موجودہ صورتحال کا جائزہ – شہیک بلوچ

308

موجودہ صورتحال کا جائزہ

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

نوآبادیاتی نظام کی حقائق کو تسلیم کرنا سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے اور یہی مرحلہ دیسی کے لیئے اول کو آخر اور آخر کو اول کرنے میں سب سے بڑا رکاوٹ ہوتا ہے۔ جب دیسی نوآبادیاتی نظام کی حقیقت کو سمجھ لیتا ہے تب اسے نوآبادکار کی حقیقی طاقت کا اندازہ ہوجاتا ہے اور سب سے بڑھ کر نفسیاتی قوت کا ادراک حاصل ہوجاتا ہے کیونکہ تاریخی عمل میں نوآبادکار کا سب سے گہرا وار نفسیاتی وار ہوتا ہے اور اس وار سے دیسی اپاہج رہتا ہے۔ دیسی تحریک تو چلاتا ہے لیکن اس کے فیصلے نوآبادکار کے نفسیاتی الجھنوں کا مجموعہ ہوتے ہیں ایسے میں کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں ملتے۔

یونانی اساطیر میں ایک دیوتا زمین کی خاطر آسمانی بلاوں سے لڑتا ہے، وہ اسے زخمی کرتے ہیں وہ پھر گرتا ہے اور زمین اسے توانائی فراہم کرتا ہے اور وہ پھر لڑنے نکل پڑتا ہے اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے۔ لیکن ہم اس متھ کے برعکس مسلسل گرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ ہمارا تعلق myth کی بجائے زمینی حقیقت سے ہے اور ہم ماضی میں 1839 سے لے کر آج تک گرتے آرہے ہیں جبکہ ہم نے خود کو توانا کرنے میں خاص سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا کیونکہ ہم اور ہماری جدوجہد پر نفسیاتی غلبہ نوآبادکار کا رہا ہے اور ہم محدود سی مزاحمت کے علاوہ کسی فیصلہ کن مقام تک پہنچنے سے قاصر رہے ہیں۔

ایسا کیوں ہے کہ ہم نوآبادیاتی نظام کی حقیقتوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اس تحریک پر شخصی اجارہ داری نے فیصلہ کن مراحل میں وہی کردار ادا کیا جو قبضہ گیر چاہتا ہو۔

بلوچ تحریک نے 2006 کے بعد جس تسلسل سے ایک مومینٹیم حاصل کیا اسے اگر اداروں کی صورت میں تیار کیا جاتا تو آج بلوچ تحریک کسی اور ہی مقام پر ہوتا لیکن آج جس طرح سے اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لیئے قبائلی شخصیات کی رسہ کشی جاری ہے اور جس طرح سے بلوچ جدوجہد کی بنیادوں پر وار کیا جارہا ہے اس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ ان کے حصے داری ایک مخصوص دورانیئے تک مخصوص مفادات کے لیے ہے کیونکہ انہوں نے کہیں بھی کسی بھی سطح پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن جب ایک دورانیئے پر بلوچ جہد کو تاریخی عمل کی شاہراہ پر ڈالنے کی کوشش کی گئی تو ان جہدکاروں کو ہی راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا گیا۔

پہلے مرحلے میں جہدکاروں کو ایک دوسرے کے خلاف لاکھڑا کرنے کی کوشش کی گئی، پروپیگنڈہ جس میں جہدکاروں کی کردار کشی کی گئی اور اپنے آپ کو تحریک کے گاڈ فادر کے طور پر پیش کیا گیا اور ایک ڈرامائی صورتحال اس وقت دیکھنے میں آئی جب ان الزامات کی حقیقت عمل کے میدان میں سفید جھوٹ کے طور پر ثابت ہوگئی اور عملی جہدکاروں نے مسائل کے حل کے لیئے کاوشیں شروع کیں، تب حقیقت سامنے آئی کہ رکاوٹ تو وہی ہیں جنہوں نے خود کو گاڈ فادر کے طور پر پیش کیا ہوا ہے۔ ایسے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست ڈاکٹر اللہ نذر کی شہادت کا دعوی کرتا ہے، پھر کچھ ہی عرصے بعد استاد اسلم اور چند دن بعد کامریڈ عبدالنبی کی شہادت کی خبریں گردش کرنے لگتی ہیں تب سمجھ میں آتا ہے کہ یہ بات اتنی سیدھی سادھی نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک باقاعدہ سوچھ سمجھ کر عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ اپنے رویوں سے جب عملی جہدکاروں کو یہ عندیہ دیدیا گیا تب انہوں نے اپنے تئیں تحریک کو منظم و متحد کرنے کی کوششیں شروع کردیں، جو ان قبائلی شخصیات کو ناگوار گذریں اور 18 نومبر 2017 کو ان قبائلی شخصیات نے اتحاد بابت ملاقات کا شوشہ چھوڑا، یہ باعث حیرانی نہیں کہ یہ دونوں شخصیات ایک دوسرے کو رسہ کشی میں مسترد کرچکے تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے ہاتھوں سے گیم نکل رہا ہے، تب اتحاد کے نام پر ایک نئے گیم کی شروعات کی گئی۔

اس ملاقات کے بعد باقاعدہ طور پر عملی جہدکاروں کو معطل کردیا گیا اور اس کے لیے ڈسپلن جیسے حیلے بہانے پیش کیے گئے۔ مکمل طور پر راشن بند کردیا گیا اور باقاعدہ دھمکیاں دی جانے لگی کہ جس نے قبائلی رہنما کا ساتھ نہیں دیا وہ بھوکا مرسکتا ہے۔ آج اگر ہم اس حرکت کے پیچھے کارفرما ذہن کا جائزہ لیں تو انہوں نے یہ انتہائی قدم اپنے اجارہ داری کو جاری رکھنے کے لیے 2 متوقع نتائج کی توقع میں اٹھایا۔

اول یا تو جہدکار مجبور ہوکر اطاعت گذاری کرینگے ایسے میں ان کا بول بالا ہوگا، دوسری صورت میں جہدکار مجبور ہوکر سرینڈر کرینگے ایسے میں ان کو جواز مل جاتا کہ دیکھو ہم نے ان کو کسی خاص وجہ سے معطل کیا اور اس طرح یہ خود صاف نکل آتے لیکن ان کی چالیں الٹی پڑ گئیں جب بلوچ جہدکاروں نے تمام تر مشکلات کے باوجود متبادل ذرائع تلاش کرتے ہوئے خود کو اس مشکل صورتحال سے نکالا۔

کچھ عرصہ قبل چین کی جانب سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ کچھ رہنماوں کیساتھ بات چیت میں مصروف ہے جس پر تمام آزادی پسند تنظیموں کا موقف سامنے آیا انہوں نے اس بات کو مکمل رد کردیا لیکن دو قبائلی رہنماوؤں کی مکمل خاموشی نے چین کی اس بات کو وزن دار ثابت کردیا کہ پس پردہ کوئی گیم چل رہا ہے۔

گذشتہ دنوں ریحان بلوچ کے واقعے کو لے کر جس طرح چین کو تسلی دی گئی کہ اس واقعے سے قبائلی رہنما اور اس کے گروہ کا کوئی تعلق نہیں ساتھ ہی بلوچ جہدکاروں کے گرد حآشیوں کو مزید گہرا کردیا گیا کہ اب یہ اجارہ داروں کے لیے بالکل ہی ناقابل برداشت بن چکے ہیں اور ایک طرح سے ریاست کو پیغام دیا گیا کہ ان کے خلاف کاروائی کی جائے۔ کچھ دن قبل ایک تقابلی جائزے کے نام پر قبائلی رہنما سے قربت رکھنے والے لکھاری نے اپنی بات واضح کردی اور بلوچ جہدکاروں کے لیے دو انجام ظاہر کیے کہ “یاتو وہ مارے جائینگے یا سرینڈر کرینگے۔” یہ نقطہ اہم ہے کیونکہ ان کی نفسیاتی گیم کا مقصد ہی مذکورہ دو میں سے ایک نتیجہ حاصل کرنا ہے اور اندرون خانہ اس dirty politics کا مقصد یہی ہے لیکن ان کے توقعات کے برعکس بلوچ جہدکار اس تاریخی ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر محسوس کرتے ہوئے تحریک کو ادارتی بنیادوں پر مستحکم کرنے کا عظم لیئے ہوئے ہیں۔

آج یہی وہ نوآبادیاتی حقیقت ہے جس کو بلوچ جہدکار تسلیم کرچکا ہے جبکہ یہ قبائلی رہنما نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا پانے کے بجائے مزید حصہ داری کے طلب گار ہیں، اس لیئے وہ نوآبادیاتی نظام میں واپسی کے لیئے بلوچ جدوجہد کو اس مقام تک لانے کے درپہ ہیں، جہاں فیصلہ کن کردار وہ رہیں اور عوام کو اس حد تک مایوس کیا جائے کہ وہ بھی ان کی نوآبادیاتی نظام میں واپسی پر ان کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرلیں۔ اس لیے بلوچستان پر کالونائزیشن کے سوال کو جھٹلانے سے لے کر عملی جہدکاروں کو اس حد تک مجبور کرنے تک بقول ان کے اپنے لکھاری “یا تو مارے جائینگے یا ہتھیار ڈال دینگے۔” تک سب کچھ سوچھے سمجھے منصوبے کے تحت ہورہا ہے، ایسے میں عملی جہدکاروں کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود کو تحریک کے وسیع تر مفاد میں محفوظ رکھیں اور کسی بھی مقام یا سطح پر کسی طرح کے ردعمل سے گریز کریں اور اپنے لیے متبادل ذرائع پیدا کریں اور جلد از جلد ادارہ سازی کو یقینی بنائیں تاکہ تحریک ان نئے چیلنجز کا سامنہ کرتے ہوئے اس فیز سے نکل سکے۔