وطن کا ریحان – سالار بلوچ

810

وطن کا ریحان

سالار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ جہد آزادی میں کئی نوجوانوں نے اپنے سروں کو مادرِ وطن کے حوالے کرکے جس دلیری سے ریاست اور قبضہ گیر کو گُٹھنے ٹیکنے پر مجبور کیئے، وہ بلوچ ماؤں کی وہ لوریاں ہیں، جو بچپن سے وہ سنتے گئے تھے۔

ریحان بلوچ نے ایک ایسے ہی گھر میں آنکھ کھولا، جو بلوچ قوم کے لیئے ہر دور میں ایک چمکتے ستارے اور روشن کرن کی امید ہے، جس گھر پر بلوچ ہر دور میں فخر سے نازاں ہوگا۔

ریحان فدائی کیسے بنا؟

ریحان کو فدائی بنایا وطن کے چاہ نے، مظلوم قوم کی سسکیوں نے، ماؤں کی آہوں نے، اجڑتے گھروں نے، بہنوں کی رخسار سے گرتے آنسؤں نے،اجتماعی قبروں نے، مسخ شدہ لاشوں نے، ریاستی ٹارچر سیلوں سے آتے ہوئے دردناک آوازوں نے، وطن کے سینے پر موجود غیر فطری ریاست کی چالاکیوں نے ریحان کو فدائی بنایا۔

کیونکہ ریحان کے دل میں قوم کے لیئے درد تھا، وطن کے افسردگی کو محسوس کر سکتا تھا، وطن کی مٹی کا حلالی فرزند تھا اور جب وطن سختی میں رہے اور ریحان جیسا فرزند اپنی ذات، اپنی جوانی میں مگن ہو بھلا ممکن ہے؟

ریحان وہ محسوس کر سکتا تھا جو میں اور آپ نہیں کرسکتے، تصور بھی نہیں کرسکتے، شاید ریحان ہمارے بیچ رہ کر ہمارے گُمان سے بھی آگے کا سوچ چلا ہمیں دکھانے کے لیئے ہمارے حوصلوں میں شدت بخشنے کے لیئے وہ ہمیں راستہ دکھاکر چلا، جب دھرتی مشکل میں ہو اسے بچایا کیسے جاسکتا ہے، ریاست کی نیندیں کیسے اڑائی جاسکتی ہیں، تاریخ میں کیسے امر ہوا جاسکتا ہے۔

ریحان بلوچ نے تاریخ میں ایک باب رقم کرکے اپنی یادیں اس دنیا کے سپرد کرکے آنے والے نسل کے لیے مشعل راہ بن گئے آزادی کی اس رستے پر جوانمردی سے فیصلہ کرکے اور ازمائش سے گزر کر آپ ہیرو قرار پائے جانثارانہ انداز میں مادر وطن کی دفاع میں شہادت کا تاج پہن کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوداں رہے۔

ریحان ہر شہید کے روح کو تسکین بخشنے کے لیئے اپنی سانسوں کو وطن کے لیے قربان کر گیا، اور ” رخصت اف اوارون سنگت” کے اس جملے کو عملی جامہ پہنا کر شہیدوں کے پاس پہنچ گیا۔
ریحان ہر سرمچار کے دکھ درد و خوشی کو شہید دوستوں کے درمیان محو گفتگو ہوکر بیان کرتا ہوگا کہ میرے بعد بھی ہمارے اس کاروان کو منزل تک پہنچانے والے اور وطن کے لیے سر کَٹانے والے بھی محاز پر دشمن کی گندی نگاہوں کو شکست دینے کیلئے برسرِ پیکار کھڑے ہیں۔

امیر جان نے جس فلسفے کی بنیاد رکھی اُسی پہ گامزن شہید دلجان و ریحان نے اس فلسفے کو خوشی سے گلے لگا کر ہمارا سر فخر سے بلند کردیا۔

دلجان، امیر جان و ریحان کے دوست و غمخوار ہونے پر آج دل سینے میں جگہ نہیں پا رہا ہے کہ ایسی ہستیوں کے درمیان میرے زندگی کے خوبصورت لمحے گزرے ہیں، جنہوں نے اپنے خون سے اس دھرتی کو سیراب کرکے دنیا کو پیغام دیا کہ ہم جھکنے والے نہیں ہیں، نہ کہ شکست تسلیم کرنے والے ہیں، ہمارے جسموں سے زیادہ ہمیں وطن کی ہر شاخِ گُل عزیز ہے اور اس شاخ کی حفاظت کے لیئے ہمارے جسموں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بس وطن سلامت رہے، دوست (سرمچار، سنگت) سلامت رہیں، ایک دن آزادی ہمارے قوم کی مقدر بن جائے گی۔

جب بھی وطن کو خون کی ضرورت پڑی ریحان جیسے ورناؤں نے وطن کی آواز پہ لبیک کہہ کر زمین پر اپنا خون بہا کر وطن کی پیاس بجھا دی۔ وہ زمین کسی قحط و پیاس کا شکار ہو ہی نہیں سکتا جس زمین پر ریحان جیسے بہادر نڈر سرمچار پیدا ہوتے ہوں۔ جس زمین پر لمہ یاسمین جیسے بہادر مائیں پائی جاتی ہوں وہ زمین بھلا کیسے کسی قحط کا شکار ہو سکتا ہے، جس زمین پر دلیر والد استاد اسلم جیسے فرزند وطن میسر ہوں۔ وہ زمین ہر ظلمت و جابرانہ دور سے نکلنے کا راستہ ضرور ڈھونڈتا ہے اور دشمن کے تمام عزائم کو شکست میں تبدیل کرنے کا ہنر رکھتا ہے…!

ریحان کی جس قربانی نے ہمیں جو پیغام دیا، وہ مختصر شعر کی صورت میں قلم بند کرنا چاہتا ہوں

نہ گُل اور نہ گلبدن چاہتا ہوں
نہ میں چاند جیسا للن چاہتا ہوں
نہ میں روشنی کی کرن چاہتا ہوں
نہ بستی نہ صحرا نہ بَن چاہتا ہوں
نہ میں عالی شانِ بَھوَن چاہتا ہوں
نہ میں قیمتی پیرہن چاہتا ہوں
نہ میں پیسہ کَوڑی نہ دَھن چاہتا ہوں
نہ ہیرے نہ لالِ چمن چاہتا ہوں
نہ گلشن نہ صحنِ چاہتا ہوں
نہ کلیوں کا میں بانکپن چاہتا ہوں

خدا! میں تو یہی چمن چاہتا ہوں
مروں تو میں خاکِ وطن چاہتا ہوں