تنقید، تنقیدی شعور اورخود تنقیدی
بشیر زیب بلوچ
( بی این ایم کے لیکچر پروگراموں کے سلسلے سے ماخوذ)
“بلوچ نیشنل موومنٹ کے منعقد کردہ ان پروگراموں کامقصد بلوچ قوم کی سیاسی تربیت ہے۔ ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہم ان موضوعات کا انتخاب کریں جو سیاسی عمل میں سیاسی کارکنان کی ذہنی نشوونماء، جماعت جن سے ہمارا تعلق ہے ان کی ساخت کو بہتر بنانے اور سماج میں تبدیلی کا موجب ہو۔ اسی ضمن میں آج جس موضوع کا انتخاب عمل میں لایا گیا ہے وہ سیاسی کارکنان کے لیئے تو بڑی اہمیت کا حامل ہے ہی لیکن اس کے ساتھ اس موضوع کو ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے جو حقیقتاً سماج میں مثبت تبدیلیوں کا خواہاں ہیں انتہائی اہم قرار دیتے ہیں۔”
ہمارا آج کا عنوان تنقید، تنقیدی شعور اور خود تنقیدی ہے۔ تنقیدی عمل اس بہتے ہوئے پانی کی طرح ہوتا ہے، جو گندگی اور کچروں کو کنارے پہ لگا دیتا ہے، غیر تنقیدی عمل او رجحانات ہمیشہ ایک جگہ پر رکے اس پانی کی طرح ہوتا ہے جو گندگی اور بدبودار ماحول کو جنم دیتا ہے۔
زیر بحث موضوع یا لیکچر تنقید، تنقیدی شعور اورخود تنقیدی یعنی تینوں چیزوں کو جب باہم جوڑنے کے ساتھ عملی شکل دیتے ہیں تو وہ ترقی کی راہ ہموار کرتی ہے۔
میرے نزدیک میرے ہمسفر کامریڈوں! علم تنقید کے بنیادی اصول یہ ہیں۔
معرض اور موضوع کے وجود کا ہونا ہے۔
موضوع پہ کامل دسترس رکھنا۔
جہاں موضوع پہ عمل کیا یا کروایا جارہا ہے، اس فرد،سماج یا گروہ (معروض) کے بارے میں جانکاری۔
یہ تین بنیادی اصول ہیں، جنہیں اپنا کے ہم اس علم سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ آسان الفاظ میں ہم اسے اس طرح بیان کرسکتے ہیں کہ جب کسی موضوع، معروض پہ بات کررہے ہوں تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا ان کاوجود بھی ہے یا فقط مفروضاتی شبیہہ ہے؟ ان میں سے کسی ایک کو حذف کرکے کچھ کہنا، یا لکھنا تنقید کے زمرے میں شمار نہیں ہوگا۔ یہی تنقیدی عمل کے بنیادی و جدلیاتی اصول اور تقاضات ہیں ،تنقیدی عمل کے بنیادی اور عموعی اصول بھی۔
تنقیدی عمل کا پہلا حصہ تنقیدی شعور، دوسرا حصہ خود تنقیدی اور تیسرا حصہ تنقید جو بنیادی طور پر تینوں ایک ساتھ بندھے ہوئے بھی اور الگ الگ موضوع بھی ہیں۔ ان کو الگ الگ جاننا اور سمجھنا ہر جہدکار کے لیئے لازم ہے۔
سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ تنقید بذات خود کیا ہے؟ لفظ تنقید نقاد سے نکلا ہے، جو شاعروں کی دریافت ہے۔ جہاں شاعری کی کمزوریوں کو افشاں کرنے اور ان میں بہتری لانے کے لیے عملی اقدامات کیئے جاتے تھے، طریقہ کار کیا تھا، ہمیں اس بحث میں جانے کی ضرورت نہیں۔
اس کے بعد یہ علم دیگر موضوعات کے لیے مفید اور کارگر ثابت ہوئی۔ جسے اپنانے کے بعد فرسودگی کا خاتمہ اور جدت کی جانب سفر شروع ہوا، ایسا بھی نہیں کہ اس علم یا تنقید پہ نکتہ چینی نہیں کی گئی، تاریخ میں ہمیں ایسی بہت ساری مثالیں ملتی جہاں عظیم ہستیوں کو علم تنقید کی وجہ سے سولی پہ لٹکایا گیا، اس حوالے سے گلیلو کی مثال ہمارے سامنے ہے جب انہوں نے ماضی کے فلاسفروں کی سوچ اور علم پہ تنقید کرتے ہوئے زمین کا نقشہ کھینچا تو اسے سزائیں سنائی گئیں اور مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے خیالات سے دستبردار ہوجائے، لیکن بعد میں آنے وقت نے ثابت کردیا کہ گلیلو کا یہ نظریہ منطق پہ متنج تھا۔ اسی طرح سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑتا ہے، الغرض بہت سارے واقعات ایسے رونماء ہوئے ہیں جہاں اس علم کو زوال پذیر کرنے کا عمل ہوتا رہا ہے۔ لیکن انسان کی تجسس پسندی نے اسے ساکت رہنے نہیں دیا بلکہ ایسے واقعات کے بعد یہ عمل مزید مقبولیت حاصل کرگیا۔
تنقید کی تعریف:۔
کسی فرد کا عمل یا پروگرام کے خدوخال کو منطقی بنیادوں پہ پرکھنا ، اس عمل سے رونماء ہونے والے حالات و واقعات اور اس کی کمزوریوں کی نشاندہی کرنا تنقید کہلاتا ہے۔
تنقیدی شعور:۔
تنقیدی شعور سے مراد، اس کے اصول اور طریقہ کار کے بارے میں جانکاری، اس کے فوائداور نقصانات کیا ہیں، تنقید کہاں پر اور کس پر ہونا چاہیئے ،کب ہونا چاہئے اور کیوں ہونا چاہئے ،تنقید کا طرز عمل اور فارمولہ کیسا ہونا چاہئے؟
اگر کوئی فرد درج بالا جانکاری رکھتا ہو تو ہم بلاجھجک یہ کہہ سکتے ہیں کہ زید یا بکر تنقیدی شعور کا مالک ہے۔
فکر اور نقطہ نظر کے میدان میں کوئی بھی خیال اور سوچ حرفِ آخر اور حتمی نہیں ہوتا۔ یہ غورو فکر کا مسلسل عمل ہے، جو کسی قوم اور سماج کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔ اس سے جہاں روایت پر نئی نسل کا ایمان پختہ ہوتا ہے، وہاں اسے یہ موقع ملتا ہے کہ نئے تخلیق شدہ حقائق کو بھی اپنے افکار کا حصہ بناتے رہیں۔ تاہم سوچ بچار کایہ عمل اسی وقت نتیجہ خیزہوتا اور مثبت ارتقاء کو یقینی بناتا ہے جب یہ تنقیدی شعور سے بہرہ مند ہو۔
تنقیدی شعور فکری ارتقا کو ایک ضابطہ اخلاق اور اصول کا پابند بناتا ہے۔ اس کے آداب اور طریقہ کار متعین کرتا ہے۔ وہ سیاق و سباق کو پیشِ نظر رکھتا ہے، اسی طرح ناقد کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس پہلو پر تنقید کر رہا ہے۔ سماج بھی تنقید کو اسی تناظر میں دیکھتا ہے۔ لوگوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ کسی موقف کے کو پرکھ اور جان سکیں تا کہ ان پر اس کے مثبت پہلو واضح ہوں اور ساتھ ساتھ منفی بھی۔یوں یہ تنقید ایک مثبت عمل بنتی اور معاشرے کو فکری سرمایے سے مالا مال کردیتی ہے۔ اس سے مکالمے اور علمی بحث و مباحثے کا کلچرپیدا ہوتا ہے اور مخالفت الزام تراشی جھوٹ اور پروپیگنڈہ کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
تنقید اور اجتہاد کے حوالے سے مفکر مولانا وحیدالدین خان کہتے ہیں
”تنقید اور تقلید دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں جہاں تقلید ہو گی وہاں تنقید نہیں ہو گی، اور جہاں تنقید ہو گی وہاں تقلید نہیں ہو گی ، اجتہاد کا معاملہ اس کے بلکل بر عکس ہے ۔ اجتہاد لازمی طور پر تنقید چاہتا ہے ۔ جہاں تنقید کا ماحول نہ ہو وہاں کبھی اجتہاد کا عمل جاری نہیں ہو سکتا۔”
تاہم تنقید کو تنقید ہونا چاہئے نہ کہ تنقیص۔ تنقید ،علمی اور منطقی تجزیہ کا نام ہے۔ اس کے برعکس تنقیص کا سارا انحصار عیب جوئی اور الزام تراشی پر ہوتا ہے۔ تنقید اگر تنقیص کی صورت اختیار کرلے تو وہ سب و شتم ہو گا نہ کہ تنقید۔
علم و منطق تحقیق اور جستجو ہی تنقیدی شعور کو تخلیق کرتا ہے اور پروان چڑھاتا اور لوگوں میں تنقیدی رجحانات اور خیالات کو اجاگر کرتا ہے ورنہ جہاں علم و آگہی تحقیق اور جستجو سرے سے میسر نہ ہو وہاں انسان کا ذہن خالی برتن کی طرح ہوتا ہے جسمیں جو بھی کوئی شے ٹھونس اور نکال سکتا ہے، اس سے مراد وہ انسان کے روپ میں روبوٹ نماء مشین ہوتا ہے، جس کا کنٹرول اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ اس سے ہوتا یہ ہے کہ فرد یا گروہ ”جی حضوری” کے موذی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔جس سے یہ طوطا نما ء انسان کی شکل اختیار کرتا ہے، کوئی اسے جو بھی بولے وہ بھی وہی بولتا اور رٹہ لگاتا ہے جس کے اپنے دماغ میں کوئی مواد نہیں ہوتا ہے جو اس کی مشینی خاصیت کو ظاہر کرتا ہے۔
ایسے لوگ تنقیدی شعور سے محروم ہوکر جب تنقیدی عمل کا حصہ بنتے ہیں یا سائنسی تنقید کے نام پر تنقید کرتے ہیں تو وہ علمی اور سائنسی اصولوں کی بنیاد پر تنقید کے زمرے میں نہیں آتے ہیں بلکہ نقطہ چینی تنقیض ،تقلیدی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایسے افراد ہر چیز میں کیڑا نکالنے اور ماچس کی تیلی کو بانس بنانے کی کوششوں میں مگن ہوتے ہیں۔ایسے لوگوں اور جہدکاروں کے حوالے سے چیئرمین ماو زے تنگ کا موقف کچھ یوں ہے۔
”انقلابی پارٹی تنقید سے خوفزدہ نہیں ہوتی کیونکہ ہم مارکسی ہیں اور سچائی، عوام، مزدور اور ہاری ہمارے ساتھ ہیں۔ ایسے سائنسی انقلابی ہرخوف سے عاری ( نڈر ) ہوتے ہیں۔ پارٹی میں تنقید کے سلسلے میں ایک ضروری بات یہ ہے کہ کارکن تنقید کرتے وقت بڑے مسائل کو نظر انداز کرکے اکثر چھوٹے مسائل پر ساری توجہ مبذول کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ تنقید کا بنیادی مقصد سیاسی اور تنظیمی غلطیوں اور کمزوریوں کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ جہاں تک ذاتی خامیوں کا تعلق ہے بشرطیکہ وہ سیاسی اور تنظیمی غلطیوں سے وابستہ نہ ہوں، ان پر ضرورت سے زیادہ تنقید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔دوسری صورت میں ہمارے کامریڈ جھنجھٹ کا شکار ہوجائیں گے اور انہیں پتہ ہی نہیں چلے گا کہ وہ کیا کریں۔ اس کے علاوہ اگر ایک بار اس قسم کی نکتہ چینی کا پارٹی کے اندر رواج پڑگیا تو پھر چھوٹی چھوٹی باتوں پر زیادہ توجہ دینے کا چلن عام ہوجائے گا اور ہر کوئی ضرورت سے زیادہ محتاط ہوکر پارٹی کے سیاسی معاملات سے کنارہ کش ہوجائے گا۔ ”
ارشاد یعقوب خان سرگروہ (جدہ سعودی عرب) کہتا ہے
نکتہ چینوں کی محفل سے جو اپنا قلم ہاتھوں میں سجائے بیٹھے ہوتے ہیں اور بس تاک میں ہوتے ہیں کہ کچھ آئے تو نقطوں کی بوچھاڑ کردے، یہ وہ نکتہ چین ہوتے ہیں جو صرف نقطے لگانے کا کام جانتے ہیں. انہیں کبھی کوئی تعمیری موضوع پر لکھنے کو کہے تو یہ قلم کو میان میں ڈال کر تحقیق و تعمیر کے میدان سے ایسے غائب ہوجاتے ہیں، جیسے بکرا مزبح خانہ سے اور کبھی انکے ہاتھ میں اسپیکر دیا جائے تو انکی سانس اٹک جاتی ہے اور پھر پانی کے ایک نہیں کئی گھونٹ اتر جانے کے بعد بھی ایسا لگتا ہے کی کسی نے انکا گلا گھونٹ رکھا ہے. کہتے ہیں کہ نکتہ چینی کوئی فن نہیں ہوتا اسی وجہ سے کوئی ماہر نکتہ چین نہیں ہوتا ہے جو بھی ہوتا ہے بس چو چو تو تو اور پھر تھو تھو کا مربع ہوتا ہے اور کبھی کبھی یہ نکل کر ہوتوتو کا میدان بن جاتاہے. میری نظر میں نکتہ چینی کی تعریف صرف دو لفظ ہے تنقید برائے تضحیک ، نکتہ چینی کرنے والوں کی نیت ہمیشہ غلط ہوتی ہے، اسلیئے تنقید برائے اصلاح نہیں ہوتی، اس لیئے نکتہ چینی ہی رہتی ہے، کچھ نام کے ادیب ہیں جو کچھ کام کے نہیں جنکے قلم ان کے عقل سے زیادہ بیوقوف ہوتے ہیں۔”
تو جب تک تنقیدی شعور نہیں ہوگا یعنی میرا تنقید جائز یا نا جائز، حقیقی یا غیر حقیقی ہے اگر یہ شعور یا احساس انسان کے پاس دستیاب نہیں ہوگا، تو اس وقت تک تنقیدی عمل کا حصہ بننافضول وقت کا ضیاع اور نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا، پھر دنیا میں جس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر اسکالروں فلاسفروں اور مفکروں نے تنقید کی جو بنیاد رکھا ہے، وہ مقصد پھر کبھی حاصل نہیں ہوگا بلکہ کھونے کے لیے بہت پانے کے لیئے کچھ نہیں ہوگا۔
خود تنقیدی:
خودتنقیدی سے مراد اپنی ذات (انفرادی)اور اپنی پارٹی تو سب سے پہلے میں خود کیا ہوں؟ میری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ آیا میں انہیں صحیح طریقے سے نبھارہا ہوں یا نہیں اگر نہیں تو کیوں نہیں اگر نبھارہا ہوں تو کیسے کس حد تک؟ میں خود مطمئن ہوں یا دوسرے بھی؟ کیا تحریک اور پارٹی کی تمام ذمہ داری اور تقاضوں کو پورا کررہا ہوں یا نہیں؟ اگر نہیں تو بھر ہمیں یہ عمل اپنانا چاہئے۔ خود کلامی اور خود آگہی کیونکہ ان سے خود تنقیدی پروان چڑھتا ہے، جب خود تنقیدی کا احساس یا خود تنقیدی کا علم و شعور انسان کے دل و دماغ میں جگہ بنا پاتا ہے، تو انسان ہمیشہ اپنی ذات، وابستہ پارٹی یا دوسرے لوگوں پر تنقیدکرنے سے پہلے ضرور خود کو خود تنقیدی سے بار بار گزار کر اس کے بعد اپنی توجہ اور نظر دوسروں کی گربیان کی طرف مبذول کرتا ہے۔
خود تنقیدی کا انحصار خود کی آگاہی میں ہمیشہ پوشیدہ ہوتا جب خود کی آگہی نہیں ہوگی اس وقت تک خود تنقیدی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جب خود تنقیدی نہیں ہوگا اس وقت تک اپنی پارٹی اور دوسروں پر تنقید کرنا خود نقطہ چینی کے زمرے میں شمار ہوگا پھر کسی بھی انسان یا جہدکار کو اصولی اور اخلاقی طور پر دوسروں پر تنقید کرنے کا اخلاقی حق نہیں ہوگا۔خود تنقیدی کا پہلا لازمی اور بنیادی اصول اور فلسفہ یہ ہوتا ہے کہ اگر میں دوسروں کی جس چیز ،خیال، سوچ، طریقہ کار، غلطی ،کمزوری اور خامیوں کو ہدف تنقید بنارہا ہوں کیا وہ من عن یا مختلف شکل و روپ میں میرے اندر تو موجودنہیں ؟جب ہم سوچنا شروع کرینگے تو انداز کچھ اس طرح ہوگاکہ کس حد تک میں انا پرست اور خود غرض ہوں کس حد تک خوف زدہ، سست، کام چور لاپرواہ ہوں کس حد تک صبر و برداشت سے محروم ہوں، کس حدتک اپناکردار ادا کرکے پارٹی پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہوں کس حد تک اپنے ذاتی اغراض کے بجائے پارٹی ذمہ داری یعنی اپنے حصے کی سرگرمیوں کو پہلے نمبر پر اہمیت اور ترجیح دے رہا ہوں؟ میرا قدم قدم لمحہ بہ لمحہ اعمال رویے اس وقت کس طرح اور کیسے ہیں؟
پھر اس کے بعد اپنی پارٹی اور دوسرے دوستوں پر نظر رکھنا کہ سب سے ۔۔۔پہلے۔۔۔ میراپارٹی پروگرام، پالیسی حکمت عملی کیا اور کیسے ہے، دوسرے پارٹیوں سے کس حد تک مختلف ممتاز اعلی منفرد اور مثالی ہے اگر ہے تو کیسے ؟ دوم۔۔۔کیا میرا پارٹی دیگر تمام پارٹیوں سے خصوصیت و صفات سے مالا مال ہے کوئی خامی کمزوری کی گنجائش ہی نہیں ہے؟ اگر خود کی پارٹی اوپر سے نیچے تک خامیوں کمزوریوں بے ترتیب غیرمنظم انارکی انتشار موقع پرستی خود غرضی وغیرہ کا شکار ہے تو پھر دوسروں پر تنقید کرنا اصولی اور اخلاقی طور آپ کو کوئی حق نہیں اگر پھر بھی تنقید دوسروں پر ہوگا وہ نقطہ چینی کی زمرے میں شمار ہوگا جو خود اخلاقی اور اصولی تنقید کے منافی ہوتا ہے۔
اپنی پارٹی یا پارٹی پروگرام پر تنقید کرنا بھی ایک ضابطہ اخلاق کے تحت ہونا چاہیئے پہلا ہر جگہ یعنی غیر متعلقہ جگہوں پر پارٹی پروگراموں اور جہدکاروں پر تنقید کرنا اور پارٹی دوستوں کے درمیان یا پارٹی اجلاسوں اور متعلقہ جگہوں پر خاموش رہنا پیٹ پیچھے بات کرنا خود پارٹی کے اندر لابنگ انتشار مایوسی پھیلانے کی زمرے میں شمار ہوتے ہیں، جو تنقید برائے اصلاح نہیں بلکہ تنقید کے نام پر آزاد خیالی اور پروپیگنڈہ ہوتا ہے، جو دیگر کارکنوں کو پارٹی سے بدظن کرنے اور پارٹی ساکھ کو نقصان پہچانے کی سعی ہوتا ہے ایسے رجحانات کے جنم لینے اور پھیلنے سے پارٹی شدید بحرانی کیفیت کا شکار ہوگا۔دوسرا اپنی پسند نا پسند ،سوچ، اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے ذاتی ضد و انا، لالچ و خوف، حسد و جلن،بد نیتی اور منفی رویو ں کو تنقید اور حقیقت پسندی کی علمبرداری کا نام دینا بے وقوفی اور احمقانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو پارٹی کو کمزور کرنے کی سعی ہوتا ہے پارٹی میں ایسی سوچ اور رجحانات کی ہر وقت اور ہر سطح پر بیخ کنی اور حوصلہ شکنی کرنا قومی اور پارٹی مفاد کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔
بقول چیئرمین ماوزے تنگ کے ”پارٹی کے اندر تنقید کا معیار سطحی اور حاسدانہ نہیں ہوناچاہئے۔ بات سچائی اور حقیقت پر مشتمل ہو اور تنقید زیادہ تر سیاسی پہلوؤں سے ہونی چاہئے۔پارٹی کے اندر تنقید ایک ایسا ہتھیار ہے جو پارٹی کی تنظیم سازی کو منظم کرتی ہے اور اس سے جنگی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ سرخ فوج کی پارٹی تنظیم میں تنقید کی نوعیت ہمیشہ اس قسم کی نہیں ہوتی اور کبھی کبھار یہ ذاتی حملوں میں بدل جاتی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی تنقید سے پارٹی کے علاوہ افراد( کی ساکھ ) کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔یہ تو سرمایہ دارانہ ذہنیت ہے۔ اس صورتحال کو اصلاح کے مطمع نظر سے پارٹی کے کارکنوں کو یہ سمجھانا ہے کہ تنقید کا مقصد طبقاتی جدوجہد میں فتح حاصل کرنے کیلئے پارٹی کی جدوجہد کیاور صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے نہ کہ اسے ذاتی حملوں کے طور پر استعمال کرنا۔ ہمارے اندر اگر خامیاں ہیں تو ہمیں تنقید سے گھبرانا نہیں چاہئے کیونکہ ہمیں عوام کی خدمت کرنی ہے۔خواہ کوئی بھی ہو‘اسے ہماری خامیوں پر انگلی اٹھانے دیں ( اگر ) وہ صحیح کہتا ہے تو ہم اپنی خامیوں کو دور کریں گے، اگر اس کی تجاویز سے عوام کو فائدہ پہنچتا ہے تو ہمیں اس پر عمل کرنا پڑے گاہمارے پاس مارکسی‘ لیننی تنقید اور خود تنقیدی کا ہتھیار ہے۔ان کی مدد سے ہم غلطیوں سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں اور اچھے طریقہ کار استعمال کرسکتے ہیں۔خود تنقیدی عمل ہی ایک ایسی نمایاں چیز ہے جو ہماری پارٹی کو دیگر سیاسی پارٹیوں سے منفرد بناتی ہے۔جس طرح کسی کمرے کو اچھی طرح سے صاف نہ کیا جائے تو اس میں گند بھر جاتا ہے اسی طرح اگر ہم اپنے چہروں کو باقاعدگی سے دھوتے نہ رہیں تو وہ گندے ہوجاتے ہیں۔ہمارے کامریڈوں کے اذہان اور ہماری پارٹی کے کام میں بھی گند جمع ہوسکتا ہے۔”
اسی تناظر میں بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ بلوچ اپنے ایک تنقید کے موضوع پہ بلوچ سرمچاروں کو لیکچر دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ”تنقید برائے تعمیر وہ ہے جس میں تنظیم ،پارٹی یا ساتھی کی اصلاح کی جاتی ہے۔ جہاں کہیں بھی کمزوری پائی جاتی ہو،خواہ وہ تنظیم کے یونٹ یا دمگ ہو یا کمانڈ ،سب کمانڈ ، ایریا کمانڈ یا سینڑل کمانڈ ہو اس میں نشاندہی کی جاتی ہے کہ ہم میں یہ کمزوری یا ضعف ہے، نشاندہی کرنے والے ساتھی اپنے متعلقہ رہبر، اپنے سنگت اپنے کامریڈ کو بتاتا ہے کہ جی اگر پائے جانے والے کمزوریوں پر قابو نہیں پایا گیا تو ہماری جدو جہد تنظیم یا پارٹی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تعمیری وہی ہے کہ جس میں جو اخلاص اور نیک نیتی شامل ہو۔ تنقید کنندہ خود شعور و آگاہی کے اعلیٰ وارفع منازل طے کریں، تو اپنے ساتھیوں یا تنظیم پر جب شعور ،پختگی اور آگاہی کی بنیاد پر تنقید کرتا ہے تو اس سے تنظیم کی اصلاح ہوتی ہے اور تنظیم بتدریج خرابی یا کمزوریوں سے پاک ہوتا ہے اور اپنے ممبران کی بھی اصلاح کرتی ہے۔ آگے چل کر اپنی پالیسوں پر مثبت انداز میں اصلاح کرتا ہے لیکن انداز یا طریقہ کار ایسا ہوکہ ساتھی اور ہمراہوں کی دل آزاری نہ ہو۔”
تنقیدی عمل کا تیسرا حصہ خود تنقیدی اپنا اور اپنی پارٹی کی اس کے بعد دوسروں پارٹیوں پر تنقید وہ بھی تنقید برائے تعمیر مثبت ،مدلل اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر خاص کر اپنے دشمن اور قوم کے مزاج علم و شعور اور سوچ کی سطح کو مدنظر رکھ کر تنقید کرنا شعوراور تبدیلی کا عمل ہوتا جو قومی تحریک کے لیے سود مند ثابت ہوگا اگر تحریکی کمزوریوں، رازوں، خامیوں سے دشمن کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملا اور بلوچ قوم اور بلوچ جہدکاروں میں ناامیدی مایوسی بددلی کے رجحانات پروان چڑھے تو ایسا تنقیدی عمل قومی تحریک کیلے سود مند نہیں بلکہ بربادی ثابت ہوگی کیونکہ دشمن کی جبر بربریت و تشدد سے بلوچ قوم اور بلوچ نوجوان کبھی مرغوب نہیں ہونگے اس حوالے سے نوجوان پر عزم اور ذہنی حوالے سے ان تمام ریاستی جبر و بربریت کو سہنے کے لیے ہمہ وقت ذہنی و فکری حوالے سے تیار ہوتے اور ان چیزوں کو قوم و وطن اور قومی آزادی کے لیے قربانی سمجھتے ہیں مگر تحریک کے اندر انتشار تضاد رسی کشی ٹانگیں کھینچنے اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے عمل کو ہر گز کوئی قبول نہیں کرتا ہیں ان کو برداشت کرنا اور سہنے کو جہدکار ہر گز قومی قربانی کا درجہ نہیں دے سکتے پھر نتیجہ بدظنی اور مایوسی ہوگی اس وقت سینکڑوں واضح مثال ہمارے سامنے موجود ہیں۔
تو تنقید بلکل ہونا چاہیئے پہلے تنقیدی شعور اس کے بعد خود تنقیدی پھر تنقید برائے تعمیر، صرف تنقید برائے تنقید ہر گز نہیں ہونا چاہئے۔ خاص طور پر کہاں، کس جگہ اور کس فورم پر تنقید کرنا یہ بنیادی اور اہم سوال ہے؟
اگر صرف ہر وقت اور ہمیشہ کوئی جہدکار تنقید برائے تنقید نقطہ چینی یا پروپیگنڈہ کرتا ہے شب و روز پھر وہ منفی سوچ میں مبتلا ہوگا اور پھر ہرچیز میں کیڑا نکالنا اس کا عادت اور فطرت ہوگا پھر وہ خود کسی بھی کام کا نہیں ہوگا بلکہ تحریکی مشین کا ناکارہ پرزہ اور دیگر تحریکی مشین کی کارآمد پرزوں ( دوستوں) کے لیے بوجھ اور درد سر ہوگا، شاید چند وقت اس کے جیسے ہم خیال لوگ اس کی باتیں سن لیں اور دلچسپی لیں لیکن آخر ایسے لوگوں کی صحبت سے ہر ایک بیزار ہوکر اپنے آپ کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو کسی بھی نقطہ اور معاملہ پر تنقید کرنے سے پہلے نقطہ اور معاملہ پر مکمل تحقیق اور جستجو اس کے بعد متبادل یا اسے غلط قرار دینے سے پہلے ایک صحیح خیال یا فارمولہ بھی تنقید کے ساتھ ساتھ مدلل انداز میں پیشں کرنے کوتنقید برائے تعمیر یا اصلاح کہنا مناسب ہوگا، نہیں تو سب کے سب نقطہ چینی، مخالفت، الزام تراشی، کردار کشی، پروپیگنڈہ، ذاتی حملہ، رنجش ،انتقام، نفرت، حسد، بغض، بلیک میلنگ، نیچا دکھانے، ٹانگیں کھینچنے، اور عدم برداشت کے حربے ہونگے یہ رجحانات ،رویے اور سوچ کم از کم میرے نزدیک پارٹی اور مجموعی تحریک کو دشمن اور دشمن کے ایجنٹوں سے زیادہ نقصان دے سکتا ہیں۔
آج بھی بدقسمتی سے ایسے رجحانات اور رویوں کا ہمارے مجموعی بلوچ قومی تحریک پر آثار نمایاں طور پر نظر آرہے ہیں اگر فوری شعوری و علمی بنیادوں پر ایسے رجحانات اور رویوں کی نشاندہی اور تدارک نہیں ہوا، تو بلوچ قومی تحریک بدترین صورتحال سے دوچار ہوگا، اس حوالے سے ہر بلوچ جہدکار کو انتہائی سنجیدگی سے سوچنا چاہیئے اور کچھ کرنا چاہیئے تاکہ ایسے رویوں اور رجحات کی مکمل حوصلہ شکنی اور بیخ کنی ہو۔
موضوع کے حوالے سے میں فقط اتنا کہنا چاہونگا کہ یہی وہ عمل ہے جو انسان کے لیے تخلیق کے دروازے کھولنے کا پہلا ذریعہ ہے۔ اس حوالے سے میں کوئی بڑی مثال پیش نہیں کرونگا لیکن انسانی فطرت کی تشریح اس طرح کرسکتا ہوں کہ وہ تجسس پسند ہے، اس کی اسی تجسس پسندی نے دنیا کو نت نئے افکار دیئے۔ اگر تجسس پسندی نہیں ہوتی یا وہ دنیا کو فقط ایک ہی زاویے سے دیکھتا اور دوسروں کی آراء سے اختلاف یا ان پہ تنقیدی نگاہ نہیں ڈاالتا تو انسان پہ جمود کی کیفیت طاری ہوتی ۔اس لیے یہ کہنے میں کوئی دو رائے نہیں کہ انسان کے آج کی ترقی علم تنقیدی کی مرہون منت ہے۔۔۔
لیکچر
بشیر زیب بلوچ
10 اگست 2018