وطن کا سچاعاشق دلجان – میر احمد

358

وطن کا سچاعاشق دلجان

تحریر: میر احمد

دی بلوچستان پوسٹ

دلجان وطن کا سچا عاشق تھا، اپنے عشق کا اظہارکرگیا، محبت کے بہت سے رشتے ہوتے ہیں، ماں باپ سے محبت ہوسکتا ہے بہن بھائی سے محبت ہوسکتا ہے، بیوی بچوں سے محبت ہوسکتا ہے، دوست و احباب سے محبت ہوسکتا ہے، اجنبی لوگوں سے محبت ہو سکتا ہے، رشتہ داروں سے محبت ہوسکتا ہے، ہم صرف انہی رشتوں کو جانتے ہیں، اسی محبت کو جانتے ہیں، مگر نبھانا نہیں جانتے ہیں، ہمیں کبھی کسی بات پہ ناراضگی ہوتا ہے، کبھی کسی تکلیف پہ جدائی ہوتی ہے، تو کبھی بد گمانی پہ رشتہ ٹوٹتاہے۔

لیکن ایک اور عشق ہوتا ہے، ایک اور محبت ہوتا ہے، ایک اور دیوانگی ہوتی ہے، جس سے ہم نا واقف ہیں، جس سے ہم خفا ہیں، جس سے ہم انجان ہیں۔ وہ محبت وطن سے ہوتا ہے، وطن کے لاچار لوگوں سے ہوتا ہے، وطن کے شوانوں و بزگر سے ہوتا ہے اور خود وطن سے بھی ہوتا ہے اور وطن سے محبت کرنا ہم میں سے کچھ لوگ جانتے ہیں، کرتے ہیں، نبھانا جانتے ہیں، محبت کی لاج کو سلامت رکھنے کے لیئے اپنی جان بھی دیتے ہیں۔

دلجان اپنے وطن سے انتہائی محبت کرتا تھا، اپنے لوگوں کا درد سمجھتا تھا، اسے غلامی و آزادی کا علم تھا، اپنے حق کو لینے کا سلیقہ معلوم تھا، دلجان بہت سالوں سے اس عشق میں قدم رکھ چکا تھا۔

آخر وطن کا وفادار بن کے، اپنی سچی محبت کا ثبوت دیکر، آخری سانسوں کو مادر وطن کے لیئے قربان کردیا، وہ کیا لمحہ ہوگا جب دلجان آخری گولی کا فیصلہ کرکے بندوق اپنی طرف موڑ کر وطن سے رخصت کررہا ہوگا، وہ ماں کتنا یادآتا ہوگا، جس ماں نے دلجان جیسے بہادر کو جنم دیا، پیار محبت لاڈ سے پرورش کیا، مادروطن کے لیئے لوریاں سنائیں، وہ بہن کس قدر یاد آرہا ہوگا، جو ہر وقت بھائی کی راہ دیکھتا تھا، وہ شہر وہ دوست سنگت اپنے ہم سفر ساتھی کس قدر یادآتے ہونگے، روخصتی کا کیا لمحہ ہوگا، جب دلجان ان سب کے بارے میں سوچ کر ایک طرف مادروطن کی دیوانگی میں، سب کو بھول کر آخری سانسوں کو سنگت امیر جان کے دِکھائے ہوئے رستے کو اپنا کر امر ہوگیا ہوگا۔ دلجان تم ہر اس دل میں ہو، جو اپنے وطن کے لیئے دوستوں کو ایک ہونے کا تربیعت دیتا ہے، آج آپ کی قربانی رنگ لائی ہے، ہر باشعور ورنا قلم اٹھا کر آپ کی بہادری بیان کر رہاہے۔

.دلجان نے دشمن کے دل میں ایسے خوف جگادیا کہ جب بھی دشمن انجیرہ سے زہری کی جانب بڑھے گا، آپ کی بہادری کا خوف دل میں لیئے کانپتا ہوگا، ہر بار ایک ڈر و خوف کی سائے میں رہ کر نظر اِدھر اُدھر کرکے دیکھے گا کہ کہیں دلجان ہمارے سامنے نہ آجائے کہیں پھر سے دلجان کے مقابلہ میں شکست نہ کھانا پڑ جائے۔ یہ وطن دلجان کا ہے، دلجان کا تھا، دلجان کا رہیگا۔ دلجان مادروطن کے ہر کونے میں دشمن سے بہادری کے ساتھ مقابلہ کرتا تھا، شورو پارود میں کبھی بولان تو کبھی زہری کے دھرتی پر جہاں بھی سنگت قدم رکھتا تھا، اپنے کام کوخوبصورتی کے ساتھ انجام دیتا۔

آؤ ساتھ میں ہاتھوں کو ہاتھ میں تھام کر دلجان کے کاروان کا راہی بن جائیں، دلجان کے دِکھائے ہوئے، رستے کو اپنا مقصد بنالیں۔ دلجان کے قربانی کو یاد کرکے دوشمن سے سامنا کریں، مادروطن کےلیئے اپنا کردار ادا کریں۔ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کریں۔ دشمن کے بچھائے ہوئے جال سے خود کو آزاد کریں۔ دشمن کو پھر سے دلجان کی طرح شکست دیں۔ سنگتوں کے کارواں کا حصہ بنیں۔ یہی زندگی ہے، ہمارا یہی مقصد ہے۔

دلجان جسمانی طور جداہوا ہے، دلجان کی سوچ و فکر، نظریہ اور شخصیت ہمارے دل میں ہے، زندگی کی حقیقت کو سمجھو توڑدو غلامی کی زنجیروں کو، زندہ قوم ہو جاگ جاؤ، ہواؤں کے رخ کو بدلنا ہے۔