ریحان بلوچ کو ان کی قربانی پر سلام پیش کرتے ہیں، غوث بخش بہار جیسے دانشور کی خدمات یاد رکھی جائیں گی، بلوچستان اور اس کے مسئلے کو ہر جگہ اجاگر کرتے رہیں گے۔ – مقررین کا خطاب
گیارہ اگست جشن آزادیِ بلوچستان کے حوالے Baloch In Netherlands کے زیر اہتمام نیدرلینڈز امسٹرڈم میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں نیدرلینڈز میں بیٹھے بلوچوں نے شرکت کی۔
پروگرام میں مجیب ولی, عبدالغنی بلوچ, طاہر ولید, جاوید شریف اور سہیل بلوچ نے خطاب بھی کیا جبکہ پروگرام کا آغاز شہدائے بلوچستان کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے کیا گیا۔
پروگرام کے دو ایجنڈے تھے. پہلے ایجنڈے پر بات کرتے ہوئے مجیب ولی, طاہر ولید, عبدالغنی بلوچ, جاوید شریف اور سہیل بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1839 کو جب انگریز نے بلوچستان پر قبضہ کیا تو طویل جدّوجہد کے بعد 11 اگست 1947 میں بلوچوں نے آزادی حاصل کرلی لیکن پاکستان کو بلوچستان کی آزادی ہضم نہیں ہوئی تو اس نے 27 مارچ 1948 میں بلوچستان پر قبضہ کیا. اس قبضے کے خلاف پھر بلوچوں نے قربانی دی اور ایک نہ ختم ہونے والا تحریک کا آغاز کر دیا.
انہوں نے کہا کہ بلوچستان پر پاکستان کے قبضے کو شروع دن سے تسلیم نہیں کیا گیا ہے اور آگے بھی بلوچ اس قبضے کے خلاف لڑائی جاری رکھے گی.
مقررین نے اپنے خطاب میں استاد اسلم بلوچ کے بہادر سپوت ریحان جان کے قربانی کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ ریحان جان نے اپنے قیمتی جان کا نزرانہ پیش کر کے یہ ثابت کردیا کہ اس وطن پر بلوچ کسی کو قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دے گا اور سلام ہے ان والدین کو جنہوں نے ایسے سپوت پیدا کیئے ہیں جو اپنی وطن کی حفاظت کیلئے ہر وقت کمر بستہ ہیں.
دوسرے ایجنڈے میں بلوچی زبان کے نامور دانشور و ماہرِ لسانیات غوث بہار کی قربانیوں کو سلام پیش کیا گیا.
مقررین نے خطاب میں کہا کہ بلوچ ادب میں غوث بہار جیسے دانشوروں کی خدمات ہر وقت یاد رکھی جائیں گی. غوث بہار ایک ہی وقت ایک سیاستدان, ایک لکھاری, ایک ماہر لسانیات تھے. انہوں نے آخری دم تک بلوچ وطن اور اس کی زبان کو اجاگر کیا. غوث بہار نے بلوچی زبان و ادب کی ترقی میں جو کردار ادا کیا وہ بلوچ تاریخ میں کبھی نہیں بھولی جائے گی.
آخر میں مقررین نے عہد کیا کہ وہ بلوچستان اور اس کے مسئلے کو ہر جگہ اجاگر کرتے رہیں گے اور اس تحریک میں اپنا کردار ادا کریں گے۔