فریم ورک کا فسانہ
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
“تقلید علم کی موت ہے، کیونکہ علم کی ترقی کلیتاً اختلافات کے وجود پر منحصر ہے، بجائے اختلافات تنازعہ اور بلآخر تشدد کا سبب بن سکتے ہیں اور یہ امر میرے خیال میں نہایت تکلیف دہ ہے، کیونکہ میں تشدد سے متنفر ہوں، تاہم اختلافات بحث و استدلال، دوطرفہ تنقید پر منتج ہوسکتے ہیں۔” یہ الفاظ فلسفی کارل پوپر کے ہیں۔ جی ہاں! ویانا کے فلسفی کارل پوپر کا شمار بیسویں صدی کے عظیم ترین فلسفیوں میں ہوتا تھا، برٹرینڈرسل کے بعد اس بامِ عروج پر پہنچنے والے وہ شاید دوسرے فلسفی ہیں۔
میرے لیئے پوپر کی فلسفیانہ طرز فکر اور خیالات اپنی جگہ قابل قدر لیکن پوپر کا سب سے ذیادہ متاثر کن چیز، اس کا اسلوب تحریر ہے، وہ بہت سادہ، سلیس اور واضح ہے بقول پوپر کہ “ہر منصف اور لکھاری کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بات کو ممکنہ حد تک سادہ اور واضح انداذ میں بیان کرے، مجھے گنجلک اور عسیر الفہم طرز بیان سے بڑی نفرت ہے، قاری کو بھاری بھرکم الفاظ سے مرعوب کرنے کی کوشش انتہاء درجے کی اخلاقی غیر ذمہ داری ہے۔ جس طرح فلسفی فریڈرک اینگلس اپنی تحریر لڈونگ فیورغ اور کلاسیکی جرمن فلسفے کے آغاز میں میڈیکل مادیت پسندوں کو بازاری پھیرے والے اور گول مول جواب دینے والے، مبلغین کے نام سے یاد کرتا ہے۔”
اسی تناظر میں سندھی دانشور خاکی جویو کہتا ہے “جو لوگ صرف اپنی بات اور موقف پیش کرتے ہیں اور دوسروں کا موقف سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے، جو خود کو ہمیشہ صیح اور دوسروں کو غلط سمجھتے ہیں وہ دراصل حاکمیت پسند سوچ اور تعلیمی تصور کے قائل ہوتے ہیں۔ یہ بات ان کی فطرت کا حصہ بن چکی ہے اور یہ فطرت دراصل حاکمیت پسند سماجی شعور کی پیدا کردہ ہے، انقلابیوں میں بھی کئی لوگ اسی حاکمیت پسند سماجی شعور کا شکار ہوتے ہیں۔ اس لیئے وہ دوسروں کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے کیونکہ اس طرح ان کے کمزور موقف کا خول اترنے لگتا ہے، اس لیئے وہ ہمیشہ بات کو گول مول کرکے ٹال مٹول سے کام لینے لگتے ہیں یا کوئی بہانہ بنا کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ بحث اور دلیل سے کہیں ان کے ذہن میں بیٹھا ہوا حقیقت یا سچ (جسے وہ غلط فہمی کی بنا پر بزعم خود سچ سمجھے ہوئے ہیں )جھوٹ و فریب نہ ثابت ہوجائے۔”
“دیکھا یہ گیا ہے کہ کتنے ہی ایسے عام لوگ انقلابی رہنما اور کارکن، جن کے پاس حقیقی طاقتور فکر کی کمی ہوتی ہے، وہ اپنے موقف سے فررایت میں محفوظ سمجھتے ہیں، ایسے لوگ ایسی مجلس میں بیٹھتے ہی نہیں، اگر بیٹھتے ہیں تو منافقانہ طور پر ناپسندیدہ بات اور خیال کی تصدیق کرتے رہتے ہیں چونکہ ان کے پاس کسی موقف کو رد کردینے کے لیے طاقتور دلائل نہیں ہوتے ہیں، اس لیئے اپنے ذہن پر کٹر پن اور سخت گیر کا خول چڑھالیتے ہیں اور ان کے موقف سے جو بات یا دلیل زور دار ٹکر کھاتی ہے، اسے سننے سے ہی کتراتے ہیں۔ اگر مجبوراً سننا پڑ جائے تو اپنی انا اور ضد سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں وہ اسے اپنا تذلیل سمجھتے ہیں کہ وہ اکیلے ہی عاقل، بالغ اور عقل کل ہیں اور دوسرے تمام لوگ جاہل اور حقائق سے بے بہرہ ہیں۔ اس لیئے وہ ہمیشہ اپنی ذاتی جانکاری پر اکتفا کرتے ہیں۔” یہ تھا گول مول اور ٹال مٹول لوگوں کے بارے میں سندھی دانشور خاکی جویو کی موقف
ہمیشہ جب منطق و دلیل اور حقیقت پسندی جیسے اشیاء کے نام و نشان اور وجود نہ ہو، تو انسان لامحالا کسی بھی زیربحث موضوع اور موقف کو توڑمروڑ، لمبا چوڑا، گول مول کرکے گم کرنے کوشش کرتا ہے یا پھر بحث ہی کو جذبات کی بانہوں میں لیکر دھندلا اور گند آلود کرتا ہے، دراصل یہ علم نفسیات کی روشنی میں راہ فراریت، فریب، دھوکا، جہالت اور ڈرپوک لوگوں کا نفسیات ہوتا ہے۔
بحثیت ایک ادنیٰ ساہ لکھاری میں نے ہمیشہ سے یہ کوشش کی ہے کہ مثبت انداز، جذبات اور تعصابات سے ہٹ کر لفظوں کی ہیرا پھیری، گول مول کرنے بجائے، اپنے قارئین کے لیئے سلیس اور واضح انداذ میں اپنے بات کو رکھنے کی ہر ممکن کوشش جاری رکھوں تاکہ قاری کو مشکلات کا سامنا نہ ہو۔
ہم لوٹتے ہیں پھر اپنے اصل موضوع کی تعریف تاکہ پوپر کے نظریہ فریم ورک فسانہ سے استفادہ حاصل کریں۔ خیالات، نظریات، روایات اور عقائد، انہی قیدخانوں کا دوسرا نام فریم ورک ہے۔ بقول کارل پوپر “جو لوگ قیدخانوں کو نا پسند کرتے ہیں، وہ فریم ورک فسانے کے مخالفت کریں گے اور ایک ایسے فریق سے خوش دلی سے بحث اور گفتگو کریں گے جو ایک دوسرے فریم ورک سے تعلق رکھتا ہو کیونکہ اس طرح انہیں اب تک نا محسوس زنجیروں سے آگاہ ہونے، انہیں توڑنے کا موقع ملے گا اور یوں وہ خود اپنے ذات کی حدوں سے باہر نکل سکیں گے، قید خانے کی دیواریں توڑ کر باہر نکل آنا، درحقیقت کوئی معمولی بات نہیں یہ صرف اور صرف ایک تنقیدی سعی بلکہ ایک تخلیقی سعی کا نتیجہ ہوتا ہے۔”
کارل پوپر مزید کہتا ہے کہ “خود رہائی کا آدرش لمحہ موجود میں خیالات اور عقائد کی قید سے آزادی کا آدرش کسی بڑے فکری فریم ورک کی قید میں بدل سکتا ہے، باالفاظ دیگر ہم کبھی بھی مکمل آذادی حاصل نہیں کرسکتے ہیں لیکن ہم اپنے قید خانے کو کشادہ کرسکتے ہیں اور کم از کم ہم اس شخص کی تنگ نظری سے ضرور بلند ہوسکتے ہیں، جو اپنی زنجیروں کا ہمیشہ خوگر ہوجاتا ہے۔ اگر ہم چاہیں تو یہی آگہی ہمیں قید سے رہائی دلا سکتی ہے۔”
یہ تھے پوپر کے الفاظ تو تنقید یا بحث کیوں؟ کس لیئے؟ کس چیز پر ہے؟ مارکسی خیالات کی تنقید طبقاتی تعصب کا ماہر نفسیات فرائڈ کے خیالات کی تنقید امتناع کا نتیجہ قرار پاتی تھی اور ہڈلر کے خیالات کی تنقید اپنی برتری کو ثابت کرنے کی خواہش یعنی احساس کمتری کی تلافی کی کوشش کا نتیجہ کہا جاتا تھا، تو بلوچ قومی جہدوجہد آزادی میں بحث و تمحیص اور تنقید کا معیار کن چیزوں پر ہے؟ کیا ہم تنقید اور بحث کے بنیادی اصولوں، طرز و معیار سے اچھی طرح با علم ہیں؟ یاصرف رٹا بازی سنی سنائی بحث و تنقید کرتے کرتے نہیں تھکتے ہیں؟ تضادات اختلاف کا وجود اور بنیاد کہاں ہے اور کیا ہے؟ فریک ورک فسانہ یعنی فکری نظریاتی حکمت عملی پالیسی و خیالات اور عقائد کیا ہیں؟ دوسری طرف یا دوسرے فریق نے فریم ورک فکری نظریاتی حکمت عملی، پالیسی، خیالات اور عقائد کیا ہیں؟ میرے خیال میں کچھ نہیں صرف اور صرف ضد، انا، ہٹ دھرمی، انتقام، مخصوص گروہی مفادات، خوشامدی، حسد، بغض، ذاتی عناد، منفی رویوں، خودغرضی، کم علمی، محدود اور سطحی سوچ کے علاوہ قطع نظر اگر ہے بھی مختلف فریم ورک فسانہ کی تو تنقید اور بحث کے طریقہ کار اور پیمانہ کیا ہے؟
الزام تراشی منفی و من گھڑت پروپگنڈہ، جھوٹ، فریب، غیر اخلاقی حرکتیں کیا علمی دنیاوی اور فلسفیانہ طرز فکر میں تنقید اور بحث کے زمرے میں آسکتے ہیں؟ یا پھر سیدھی سادی بات قومی تحریک کو کاونٹر کرنے، قومی تحریک سے قوم کو بدظن اور مایوس کرنے اور دور کرنے کے ساتھ ساتھ دشمن کو معلومات فراہم کرکے تحریک کو ختم کرنے اور کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی اصل قومی ذمہ داریوں سے غافل کرنے کے درپردہ ایجنڈے کی پایہ تکیمل ہے؟
حقیقی علمی اور منطقی بحث اور تنقید برائے تعمیر کے حوالے سے کارل پوپر اپنے مقبول ترین فریم ورک فسانے کی نہایت مخصوص صورت واضح کرتے ہوئے کہتا ہے “بحث کا آغاز سے قبل مصطلحات پر اتفاق ضروری ہے، شاید ہم اپنی اصطلحات کے تعریف کے ذریعے یہ اتفاق پیدا کرسکتے ہیں۔”
پوپر مزید کہتا ہے کہ “زیر بحث نظریئے خیالات اور عقائد کی آزمائش کرکے یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ آیا اس کے تمام منطقی مضمرات قابل قبول ہیں یا یہ کچھ ناپسندیدہ نتائج کا حامل تو نہیں، اس طرح ہم تنقید کے غلط منہاج اور تنقید کے درست منہاج میں منطقی امتیاز قائم کرسکتے ہیں۔”
گوکہ ہم بلوچ نینشنلزم قومی نجات اور قومی فکر آزادی کے فریم ورک فسانہ یعنی قید میں پابند ضرور ہیں لیکن دوسری جانب کس فریم ورک فسانے کے خیالات عقائد اور روایات کے قید میں ہیں؟ وہ شعوری ہیں یا لاشعوری ہیں؟ کبھی کبھار بہت سے ایسے روایت، خیالات، عادات اور عقائد نامحسوس طور پر ایسی پابندیاں بن جاتی ہیں کہ کسی کو معلوم ہی نہیں، وہ کیوں اس پر ڈٹے ہوتے ہیں مثلاً گھڑی کا بائیں ہاتھ پر باندھنا حالانکہ دائیں ہاتھ پر بھی گھڑی چلتی ہے اور ٹائم بتا سکتا ہے پھر کیوں دائیں ہاتھ پر ضروری ہے؟ اور اس کا بنیادی فائدہ کیا ہے؟ تو ہم اکثر اسی قسم کے مختلف فریم ورک یا نا محسوس خیالات عقائد اور زنجیروں کی قید میں مقید ہیں، جنکو توڑنا بھی گوارہ نہیں کرتے، بقول کارل پوپر ان کا توڑ اور ان سے آزادی و رہائی پانے کا واحد ذریعہ “تنقید تخلیق اور علم ہوتا ہے، اگر اندھا دھند تقلید ہو تو پھر بقول پوپر علم کی موت ہوتا ہے۔”
اب تنقید اور بحث کہاں، کیسے، کس طرح، مدمقابل، آمنے سامنے، بحث اور تنقید سے راہ فراریت بھاگنا اور منہ موڑنا دور دور، چپکے چپکے، چوری چوری سوشل میڈیا میں پٹاخے پھوڑنا اور اس کو تنقید، بحث اور سوال آٹھانے کا نام دینا، دنیا کے کس علم شعور، فلسفے، سیاست، ادب، روایات، تہذیب اور اخلاقیات کے زمرے میں شمار ہوتا ہے؟
میں نے پہلے کہا ہے، آج بھی کہوں گا اور آئندہ بھی کہوں گا اور میری یہ آراء حتمی ہے کہ 5 سال پہلے سے لیکر آج تک سوشل میڈیا میں مقدس بحث اور تنقید کے نام سے جو کردار کشی، الزام تراشی، مخبری، صفت و ثناء کا سلسلہ چل رہا ہے، جو آج تک جاری و ساری ہے، وہ براہِ راست قومی تحریک میں دراڑ ڈالنے، تحریک کو تقسیم در تقسیم کرنے، غلط فہمی پیدا کرنے اور انتشار پیدا کرکے تحریک کو کمزور اور ختم کرنے کا ایک مخصوص ایجنڈہ ہے، اگر نہیں تو براہِ مہربانی کوئی مجھے ایک فیصد سوشل میڈیا بحث سے قومی تحریک کو کوئی فائدہ تو بتائے؟ اگر فائدہ صفر برابر صفر، نقصان بے انتہاء اور لامحدود ہے، اس کے باوجود منصوبے کے تحت، اسی نقصاندہ تسلسل کو آگے بڑھانا، کیا خود مخصوص ایجنڈے کے طرف واضح اشارہ نہیں ؟
کوئی آج اتفاق کرے یا نا کرے لیکن اگر وہ لاشعوری اور ناسمجھی کی بنیاد پر اس ایجنڈے کا حصہ ہے، تو وہ کل ضرور سب کچھ مان جائیگا اور جن کے ذاتی مفادات وابستہ ہیں، ان کا کام چل رہا اور چلتا رہے گا۔
کم سے کم ہر جہدکار کو انتہائی سنجیدگی سے اپنے فریم ورک فسانے کا بار بار جائزہ لینا اور سوچنا ہوگا، اپنی زنجیروں پر غور کرنا ہوگا، میں کیوں ان زنجیروں میں قید ہوں؟ یہاں سے پھر انسان میں خودکلامی، جستجو، خود تنقیدی کا سوچ اور احساس پیدا ہوگا، پھر وہ علمی بحث، تنقید برائے تعمیر سے اپنی زنجیروں کو توڑ کر قومی تحریک میں ایک فعال موثر اور حقیقی کردار نبھائے گا، جو اس وقت اہم بلوچ قومی تحریک کی ضرورت ہے۔