فلسفیانہ طرز فکر اور وقت کا ضیاع – برزکوہی

585

فلسفیانہ طرز فکر اور وقت کا ضیاع

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

افلاطون اپنے اُستاد سقراط کے پاس آیا اور کہنے لگا ’’آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں ہرزہ سرائی کر رہا تھا۔‘‘
سقراط نے مسکرا کر پوچھا ’’وہ کیا کہہ رہا تھا۔‘‘
افلاطون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا ’’آپ کے بارے میں کہہ رہا تھا……..‘‘
سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا اور کہا ’’ تم یہ بات سنانے سے پہلے، اسے تین کی کسوٹی پر پرکھو، اس کا تجزیہ کرو اور اس کے بعد فیصلہ کرو کیا تمہیں یہ بات مجھے بتانی چاہیئے۔‘‘
افلاطون نے عرض کیا ” استاد تین کی کسوٹی کیا ہے؟‘‘
سقراط بولا ’’کیا تمہیں یقین ہے، تم مجھے جو بات بتانے لگے ہو یہ بات سوفیصد سچ ہے؟‘‘
افلاطون نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا،
سقراط نے ہنس کر کہا ’’پھر یہ بات بتانے کا تمھیں اور مجھے کیا فائدہ ہو گا؟‘‘
افلاطون خاموشی سے سقراط کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا،
سقراط نے کہا ’’یہ پہلی کسوٹی تھی، ہم اب دوسری کسوٹی کی طرف آتے ہیں۔ ’’مجھے تم جو بات بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے؟‘‘
افلاطون نے انکار میں سر ہلا کر جواب دیا۔ “جی! نہیں یہ بُری بات ہے۔‘‘
سقراط نے مسکرا کر کہا ’’کیا تم یہ سمجھتے ہو تمھیں اپنے اُستاد کو بُری بات بتانی چاہیئے؟‘‘
افلاطون نے پھر انکار میں سر ہلا دیا،
سقراط بولا ’’گویا یہ بات دوسری کسوٹی پر بھی پورا نہیں اترتی۔ ‘‘
افلاطون خاموش رہا،
سقراط نے ذرا سا رک کر کہا ’’اور آخری کسوٹی، یہ بتاؤ وہ بات جو تم مجھے بتانے لگے ہو کیا یہ میرے لیے فائدہ مند ہے؟‘‘
افلاطون نے انکار میں سرہلایا اور عرض کیا ’’ اُستاد! یہ بات ہرگز ہرگز آپ کے لیئے فائدہ مند نہیں۔‘‘
سقراط نے ہنس کر کہا ’’اگر یہ بات میرے لیے فائدہ مند نہیں، تو پھر اس کے بتانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
افلاطون پریشان ہو کر دائیں بائیں دیکھنے لگا۔

سقراط نے گفتگو کے یہ تین اصول آج سے غالباً چوبیس سو سال قبل وضع کردیئے تھے، سقراط کے تمام شاگرد اس پر عمل کرتے تھے۔ وہ گفتگو سے قبل بات کو تین کسوٹیوں پر پرکھتے تھے، کیا یہ بات سو فیصد درست ہے، کیا یہ بات اچھی ہے اور کیا یہ بات سننے والے کے لیے مفید ہے؟ اگر وہ بات تینوں کسوٹیوں پر پوری اترتی تھی، تو وہ بے دھڑک بات کردیتے تھے اور اگر وہ کسی کسوٹی پر پوری نہ اترتی یا پھر اس میں کوئی ایک عنصر کم ہوتا، تو وہ خاموش ہوجاتے تھے۔

وقت کم، امتحان سخت اور منزل دور ہونے والے فارمولے کے تحت بحثیت جہدکار قومی آزادی کے فکر سے وابستہ بلوچ اگر ہم ذرا غور کریں، تو ہم جہدوجہد کے ساتھ ساتھ اپنی قیمتی اور تاریخ ساز وقت کو کن کن چیزوں میں ضائع کررہے ہیں؟ کن کن غیر ضروری لاحاصل غیراہمیت یافتہ محدود سطحی چیزوں میں پھنسے ہوئے، الجھن کا شکار نظر آرہے ہیں۔

آج بلوچ قوم تاریخ ساز دور سے گذر رہا ہے، قوموں کے بہت کم نسلوں کو تاریخ ساز ادوار میسر آتے ہیں، آج ہم خوش قسمتی سے بلوچ قوم کا وہ نسل ہیں، جو تاریخ ساز دور سے گذر رہا ہے، آج تاریخ کے بے رحم اور غیرجانبدار مورخ قلم اور کتاب ہر وقت ہاتھ میں لے کر ہماری تاریخ لکھ رہا ہے، لمحہ بہ لمحہ، گھڑی گھڑی اور ہم بحثیت بلوچ سوچ اور کردار کے حوالے سے کہاں پر کھڑے ہیں؟ خوش فہمی، تصوراتی اور خیالی دنیا سے ہٹ کر اگر ہم یہ سوچ لیں، کیا ہم تاریخ کی صفحوں میں سرخرو ہونگے یا گمنام ہونگے؟

جب قیمتی وقت لاحاصل توتو میں میں میں گذر رہا ہے، وقت ضیاع ہورہا ہے، تو اس خوش قسمتی کو ہم بدبختی یا نالائقی میں بدل رہے ہیں یا نہیں؟ پھر بھی ہم مطمین ہیں، اگر کسی وقت کے انتظار میں وقت کو ضائع کررہے ہیں، تو پھر یہ سوچ بذات خود وقت گذاری کے زمرے میں شمار نہیں ہوگا؟ اگر جواب ہاں میں ہے؟ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے آخر کیوں؟ اسکا جواب سیدھا سادہ اور انتہائی واضح ہے کہ وسیع سوچ، دوراندیشی، سیاسی بصریت، علم اور شعور کا مکمل فقدان ہے، جس کی جگہ سطحی اور محدود سوچ اور خیالات حاوی اور نمایاں ہیں۔

تعجب اس بات کی نہیں کہ لوگ محدود سطحی اور بے فائدہ چیزوں میں الجھ کر وقت کو ضائع کررہے ہیں، تعجب اس بات کی ہے، جب بندہ بحثیت جہدکار جب جدوجہد کے ساتھ عملاً وابستہ ہوتا ہے، اس کے بعد وقت کو وقت کی گذاری اور حالات کے رحم و کرم پر گذارنا یا مشین کا پرزہ بن کر، بطور مشین دوسروں کے بل بوتے پر اسٹارٹ اور بند ہونا، اس سے بڑھ کر اور کیا تعجب اور افسوس کا مقام ہوگا۔

کم علمی، بے شعوری اور محدود اور سطحی سوچ کے ساتھ ساتھ ایک بنیادی وجہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے نقطہ نظر میں بہت کم اور محدود سرگرمیوں کو بہت بڑا کارنامہ خزانہ اور کارخانہ سمجھ کر خوش اور مطمین ہونا۔

جب انسان جدوجہد ذمہ داری اور سرگرمیوں کی حد تک اپنے حدوحدود کے تعین خود مقرر کرتا ہے، اس سے بڑھ کر نہیں سوچتا اور عمل نہیں کرتا تو اس کے ذہن میں وہ حدودحدو بھی بہت وسیع و عریض ہوتے ہیں۔ شاید اس کی سوچ کی سطح سے برابر یا اس سے بھی کم سطح کے سوچ کے لوگوں کی نقطہ نظر میں وہ بہت بڑے کردار کا مالک ہو لیکن حقیقت میں یا تاریخ اور مورخ کی نظر میں کچھ بھی نہیں ہوگا۔

دنیا کی تحریکات اور تاریخ کے مطالعے کے بعد اگر میں حقیقت پسندی ایمانداری غیرجانبداری غیر روایتی اور غیرجذباتی انداز فکر سے اظہار رائے قائم کروں، تو بلاجھجک یہ کہہ سکتا ہوں کہ دیگر جہدکاروں کی جہد قائدین کی دوراندیشی سیاسی بصریت ان کی اخلاقی اقدار و پہچان بے غرضانہ سوچ صبر وبرداشت مستقل مزاجی محنت اور قربانیوں وغیرہ کو دیکھ کر اور مطالعہ کرکے شاید دیگر لوگوں کے لیئے باعث حوصلہ اور باعث فخر لمحہ ہو، لیکن کم از کم میرے لیئے کبھی کبھار باعث احساس کمتری، باعث غصہ اور باعث حیرت ثابت ہوتے ہیں۔

باقی دنیا کے تحاریک، کرداروں، تاریخات، تجربات اور کتابوں کو کچھ وقت بند کرکے فی الحال ایک طرف رکھ دیں، بحثیت بلوچ اور بلوچ تحریک تاریخ اور ہمارے اپنے تجربات کچھ سمجھنے اور حاصل کرنے کے لیئے بھی کچھ کم نہیں ہیں، باقیوں کو چھوڑ کر آج کے حالات اپنے ذمینی حقائق کے تناظر میں غور کیا جائے اصل حقیقت بھی آج کے حالات اور اپنے ہی ذمینی حقائق پر صحیح تجزیہ کرنا اور نظر رکھنا پھر آج ہم خود کہاں پر کھڑے ہیں؟ تحریکی لوازمات اور تقاضات کیا ہیں؟ کن کن چیزوں ترجیحات اور ضروریات پر توجہ دینا اور دلچسپی لینے کی ضرورت ہے؟

مجحوعی حوالے سے دن و رات توجہ اور دلچسپی کہاں پر ہے؟ اہمیت کن چیزوں اور کن باتوں کی ہے؟ اور اصل و بنیادی ضرورت اس وقت کیا ہے؟ کیا مجموعی اور تحریکی حوالے سے فائدہ مند اور کیا بے فائدہ ہے؟

اس وقت ان سوالات پر سنجیدگی سے غور و خوض کرنا ہر جہدکار پر اس حدتک فرض اور قرض ہے، جس طرح غلامی کے خلاف اور قومی آزادی کے حصول کی خاطر جہدوجہد کرنا، قومی فرض اور قومی قرض ہے۔ وگرنہ جہدوجہد سے وابستگی خود جذباتی اور لاشعوری بنیاد پر ہے، جو خود انسان کی لاعلمی لاشعوری کی علامت ہوتا ہے۔

ہمیشہ سوچ و فکر کرنا اور جدوجہد کے حوالے سے ہر وقت متحرک اور بے چین ہونا، حقیقی انقلابی جہدکار کی بنیادی صفت ہوتا ہے، اس صفت کو آئندہ شعوری بنیادوں پر اپنانا ہوگا، ورنہ ضائع جہدوکاروں کی فہرست میں شمار ہونگے، تاریخ کے بے رحم صفحوں میں اس سے ہر جہدکار کو حتی الوسع کوشش کے ساتھ بچنا چاہیئے۔