فرق
تحریر: سلال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یوں زمانے میں میرا جسم بکھر جائے گا
میرے انجام سے ہر پھول نکھر جائے گا
ریحان ایک خوبرو، بے پناہ صلاحیتوں کا مالک، ایک مکمل انسان کا نام تھا، جس کے دل میں مادر وطن کے درد کو میرا قلم بیان کرنے کی نہ ہمت رکھتا ہے نہ کہ میرے روح میں وہ طاقت ہے کہ میں ریحان کی تعریف بیان کرنے کا اپنے قلم کو قابل سمجھوں۔ ریحان نے بلوچ انقلاب میں ایک ایسے عمل کا انتخاب کیا کہ تاریخ کے اوراق ہی بدل گئے، مورخین کے قلم کو کچھ نیا اور منفرد لکھنے پر مجبور کردیا۔
ریحان پُھل معاف کرنا شاید میرا قلم آپ کے عظیم کردار کو سراہنے میں خیانت کرے یا میرے کم علم ہونے پر آپ کے کردار کی عظمت و بلندی کے حق کو بیان نہ کر سکوں، یا میں بے ہمت ہو کر آپ کے بہادری و دلیری کو الفاظ کے خوشبو میں سمیٹ نہ سکوں، لیکن میرا قلم لکھنے کی کوشش ضرور کریگا، اس فرق کو بیان کرنے کی ہمت پیدا کریگا، جس فرق (عام بلوچ اور انقلابی سرمچار) کو آپ نے اپنی خون سے ہم بلوچ قوم پر واضح کرکے ایک قرض چھوڑ دیا۔
قربانی ایسی کے ہر بلوچ فرزند ہر انقلابی سرمچار بلکہ ہر انقلابی تحریک جس پر رشک کرے۔ قربانی ایسی کے آپ کے والد (اسلم بلوچ) آپ کے خاندان کا ہر فرد فخر سے سینہ بلند کرکے دشمن کے لیئے مزید تیرے جیسے ریحان پیدا کرکے دشمن کو شکست دینے کا عزم رکھتے ہوں۔ قربانی ایسی کہ دشمن کے جڑوں کو اپنے پاک وطن سے نکلنے پر مجبور کرتا ہو۔ قربانی ایسی کہ دشمن بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر شکست کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو۔
کردار ہی انسان کو عظمت کی چوٹیوں پر پہنچا دیتا ہے، کردار کو عظیم بنانے کا فیصلہ انسان کے خود کے اختیار میں ہوتا ہے کہ میں کون سا راستہ اختیار کرکے خود کو عظیم ثابت کر سکتا ہوں اور امر ہوکر اپنے ہم خیالوں کے درمیان میں رہتی دنیا تک جی سکتا ہوں۔
ریحان نے بھی کچھ اس طرح یہ انقلابی راستہ چُن کر خود کو ہمارے درمیان ہمیشہ کے لیئے چھوڑ گیا، حالات و واقعات یا ظلم و ستم انسان کو یہ راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرتے، بلکہ جس روح میں، جس ضمیر میں کسی سامراج کے سامنے جھکنے سے انکار کا جزبہ ہوتا ہے، وہی اپنی سانسوں کو داؤ پہ لگا کر قومی پہچان کو دنیا کے سامنے زندہ رکھنے کے لیئے شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوجاتے ہیں۔ قومی شناخت کو زندہ کرنے کے لیئے، اپنے جان کی بازی لگا کر خود کو قربان کرنا کسی باشعور و غیرت مند کے شریر میں پایا جاتا ہے۔
ریحان کون تھا؟ ریحان عظیم کردار کا مالک کیسے بنا؟
ریحان ایک دردمند، غیرت مند بلوچ فرزند تھا، جو ہمارے درمیان ایک قومی جذبہ اور فکر لے کر پلا بڑھا تھا، ہمارا ہم عمر تھا لیکن فرض ایسا نبھا کر الوداع کرگیا کہ رہتی دنیا تک نہ ہم یہ قرض اتار سکیں گے اور نہ ہی اس کی کمی کو پورا کرسکیں گے، اپنی کم عمری کا احساس کیئے بغیر مظلوم قوم کے درد میں کمی کرنے اُن کی زخموں پہ مرہم لگانے کو ترجیح دے کر ہمارے کردار و قومی فریضہ پورا کرنے پر ایک سوالیہ نشان لگا کر امر ہوگیا۔
ریحان نے یہ خیال و خواہش دل میں ضرور رکھا ہوگا کہ شاید میرے اس قربانی سے غلام قوم بیدار ہوجائے، میرا خون زمین پر گرنے سے بلوچ نوجوانوں میں ایک آزادی کا جزبہ پیدا ہوجائے اور میرے کاروان کا حصہ بن کر قوم کو آسودگی کو یقینی بنائیں۔
لیکن ہم؟ ہم تو نام نہاد دشمن کے عزائم کو تقویت دے کر کسی سیاسی پارٹی کے جیت کے لیئے جھنڈے لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، کسی سیاسی ممبر کی جیت پر ڈھول کے تھاپ پر ناچ کر سینہ فخر سے بلند کرنے کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔ کسی قاتل کو منتخب کرنے میں مصروفِ عمل رہ کر اپنے قومی فریضے سے منہ موڑ رہے ہیں۔ کسی پکنک میں کلاشنکوف اٹھا کر شوبازی کے لیئے تصویر کھینچ رہے ہیں، اپنے نرم بستر پہ لیٹ کر فیس بک استعمال کرکے اپنی جھوٹی تعریفیں سننے اور دیکھنے میں وقت ضائع کرنے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔ جشنِ آزادی منانے میں محب وطن پاکستانیوں کو پیچھے چھوڑ رکھا ہے، اپنے سینے پر ناپاک دشمن کا جھنڈا لگا کر اپنی قوم کو شکست دینے پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ پکنک، پارٹی منانے سیر و تفریح کرنے، ہُنڈا موٹرسائیکل پہ جھنڈا لگا کر دشمن کے کاموں کو آسان کرکے فکر مند بلوچ پرست کا مخبری کرکے خود کو جہالت، لاشعوری، منافقت کی گہری کھائیوں میں پھینکتے جارہے ہیں۔
ریحان کے کردار کا اپنے کردار سے موازنہ کرکے دیکھ لیں، کیا ہم واقعی جینے کا حق ادا کر رہے ہیں؟ واقعی ہم مظلوم، بے سہارا، لاچار و غریب قوم کے لیئے دل میں درد رکھتے ہیں؟ ہماری جہاں ضرورت ہے، اس ضرورت کو پورا کرنے کے فکر مند ہیں؟ یا تو پھر ہم زندہ لاش بن کر محض سانسیں لینے کی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں؟
ہمیں ریحان کے کلاشنکوف کو تھامنا ہوگا، دشمن کے برے عزائم کو شکست سے دوچار کرنے کی ذمہ داری اب بلوچ نوجوانوں پر فرض بن گئی ہے، ریحان کے کردار کو اپنے کردار میں جگہ دینا ہوگا، مزاحمت کرکے خود کو اسی قوم کے لئے قربان کرنے کا عہد کرنا ہوگا۔
ہر نوجوان کے لیئے اس جہد کا حصہ بننے کا جواز ریحان نے اپنے خون سے عظیم قربانی سے دیا کہ راستہ یہی ہے (آ سکو تو ساتھ دو)…
ہمارے پاس کوئی بے بنیاد دلیل رہا ہی نہیں کہ ہم ریحان کے مشن کو پورا کرنے کا حصہ نہ بنیں، اگر پھر بھی ہم نے اپنی زندگی کو عزیز چاہا، اپنی خواہشوں کے گرفت سے نکل نہ سکے، اگر پھر بھی ہم نے والدین کے رکاوٹ کو سامنے رکھا، تو اپنے گریبان میں ضرور جھانک کے دیکھنا ہوگا کہ ہم کتنے بے حس و ذاتی زندگی میں پھنسے ہوئے ہیں، جوکہ مکمل طور پر بے معنی و بے مقصد زندگی کی سانسیں رسمً ادا کرکے جی رہے ہیں۔
ریحان کی زندگی کے آخری لمحات کے ویڈیو کو مدنظر رکھ کر اپنی بے معنی زندگی پر نظر دوڑانا کہ کس طرح ہم اس قوم کی مظلومیت اور ظالم کی جابرانہ عمل سے نظر چُرا رہے ہیں، وہ دن دور نہیں کہ ریحان کے گھر کی طرح میرا اور آپ کا گھر کسی محاصرے کا شکار ہوجائے اور ہم اپنی آنکھوں سے اپنی ماں بہنوں کی عزتوں کو تار تار ہوتے ہوئے دیکھ لیں _ انتظار سے بہتر عمل ہے__ عمل میں کردار خوبصورت بن جاتا ہے، جس کا ثبوت ریحان نے دے کر ہمارے قوم کا سر فخر سے بلند کرکے ہمیں دنیا میں نئی پہچان عطا کی۔
میں سرخ سلام پیش کرتا ہوں، اُس عظیم ماں کو جس نے مادر وطن کے حفاظت کے لیئے اپنے لخت جگر کو پیش کیا، قربان جاؤں اُس ہستی (والد) پر جس نے اپنے بیٹے کو دشمن کی شکست ذریعہ بنا کر سر پہ بوسہ دے کر الوداع کہہ دیا۔