مذہبی شدت پسندوں کا ٹارگٹ بلوچستان کیوں؟ ۔ لطیف بلوچ

228

مذہبی شدت پسندوں کا ٹارگٹ بلوچستان کیوں؟

تحریر۔ لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اس خطے کو جب بھی عالمی طاقتوں نے عدم استحکام کا شکار بنانا چاہا ہے، تو اُنہوں نے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے مذہبی شدت پسندوں کو استعمال کیا ہے، اگر ہم تاریخ میں تھوڑا پیچھے چلے جائیں تو سوویت یونین کے سامنے رکاوٹ ڈالنے اور افغانستان کے راستے جنوبی ایشیاء میں اُس کی پیش قدمی اور اثرورسوخ کو روکنے کے لیئے امریکہ نے پاکستان کیساتھ ملکر جہادیوں کی تخلیق کی امریکا براہ راست اپنے فوج کو اس جنگ میں استعمال نہیں کرنا چاہتا تھا، اُنہوں نے ساری دنیا کے مجاہدین کو افغانستان میں جمع کیا۔

پاکستان جہادی بھرتی کرنے کا ایک بیس کیمپ میں تبدیل ہوا، پاکستانی فوجی قیادت نے امریکہ سے ملکر اس مقصد کے لئے جنوبی وزیرستان سمیت پاکستان کے بعض دیگرعلاقوں کا انتخاب کیا، وہاں طالبان بھرتی اور ٹریننگ کیمپس بنائے گئے اور پاکستان سمیت مختلف عرب ممالک سے جہادیوں کو پاکستان کے راستے افغانستان پہنچایا گیا، امریکی سی آئی اے اور پاکستانی آئی ایس آئی نے ملکر مجاہدین کے تربیت کا کام سرانجام دیا پاکستان سے ہزاروں مجاہدین لڑنے افغانستان چلے گئے، بلوچستان افغانستان کے سرحد پر واقع ہونے کے بناء پر متاثر ہوا بلکہ بلوچستان میں جاری قومی آزادی کی تحریک کو روس سے سپورٹ ملنے کے خوف نے پاکستان کو ایک غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا کیا تھا وہ گرم پانیوں خصوصاً(بحیرہ عرب) تک روس کے رسائی حاصل کرنے سے خاصا پریشان تھے اور اس جنگ میں بلوچستان کے سرزمین کو بھی جھونک دیا گیا بلوچستان کے کچھ بلوچ اور پشتون سرحدی علاقوں میں مذہبی جہادیوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیئے گیئے۔

1979 سے 1989 تک افغانستان میں مجاہدین لڑتے رہے اور جب 1989 میں روس پسپاُء ہوا، تو افغانستان کا شیرازہ بکھر چکا تھا، مختلف طاقتور قبائل آپس میں لڑتے رہے اور خوفناک خانہ جنگی کا آغاز ہوا 9 سال تک لڑی جانے والی جنگ نے افغانستان کو ہر حوالے سے تباہی اور بربادی میں دھکیل دیا تھا، معاشی حوالے سے بھی بھی افغانستان مکمل طور پر تباہ تھا، روس نے نکل جانے کے بعد نجیب حکومت کی حمایت جاری رکھی تھی 1996 میں مجاہدین نے ملا عمر کی قیادت میں کابل پر قبضہ کرکے افغانستان کو اسلامی امارات قرار دے کر اسلامی حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا اور ملا عمر کو امیر المومنین بنایا گیا۔ 11 ستمبر 2001 میں امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد حالات تیزی سے تبدیل ہوگئے، القائدہ اور اسامہ بن لادن کے تعاقب کرتے ہوئے 7 اکتوبر 2001 کو امریکا نے پاکستان کی مدد سے افغانستان پر حملہ کردیا اور 2004 میں حامد کرزئی کو افغانستان کا صدر مقرر کردیا گیا، جس کے پاکستان کے مفادات بدل گئے پاکستان نے امریکا کو بلیک میل کرنے کے لئے پاکستانی طالبان کا قیام عمل میں لایا اور افغانستان میں عدم استحکام پھیلانے کے لئے پاکستانی طالبان کو استعمال کرتے رہے کوئٹہ شوریٰ کا قیام عمل میں آیا۔

اسامہ بن لادن سمیت القائدہ اور طالبان کے اعلیٰ قیادت کو پاکستان میں پناہ دی گئی، اس بات کا اعتراف سابقہ آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا کہ جہادی تنظیموں کو ہم نے سپورٹ فراہم کیا، اُنہیں افغانستان اور ہندوستان جہاد خون خرابے کے لیئے بھیجتے رہے، جہادی ہمارے ہیرو تھے لیکن وقت کیساتھ حالات بدلتے گئے اور ہیرو دہشت گرد بن گئے گُڈ اور بیڈ طالبان کا اصطلاح استعمال کیا گیا اور طالبان بھی مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوگئے جن جہادی گروپس کو طالبان نے افغانستان کے سرزمین پر دہشت گردی اور عدم استحکام اور مداخلت کے لئے تخلیق کی تھی، اُنھیں بلوچستان میں بلوچ قومی تحریک کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

طالبان، لشکر جھنگوی، دعوۃ اسلام، لشکر خراسان، سمیت دیگر شدت پسند تنظیموں کو مکران، ساراوان، جھالاوان سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کی گئی اور اُن تنظیموں کے ذیلی ڈیتھ اسکواڈ تشکیل دیئے گئے، پاکستانی فوج نے کاؤنٹر انسرجنسی پالیسیوں کے ذریعے بلوچ قومی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کا آغاز کیا بلوچ قومی تحریک کو ایک مذہبی اور شدت پسند تحریک ظاہر کرنے کے لئے بلوچستان میں مذہبی منافرت، اور دہشت گردی کا آغاز کیا۔ عقیدے اور مذہب کے بنیادوں پر مذہبی اقلیتوں خصوصاً شعیہ ہزارہ برادری کا قتل عام شروع کیا گیا، بلوچ علاقوں میں ان مذہبی شدت پسندوں کو بلوچ تحریک کے خلاف استعمال کیا گیا۔ بلوچ نوجوانوں اور نیشنلسٹ پولٹیکل ورکروں کی قتل عام، وکلاء برادری، پولیس لائن اور شاہ نورانی درگاہ پر خود کش حملوں، اغوا برائے تاوان، مسخ شدہ لاشیں پھینکنے، سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کرنے سمیت دیگر جرائم میں انہی مذہبی شدت پسندوں کا بھر پور استعمال کیا گیا اور یہاں سے خود کش تیار کرکے افغانستان میں دہشت پھیلانے اور نیٹو فورسز کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیوں کے لئے بھیجتے رہے بلکہ اب بھی بھیجا جارہا ہے۔

افغانستان میں موجود امریکی فوج کے رسد میں خلل ڈالنے کے لئے ان مذہبی شدت پسندوں کو استعمال کیا گیا اور نیٹو رسد پر حملوں کے لیئے بلوچستان کے سرزمین کا انتخاب کیا گیا تاکہ دنیا کے سامنے یہ ثابت کیا جاسکے کہ بلوچ ایک رجعتی قوم ہے، اس کے علاوہ امریکا، افغانستان، ہندوستان، پاکستان سعودی عرب اور ایران نے اپنے دشمنی کا اکھاڑا بھی بلوچستان کو بنادیا ہے۔ بلوچستان کو ایک پراکسی وار زون میں تبدیل کیا گیا سیکولر بلوچ قوم کو مذہبی انتہا پسندی کے عفریت اور آگ میں دھکیل دیا گیا جس عفریت کے آگ نے بلوچ قوم کے صدیوں پر محیط روایات، تہذیب، مذہبی رواداری کو جھلس کر خاکستر کردیا جہاں ریاستی مذہبی دہشت گردی سے مذہبی اقلیتیں متاثر ہوئے، وہیں پے بلوچ قومی تحریک اور بلوچ نیشنلزم کو بھی شدید نقصانات سے دو چار ہونا پڑا۔

سیاسی، علمی، معاشی اور سماجی ارتقاء کا پہیہ مکمل رُک گیا، بلوچستان میں مذہبی شدت پسندی کی تخلیق بلوچ قومی تحریک اور قومی آزادی کی جاری جدوجہد کو کاونٹر کرنے کے لئے ریاستی سرپرستی میں پروان چڑھایا گیا، بلوچستان کے شہروں اور دیہاتوں میں بڑے پیمانے پر مدارس کھولے گئے اور اُن کے لئے باقاعدہ فنڈز مختص کیا گیا ان مدارس کو دینی تعلیم دینے کے بجائے جنگی ٹریننگ کیمپوں میں تبدیل کردیا گیا ان مدارس کے بنانے کی اثرات اب بلوچستان میں داعش کے حملوں کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔

تحریک طالبان، لشکر جھنگوی، لشکر خراسان سمیت دیگر چھوٹی بڑی شدت پسند تنظیمیں بھی داعش میں ضم ہوگئے ہیں اور کچھ تنظیمیں چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ گئے، امریکہ و اتحادی پاکستان، افغانستان، ہندوستان، ایران سمیت دیگر طاقتیں اُنکی خدمات حاصل کرکے ایک دوسرے کی دشمنی اور خطے میں سیاسی عدم استحکام پھیلانے کے لئے اُن مذہبی گروپوں کو بھر پور استعمال کررہے ہیں۔ سامراجیت اور فاشزم کا نشانہ افغان اور بلوچ اقوام کو بنایا جارہا ہے۔ بلوچ قوم پرست آزادی پسند قوتوں کو عالمی سیاسی صورتحال اور بدلتے منظر نامے کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیئے کیونکہ عالمی سطع پر سیاسی حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں، عالمی طاقتیں اور ممالک اپنی مفادات کو مدنظر رکھ کر اتحادیں تشکیل دے رہے ہیں حریف اور حلیف بدل رہے ہیں۔

بلوچ قیادت بلوچ قوم کو آنے والے درپیش چیلنجر سے نکالنے کے لئے عالمی سیاست کی داؤپیج کو سمجھ کر باریک بینی سے جائزہ لیں بین الاقوامی سطع پر مضبوط لابنگ اور سفارت کاری کرکے اپنے سیاسی حلیفوں کا تعین کریں بلوچستان کو پاکستان کی جبری قبضہ اور مذہبی شدت پسندوں کی نرغے سے نکال کر آزاد بلوچستان کی قیام کے لئے پیش بندی کریں۔