میں کیا لکھوں شہید ریحان جان کےلیئے ۔ حاجی بلوچ

818

میں کیا لکھوں شہید ریحان جان کےلیئے

تحریر۔ حاجی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

میرے ہاتھ میں جو قلم ہے،اور میرے ذہن میں جو آپ کے لیئے الفاظ ہیں، وہ تیری اس جراتمندانہ، بہادرانہ، فکرمندانہ عمل کا اور اتنے بڑے دل کے مالک کا حق کبھی ادا نہیں کرسکتے، کیا حوصلے تھے آپ کے اور کہاں سے لائے آپ نے یہ حوصلے، تاکہ ہم بھی اتنے بڑے حوصلوں کے مالک بن سکیں۔

آج میں یقین سے کہتا ہوں، پہلے ہم نے کتابوں میں اور چھوٹے پیمانے میں وطن کی محبت دیکھی ہے؛ لیکن آج شہید ریحان جان نے حقیقتاً ثابت کردیا کہ وطن عزیز سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔

اور اتنے بڑے فکر کے مالک کو میں ہزار بار سلام کروں پھر بھی میں شہید کا حق کبھی ادا نہیں کرسکتا، جب تک میں اور باقی ہم فکر ساتھی شہید ریحان کے نظریات و افکار پر ایمان داری سے عمل پیرا نہ رہیں۔

آج اس تاریخ ساز دور میں شہید ریحان جان نے ایک تاریخی کردار ادا کیا، اور یہ ثابت کردیا کہ تاریخ ساز کردار ادا کرکے ہی رہینگے؛ اور شہید ریحان جان نے ایک نیا تاریخ رقم کیا،اور ایک نیا پیغام دیا پاکستانی مرتد فوج کو اور چین کو۔ کب تک بلوچ قوم کا استحصال کرتے رہوگے؟ اور جب تک بلوچ قوم کا استحصال ہوتا رہے گا، ہمارے اس طرح کے حملے ہوتے رہینگے۔ ریحان نے ایک نیا پیغام دیا بلوچ قوم اور بلوچ نوجوانوں اور پوری دنیا کو کہ بلوچ اپنے وطن کےلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔

بقول واجہ بشیرزیب بلوچ کے اس طرح کی ماں باپ سجدے کے لائق ہیں، جو اپنے لخت جگر کو شہادت کی مبارک دیتے ہوئے رخصت کرتے ہیں، آج شہید کی ماں نے اس بہادر ماں کی یاد دلائی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عہد میں اپنے چار بیٹوں کو نبی کے سامنے پیش کرتی ہے اور بولتی ہے، “اے اللہ کے نبی! یہ میرے چار بیٹوں کو آپ اپنے ساتھ جنگ میں لیجائیں تاکہ یہ شہید ہوجائیں اور ان کے فضل سے مجھے جنت نصیب ہو۔” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “آپ کے بیٹے ابھی تک عمر میں چھوٹے ہیں، اس لیے میں نہیں لے جاسکتا۔” تو اس بہادر ماں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا “آپ میرے بیٹوں کو اسپر کی جگہ استعمال کریں، تاکہ آپ کا دفعہ ہوجائے اور میرے بیٹے شہید ہوجائیں۔” یہ تھی بہادر ماں؛ آج شہید ریحان بلوچ کی ماں نے ثابت کر دیا، 21 ویں صدی میں بھی بلوچوں کے اندر اس طرح کی مائیں زندہ ہیں، جو اپنے لخت جگروں کو وطن بلوچستان کے لیئے قربان کریں،اور بلوچستان کی آزادی تک قربان کرتے رہینگے۔

سلام استاد اسلم آپ کی تربیت کو، مجھے یقین ہے کہ آپ سب ساتھیوں کی بھی اپنے بیٹے کی طرح تربیت کرینگےاور ہم جیسے نالائقوں کو بھی اپنے تربیت کے ذریعے اتنے بڑے حوصلے کے مالک بنائیں گے۔

ایک بار پھر میں سلام کرتا ہوں شہید ریحان جان کو، اور شہید درویش جان کو ،شہید مجید جان کو؛ باقی تمام شہیدوں کو

دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔