہم نہیں کرتے اور اسلم بلوچ، مجید فدائین بریگیڈ کے فدائین لسٹ سے پہلا نمبر پر ریحان کو سلیکٹ نہیں کرتا، تو یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ یاسمین اور اسلم بلوچ کی قومی فکر مفلوج اور کمزور نہیں ہے۔
باقی ہم جیسے انسانوں کی تمام کمزوری، لاچاری، مجبوری، الجھن، بہانے، جواز، غلط فیصلے اور غلط اقدامات ہم نام و شکل اور دلیل جو بھی دیں شاید کچھ ناسمجھ لوگوں کو مطمین بھی کرلیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے، ہمیں اعتراف کرنا ہوگا کہ ہم خود ابھی تک فکر اور فکر کا دعویدار ہوتے ہوئے بھی، فکری حوالے سے بہت کمزور اور مفلوج ہیں۔
اس کے بعد ریحان کی عظیم قربانی اور فیصلے سے شاید میری ذہنی کیفیت فخر، خوشی، غم، افسردگی، پریشانی، جدائی، باقی دوستوں اور جہدکاروں سے ایک جیسا ہوتے ہوئے بھی کچھ مختلف ضرور ہے۔
میرے لیئے شہید کے قربانی کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے، شہید کے خون کا لاج رکھنا، ایک بہت بڑا کھٹن اور مشکل ترین امتحان ہے، صرف شہید کی قربانیوں پر سینہ تان کر فخر کرنا، افسردہ ہونا، جذباتی و جنونی ہونا، شہید کے روح کی تسکین ہر گز نہیں ہوگا۔
بلوچ قوم اور بلوچ جہدکاروں میں ریحان کی قربانی کے بعد پیدا ہونے والی mob جوش و حوصلہ اور امیدوں کو دائمی حوصلہ افزائی اور پرامیدی کا رخ دیکر، انہیں تحریکی و شعوری شکل دیکر تحریک کو موثر و منظم اورعوامی تحریک کا پہچان دینا اور کامیابی سے ہمکنار کرنا ہوگا، یہ تمام جہدکاروں کی ذمہ داری اور فرض ہے۔
دنیا بھر میں، خاص طور پر بلوچ قومی تحریک میں، ماضی میں ایسے بہت سے تاریخی واقعات ہوچکے ہیں، جو تحریک کے لیئے سود مند ثابت ہوئے، لیکن تحریک دشمن قوتوں نے اپنے عزائم اور مقاصد کی خاطر، انہیں مختلف سازشوں، حربوں اور ہتھکنڈوں کے ذریعے زائل کرچکے ہیں، جس کی واضح مثال نواب اکبرخان بگٹی کی شہادت، اس کی قومی سطح پر جوش و جذبے کے اثرات کو آئی ایس آئی اور ایم آئی کی ایماء پر گرینڈ جرگے کے ذریعے، خان آف قلات دیگر نوابوں، سرداروں، میر اور معتبروں کے ذریعے سرد مہری کا شکار کرنا یا پھر شہید درویش، شہید صباء، شہید غلام محمد، شہید محمود خان اور دیگر ہزاروں شہداء کی قربانی اور قومی جنگ کی شدت اور بلوچ قوم میں امید اور حوصلوں کی اثرات کو سردمہری اور ذائل کرنے کے لیے بلوچ آزادی پسند قوتوں میں انتشار و خلفشار، آپسی لڑائی، پروپگنڈہ اور کردار کشی کا سلسلہ شروع کردیا گیا، جس کے منفی اثرات پورے بلوچ قوم اور تحریک پر اثرانداذ ہوئے، جو قومی تحریک اور بلوچ قوم میں مایوسی و بدظنی ثابت ہوئی۔
ریحان بلوچ نے اپنے لہو اور فیصلے سے تمام مایوسی، ناامیدی، الجھن، سطحیت، موقع پرستی، خود غرضی، لالچ، خوف اور تحریک سے ذاتی و خاندانی کام نکالو والے رجحانات اور خیالات پر مٹی ڈال کر یہ ثابت کیا کہ تحریک اور جہد کی اصل اور حقیقی تقاضات اور ضروریات کیا ہیں؟ تحریک اور قومی پارٹی کوئی بزنس، کمپنی اور سرکاری محکمہ نہیں، جو جہدکاروں کو آسائش، مراعات، سہولت اور تنخواہ دے بلکہ تحریک اور انقلاب اپنے بچوں اور دوستوں کو خود نگل جانے کا نام ہے۔ ریحان کا یہ فلسفہ باضمیر اور احساس کے مالک لوگوں کی سوچ کو ضرور تبدیل کردیگا، جب ضمیر اور احساس مرچکے ہوں اور موقع پرستی لالچ اور خوف، ذندہ ہو، تو ایک ریحان نہیں ہزار ریحان کی قربانی مرے ہوئے احساسات اور ضمیروں کو زندہ نہیں کرسکتا اور تبدیل بھی نہیں کرسکتا، بس ان پر خدا ہی کا عزاب ہوگا۔
کسی صحابی نے حضور پاک سے پوچھا “جی حضور پاک خدا کا عذاب اور مارنے کا طریقہ انسان پر کیسے اور کس طرح ہوگا؟” تو حضور پاک نے فرمایا “بس اور کچھ نہیں ہوگا، صرف خدا انسان کے عقل پر پردہ ڈال دےگا۔”
بلکل خدا کے ہاتھ میں کوئی لاٹھی، تلوار اور بندوق نہیں کسی کو مار دے، بس جب انسان کا عقل کام نہیں کریگا وہی خدا کا عذاب اور مارنے کا طریقہ ہوگا۔
ریحان کے قربانی کا احترام اور لاج کو ہمیشہ قائم و دائم رکھنے اور اسی تسلسل کو جاری رکھنے میں بلوچ قومی تحریک کی کامیابی اور کامرانی ہے اور دشمن قوتیں حتی الوسع کوشش کرینگے کہ اس ماحول mob حوصلہ، امید اور جذبات کو واپس مایوسی، بے چینی اور الجھن میں تبدیل کردیں لیکن اب یہ ان مخلص آزادی پسند دوستوں کے صلاحیتوں، احساسات، شعور و علم اور قابلیت پر انحصار کرتی ہے کہ وہ کس طرح اور کیسے سنجیدگی سے ایسے تمام چیزوں کو سمجھ کر اپنے کام پر توجہ دینگے۔
خاص طور پر سوشل میڈیا میں بحث در بحث، کج بحثی اس وقت ریحان کی لہو کے ساتھ مذاق کے علاوہ اور کچھ نہیں، اس سے تمام مخلص دوست گریز کریں، جو شعوری، دانستگی و منصوبہ بندی کے تحت کررہے ہیں، انہیں کرنے دیا جائے، ریحان نے اپنے خون سے سب سوالوں، پروپگنڈوں، جھوٹ اور الزام تراشیوں کا جواب دے دیا، پھر اس کے بعد ہمارا جواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، تو اس حوالے سے میں تمام دوستوں سے ایک بار پھر دست بندی کرتا ہوں کہ وہ اب خدارا ان سطحی گند آلود غیرضروری کوڑے دان کے لائق چیزوں پر بلکل توجہ نہ دیں بلکہ اپنا کام اور مقصد پر توجہ دیں، اگر ہم ان چیزوں پر توجہ دینگے، جذباتی ہونگے، یہ خود ہمارے فکر، سوچ اور شعور کی کمی کی نشاندہی ہوگی اور اپنے کردار پر بے یقینی کی علامت ہوگی۔
بس پہلے بھی اور آئندہ بھی ہمیں اپنے عمل اور کردار سے ثابت کرنا ہوگا کہ توتو میں میں اور چو چو کا مربہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
دی بلوچستاں پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔