لاپتہ افراد اور جسٹس(ر) جاوید اقبال کی غلط بیانی
تحریر: کمال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
قصہ لاپتہ افراد کی ہے تو میں بھی آپ لوگوں کو ایک قصہ سناتا ہوں۔ پاکستان میں رہنے والے غیر بلوچ خاص کر پنجابی کے لئے نئے ہونگے، مگر پشتو ن اور سند ھی خو د اس بھٹی میں جل رہے ہیں۔ میں بلوچستان کے لوگوں کیلئے یہ کہہ سکتاہوں، یہاں اکثر لوگوں کے لئے یہ قصہ نیا نہیں ہے کیونکہ وہ روزانہ کی بنیاد پر اس عمل سے گذر رہے ہیں۔ بلوچستان کا ایسا گھر باقی نہیں رہا ہے جہاں سے کسی کولاپتہ نہیں کیا گیا ہو۔
میں 2009 میں بلوچستان یونیورسٹی میں داخلہ لے چکا تھا۔ بہت ہی لگن کے ساتھ یونیور سٹی بھی جاتا رہتاتھا۔ اتوار کا دن طالب علم کیلئے عید جیسا دن ہوتا ہے۔ کچھ سو جاتے، کچھ سیر وتفریح کرتے کچھ بازار جاکر کتاب اور قلم کی خریداری کرتے ہیں۔ میں بھی اتوار کے روز ہا سٹل سے نکل کر بازار کیلئے لوکل بس میں سوار ہوکر روانہ ہوا۔ یونیور سٹی سے تھوڑے فاصلے پر آگے ارباب کرم خان چوک پر پاکستان آرمی کی ایک چوکی قائم تھی، جہاں پر فو جیوں نے گا ڑی روک لی اور مجھے بھری گاڑی سے اسٹو ڈنٹ کارڈ چیک کرنے کے بعد اتار کر اپنے ساتھ لےگئے۔ دو مہینے 20دن تک میں نے ان کے اذیت ناک اور خوف ناک اندھیرے اور سیا ہ کمرے یعنی ٹارچر سیلوں میں گذارے۔ جس کوفت سے میں نے یہ دن گذارے ہر دن پر ایک کتاب لکھو ں تو کم ہے۔ یہی وجہ ہے مجھے اپنی تعلیم بھی ادھو ری چھو ڑنی پڑی۔ میں اپنا تعلیمی سفر پوری نہیں کر سکا۔
یہ قصہ سنانے کا مقصد یہ ہے کہ جسٹس (ر)جاوید اقبال کی حالیہ کہی ہو ئی بات جھو ٹ پر مبنی ہے۔ مجھے غائب کیا گیا تھا، عدالت میں میرے رشتہ داروں نے کیس دائرکی تھی لیکن مجھے انہوں نے عدالت میں پیش نہیں کیا۔ تشدد کے بعد انہوں نے مجھے چھوڑ دیا لیکن عدالت کے ذریعے نہیں۔ بلکہ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر جس طرح مجھے اٹھا لےگئے اور اُسی طرح مجھے پھر کوئٹہ عسکری پارک کے قریب چھوڑ دیا گیا۔ اسلیئے یہ چھوٹی سی تحریر لکھ کر آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ میں عرض کرتا ہوں کہ یہاں تو جھوٹ کا بازار لگا ہو ا ہے۔ انسانوں کو غائب کر کے بھی جھوٹ کا سہا را لیا جاتا ہے۔ یہ انسانیت اور انصاف کی تو ہین ہے۔ بقو ل استاد محمد علی ٹالپر ؛ لاپتہ افرادکا مسئلہ صرف انسانی جرم نہیں بلکہ دہشت گردی ہے۔ اس ملک کے انصاف کی آخری جگہ سپریم کورٹ ہے لیکن وہاں بھی اس طرح کمزور باتوں کا سہارا لیتا ہے۔ کیا لاپتہ افراد کے لواحقین کی مائیں اور بہنیں پریس کلب کے سامنے اس لئے احتجاج کرتے ہیں تاکہ اپنے پیاروں کو بازیاب کرسکیں، کیا یہ جھوٹ بو لتے ہیں؟ ریاست کے ہر ستون کو ہر وہ سچ جھوٹ لگتا ہے۔ یہاں فو ج کا راج ہے اور تمام نظام فو ج کے کنٹرول میں ہے۔ فوج کی طرف سے آئے ہوئے پیغام کوکوئی نہیں ٹال سکتا۔ فوج کے کہنے پر تمام قوانین روندے جاتے ہیں۔ جس آئین میں لکھا ہوکہ ریا ست پر فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ دے، وہی محافظ ہمیں اُٹھا کر غائب کرتے ہیں اور عدالتیں ان کی پذیرائی کرتے ہیں۔ ان کو پو چھنے والا کوئی نہیں۔ کیا بلوچ انسان نہیں ہیں جو اس طرح غائب کئے جا رہے ہیں۔
حالیہ دنوں جیوٹی وی کے ٹوئٹر پردو خبریں پڑھنے کو ملیں۔ ایک سابق جسٹس (ر)جاوید اقبال کا تھا، جنہوں نے کہا تھا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد ذاتی دشمنی پر اٹھائے جارہے ہیں اور غائب ہو رہے ہیں۔ دوسرا ایک حاضر سروس جج نے عدالت میں یہ کہاکہ اگر پولیس ناکام ہوئی ہے تو لوگ خود اپنے رشتہ داروں کی بازیابی کیلئے کوششیں کریں۔ یہ دو بیانات مضحکہ خیز ہیں۔ یہ پاکستانی فوج کے گناہوں کو چھپانے کی ناکام کوششیں ہیں کیو نکہ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں بلوچ لاپتہ ہیں۔ سینکڑوں کے حساب سے لو گو ں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں ہیں۔ کئی اجتماعی قبریں برآمدہوئی ہیں۔ اگر حقیقت میں ذاتی دشمنی کی بنیاد پر لوگوں کو غائب کیا جارہا ہے تو کیوں ریاست انہیں بازیاب نہیں کرسکتا ہے؟ دوسری بات کہ بلوچستان میں لوگوں کوغائب کرنا ان کو قتل کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ کیا بلوچ انسانوں کے دائرہ میں نہیں ہیں؟ انہیں کبھی شہر ی تصور کیا گیا؟ در حقیقت یہ قابض کی فطرت ہے کہ کسی بھی طرح لوگوں کو یہ احساس دلاتا رہتا ہے کہ حکمران ہم ہیں اور ہم سب کچھ کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں اس طرح کا زبا ن استعمال کرنے پر جج کے خلاف قانونی کارروائی ہونا چاہیئے، مگر وہی ملک نا پرسان۔
اس وقت بلوچستان کے ایسے گاؤں بہت کم رہ چکے ہیں جہاں پاکستانی فو ج کاکیمپ نہ ہو۔ اس کے باوجود بھی جھوٹ کا سہارا لیا جارہا ہے۔ ہر چیز اس وقت جبر کے کنٹرول میں ہے۔ خوشی کے مواقع، شادی سے دولہے کو غائب کیا جاتا ہے۔ ایک پورا گاؤں اس کا گواہ ہوتا ہے مگر اس کے باوجود فوج کے ہاتھون اغوا شدگان کو ذاتی دشمنی کا واقعہ قرار دیا جائے تو حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ جسٹس اقبال کس کی زبان بول رہے ہیں۔ لیکن انکی یہ باتیں فوج کی گھناؤنی کرتوتوں کو چھپا نہیں سکتیں۔ پا کستانی حکومت انسانیت کے خلاف جرم کا مرتکب ہے اور ایک دہشت گر د ملک ہے۔
پاکستان نے بلوچستان میں ایک انسانی بحران پیدا کی ہے۔ ہز اروں افراد لاپتہ اور ہزاروں شہید کی جا چکی ہیں۔ کوئی پُرسان حال نہیں۔لاپتہ افراد زندہ ہیں یا قتل کرکے بلیک ہول میں ڈال دیئے گئے ہیں کسی کو خبر تک نہیں ۔اگر ہم دور نہ جائیں صرف 1974کے بعد کی اس صورت حال کا جائرہ لیں تو کئی حقائق سامنے آتی ہیں۔ خو د یہ پاکستانی حکمران کئی دفعہ تسلیم کرچکے ہیں اور معافی مانگ چکے ہیں کہ بلوچستان کے لو گو ں پر ہر وقت ظلم ہوئی ہے۔ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ انکے لوگوں کو لا پتہ کیا گیا ہے جن کی تعدا د ہزاروں میں ہے۔ اگر ہم 2000کے بعد حکومتوں کو دیکھیں کہ وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ نے کہاتھا چار ہزار لوگ لاپتہ ہیں، ہما ری تحویل میں ہیں۔ (یہ رپورٹ موجود ہو نگے)۔ انہوں نے تسلیم کیا ہم نے لوگوں کو لاپتہ کیا ہے اور اس کے بعد 2008میں رحمان ملک یعنی پیپلز پارٹی نے تسلیم کیا کہ ہزاروں کے حساب سے لوگوں کو لا پتہ کیا گیا۔ انکو بازیاب کرنے کی بات ہو ئی۔ اسی طرح ہر حکمران خود تسلیم کر تے آئی ہے کہ معافی بھی مانگتے رہے ہیں۔ اس کے بعد بھی کسی ایک کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، نہ ہی رہائی نصیب ہوئی ہے بلکہ جن لوگو ں کو بھرے بازار سے فوج اُٹھا کر غائب کرتا ہے، انکی سی سی ٹی وی فو ٹیج بھی مو جود رہتے ہیں لیکن چند دنوں میں انکی مسخ شدہ لا ش برآمد ہو تی ہے۔ جس میں میں نوجوان لکھا ری خان محمد مری اور اُسکے بھا ئی کا ذکر کررہا ہوں جن کی عدالت میں فوٹیج لائی اور دکھائی گئی کہ ایف سی کے اہلکار انہیں بازار سے اُٹھا کر لاپتہ کرتی ہے۔ عدالتی شنوائی کے چند دن بعد ان کو قتل کرکے ان کی لاشیں پھینک دی جاتی ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کی حکومت نے 2013میں اعلان کیا کہ بلوچستان کے ساتھ ناانصافیوں کا ازالہ کیا جائے گا۔ انہوں نے بھی کہاتھا کہ ہم لا پتہ افر اد کو بازیاب کر یں گے۔ اُس کا نتیجہ بھی ہم نے دیکھ لیا۔
یہ بات یہاں ختم نہیں ہو تی۔ یہ سلسلہ تاہنوز جاری و ساری ہے۔ حال ہی میں سردار اختر مینگل کا احتجا ج، نئی حکومت کی آمد ۔ ۔۔۔لاپتہ افراد کی مسخ لاشوں کی برآمدگی جاری ہے۔ کراچی سے محمد بخش کی لاش کا برآمد ہونا اور یہ کہنا کہ کہ لو گوں کو بازیاب کیا جارہاہے لیکن اس سے کہیں زیادہ پھر اغوا کئے جاتے ہیں۔ اس پالیسی کو فوج نے برقرار رکھا ہے۔ جو وہ چاہتے ہیں وہی کچھ کرتے ہیں۔ آج بھی لوگوں کو لاپتہ کیا جارہا ہے۔ یو نیورسٹیوں، کالجوں میں یا شادی بیاہ پروگرامو ں سے لوگوں کو اٹھایا جاتا ہے۔ یہا ں تک شہید غلام محمد بلوچ جیسے قد آور لیڈر کو تربت میں انکو ساتھیوں سمیت معروف وکیل کچکول علی ایڈوکیٹ کے دفتر سے اٹھاکر غائب کرنے کے بعد انکو شہید کیا گیا۔
اب بات یہ آتی ہے کہ اس طر ح کے پروپیگنڈوں کو بلوچ پارٹیاں کس طرح کنٹرول کرتے ہیں۔ چاہے وہ پارلیمنٹ یا آزادی کی جد وجہد میں محوسفر ہیں۔ اب کیا بی این پی مینگل جو پا رلیمنٹ میں مو جود ہے، وہ پروپیگنڈوں کو روک سکتی ہے؟ میرے خیال میں نہیں۔ کیونکہ یہاں جو فو ج چاہتی ہے وہی ہوتاہے۔ پا رلیمنٹ کی ایک تقریر سے بلوچوں کا غائب ہونا رکتا نہیں اور نہ ہی گمشدہ افراد بازیاب ہو سکتے ہیں۔
دوسری طر ف کیاآزادی پسند اس طرح کے قومی مسئلے پر اتحاد و اتفاق کا مظاہر ہ کر سکتے ہیں؟وہ اپنے لوگوں کو دنیا کے سامنے جنگی اصولو ں کے تحت جنگی قید ی قرار دینے میں کامیاب ہوسکتے ہیں؟ اس وقت مجھے نظر نہیں آتا، کیونکہ اس وقت ہماری پارٹیاں سوشل میڈیا میں صرف ایک ہیش ٹیگ پر متفق نظر نہیں آتے۔ انہیں اپنے کمزوریوں پر قابو پانا چاہیئے تاکہ اجتماعی صورت میں عوام پر ہونے والے واقعات کو دنیا تک پہنچانے میں کا میاب رہیں۔ شاید میری کچھ باتیں اپنوں کو بھی سخت لگیں مگر حقیقت یہی ہے۔ ہمیں قومی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیئے۔ ہمیں غور و فکر کی ضرورت ہے نہ کہ آپسی مقابلے کی۔ بلوچستان کی صورت حال کو جنگ زدہ کہہ کرکہانی کو ختم نہ کر یں۔ یہاں جو انسانی حقوق کے پامالی ہو رہی ہے اس حو الے سے دنیا کو شعوری بنیاد پر متوجہ کریں۔ دلائل پیش کر کے اپنی جد وجہد کو متعارف کرائیں ۔