وطن زادے – فریدہ بلوچ

525

وطن زادے

تحریر فریدہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آخر دھرتی ماں سے کوئی اتنا پیار کیسے کرسکتا ہے کہ دھرتی ماں کی ہر آواز پر جان نچھاور کرنے کیلئے پہل کرنے کی کوشش میں ہر وقت لگے رہنا یقیناً یہ عشق کی انتہا ہی ہے، جو زندگی جیسے عزیز شئے کو قربان کرنے سے بھی نہیں کتراتا، زندگی کو قربان کرنے کیلئے دوڑتا ہے نگر نگر پہاڑ سحرا ریگستان میدان شہر گاؤں وہ چلتا رہتا ہے۔ ایک نڈر بہادر انسان کا فلسفہ حیات اسکی زندگی کا مقصد اور اسکے وجود کا ہدف و نصب العین زندہ رہنے کے تصور سے بہت بلند ہوتا ہے۔ اگر اسے اپنے حیات کے عظیم مقصد کے حصول کیلئے جان کا نذرانہ پیش کرنے کی ضرورت ہو تو وہ اپنی زندگی کو قربان کرنے میں اپنی سعادت سمجھتا ہے۔

عشق ہی ہے جس نے دلجان جیسے ایک بہادر فرزند کو اپنے گود میں پال کر بڑا کیا، عشق کے جذبات تھے جو ابھرے تو آخری گولی تک لڑتے رہے، وطن محبوب تھا انکو وطن اسکی لیلیٰ اور وہ وطن کا مجنون تھا، پتہ نہیں وہ کب سے وطن کے عشق میں اتنا گرفتار ہوچکا تھا اور عشق ایسا کہ جسکا کوئی ثانی نہیں جسکی کا کوئی مثال ہی نہیں بس وعدہ ہے کے تیرے راہوں پر لہو کے آخری قطرے سانسوں کی آخری لڑی تک نچھاور کرینگے، دلجان نے وطن کی چاہ میں وعدہ نبھا کر آخری گولی بھی اپنے حلق میں اتار دی۔ تشدد کے بدلے تشدد کے فلسفے پر یقین رکھنے والا دلجان سیاسی اسٹیج سے جنگ کی طرف اس لئے گیا تھا کہ جنگ ہی وہ راستہ تھا جس میں منزل دکھائی دینے لگی تھی، جہاں وطن کے باسیوں پر توپ و بم کا انبار لگا ہو جہاں قوم و وطن پر ظلم کا بازار گرم ہو وہاں دلجان جیسے زمین زادے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مخلصی، ایمانداری، بے غرضی، قوم و وطن سے محبت اور اپنے بہادری سے اپنے مادر وطن کے لیے لڑتے ہیں یہ لوگ سرزمین کے عشق میں جان کی بھی پروا نہیں کرتے، انکے لئے سخت و کھٹن راستے کا انتخاب پرکشش ہوتا ہے، تپتی گرمی ہو یا پھر سردیوں کے ٹٹھرتی راتیں بس ہمت محنت لگن کے ساتھ بڑھنے کا حوصلہ ہوتا ہے، حوصلے ایسے مضبوط بولان کے پہاڑوں سے بھی زیادہ اور بلند ایسے کہ انکے سامنے چلتن، آماچ بھی چھوٹے ہوتے ہیں یہی تو انتہا عشق ہے جو سرزمین کی محبت میں سب کچھ کر گزرنے کا حوصلہ بخشتا ہے جہاں زندگی کے تمام راہیں مسدود کی جائیں، علم و فہم کو آپ کے پہنچ سے دور کیا جائے زندگی کی تمام سہولتیں چھین لی جائیں لکھنے پڑھنے حتی کہ سوچنے پر بھی دشمن کے پہرے ہوں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہو روشنی کے امکانات کم دکھائی دینے لگیں اور کوئی راہ باقی نہ رہے، وہاں بغاوت راہ نجات ہے اور اسی راستے کا انتخاب دلجان نے کیا اور بھلا ایسے رستے کا انتخاب دل جان کیوں نہ کرتا جسکو ماں نے پیدا ہوتے ہی کٹ مرنے کی لوریاں سنائی ہو، جسکی جوانی بندوقوں کے سائے تلے گذری ہو، وہ بھلا ظلم کے آگے کہاں جھکتے ہیں، جنگ جنکی گھٹی میں ہو، بغاوت جنکی سرشت میں ہو، وہ جھکنے کے بجائے کٹنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لمہ وطن کو اپنے ایسے جانبازوں پر فخر ہوتا ہے جو ہر آسائشوں سے بے غرض وطن پر مر مٹنے کو اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں اور یہی انقلابیوں کی تاریخ ہے
ایسے ہی وطن زادے رہتی دنیا تک یاد رکھیں جاتے ہیں جو دوسروں کے خاطر سروں کا سودا لگا کر اس پر ہمت حوصلہ و بہادری کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہتے ہیں۔

دلجان وہ تاریخ بن چکا ہے، جو رہتی دنیا تک رہے گا وہ ہر مظلوم کی زبان بن کر اسے انقلابی نغمے سنائے گا وہ ہر مظلوم کی آنکھ بن کر اپنے مادر وطن کے خوبصورتی کو سما لیگا وہ ہر مظلوم کا دل بن کر اپنے قوم وطن کے لئے دھڑکتا رہے گا، وہ حوصلہ بن کر زہری سے نکل کر حب، کوئٹہ پھر بولان سے پارود میں دشمن کو نیست کرتے ہوئے پھر سے زہری کے خشک لبوں کو تر کرتے ہوئے اپنے زندہ رہنے کا ثبوت دیگا۔ دلجان جہاں سے چلا تھا کامیاب ہوکر وہیں فنا ہو گیا، اسی دشت گزان سے ننھے پیروں کے ساتھ اٹھتے گرتے سفر جو شروع کیا تھا، آگے بڑھ کر چٹان بنا اور آج چلتن کے پہاڑی سے بھی اسے دشت گزان پر چٹان بنا دیکھا جا سکتے ہیں۔

دلجان آتا رہے گا دلجان لڑتا رہے گا مظلوم کے شانہ بشانہ دشمن کے خلاف دلجان لوریوں میں سنائی دیتا رہے گا، دلجان کوئل کی کوہ میں آواز دیتا رہے گا، منزل کی جانب بڑھتے ہر مسافر کو کیونکہ دلجان سما رہا ہے، دلوں میں کل جو اس سے انجان تھے مگر آج ہر زبان زد عام اسکے شہادت کے قصے سنائی دیتے ہیں اور پھر لوگ اسکے شہادت کی وجہ کو تلاش کرنے لگتے ہیں یہی تلاش کرنے کا پیاس ہی انہیں ضیاء سے ملائے گا۔
ضیاء کا تلاش انہیں کس قدر وطن کی محبت میں مبتلا کر رکھے گا وہ اس تلاش میں اپنے مظلوم قوم کی بزگی خواری کو دیکھیں گے اپنے عزت اپنی دھرتی ماں کو سسکتا دیکھیں گے، فریب زدہ چہروں کو پہچان لینگے، خود کے پیروں میں زنجیروں کی کھنکھن سے بیزار ہوجائیں گے۔

ریحانوں کے دل میں دلجان کی محبت اور وطن کی چاہ میں ہنسی خوشی موت کو گلے لگاتے دیکھیں گے، اسی تلاش میں جب وہ ضیاء سے ملیں گے
تو وہ وطن زادے کہلا ئینگے۔