فرزندانِ وطن، شہدائے سوراپ مند
تحریر: عبدالواجد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے
اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی
شہیدوں کی قبریں ان کی زندہ جاوید روح کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں بقول اقبال ’’صلہ شہید کیا ہے تب وتاب جاودانہ” بلوچ سرزمین وہ زر خیز دھرتی ہے جس کی گود میں لاتعداد شہدائے وطن سورہے ہیں، لیکن اس زمین کی زرخیزیت کا اک انوکھا رنگ یہ بھی ہے، ہر لمحہ دھرتی ماں کے فرزند اپنے عظیم دھرتی کو زنجیروں سے آزاد کرنے کے لیئے ہمہ تن تیار ہیں، مرگ کو ہتھیلی پہ رکھ کر دیوانہ وار محوِ منزل رو بہ سفر ہیں.
جی ہاں! اسی تسلسل کو جاری رکھنے والے دو عظیم فرزندانِ وطن، شہید ڈاکٹر خالد بلوچ اور شہید دلوش عرف دلجان بلوچ نے مند سوراپ کے بنجر زمین کو اپنے آخری قطرہِ خوں سے سرسبز کرلیا. شہید ڈاکٹر خالد بلوچ
1967 کو کویت میں پیدا ہوئے، بعد میں ان کے والد واجہ عالی بلوچ نے ہجرت کرکے تمپ میں اپنا بسیرا کرلیا. انہوں نے بنیادی تعلیم تمپ بوائز ہائی سکول میں حاصل کی اور انٹر میڈیٹ کا امتحان کراچی میں دیا،.بعد میں جب انقلابِ اپنے عروج پر تھا تو وہ روس چلے گئے اور بلوچ جدوجہد کے ساتھ منسلک رہے، روس ہی میں انہوں نے ایم بی بی ایس کیا، بعد میں بلوچستان آئے شہید ڈاکٹر خالد، شیر محمد مری سے متاثر تھے اور شروع دن سے ہی مزاحمتی فکر کے مالک تھے اور تاحیات مزاحمتی فکر کو بلوچ نوجوانوں میں پھیلانے میں سرگرم رہے۔
انہوں نے خود 2002 سے مزاحمتی عمل شروع کیا اور انہوں نے بلوچ قومی تحریک کو وسعت دینے کے لیئے جنونیت کی حد تک جدوجہد کی اور تحریک کو پھیلانے کے لیئے دن رات ایک کیئے. جب مکران میں بی ایل ایف کی بنیاد ڈالی گئی تو اس بنیاد کو مضبوط بنانے کے لئے شہید ڈاکٹر خالد بلوچ نے انتھک محنت کی۔
اسی تحریک کے ایک اور فرزند شہید دلوش عرف دلجان جو کہ انتہائی خاموش طبیعت کے مالک تھے لیکن وہ اپنے آپ میں ایک مکمل گوریلا سپاہی تھے، گو کہ انہوں نے کوئی خاطر خواہ سیاسی تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن جب وہ بلوچ مزاحمتی تحریک کے حصہ بنیں، تو وہ ایک ماہر گوریلا کی حیثیت سے پہچانے گئے۔ آپ انتہائی شاطر تیر انداز تھے.
شہید دلوش عرف دلجان بلوچ فرزندِ ملا رحمت اللہ 13 فروری 1978 کو مند کے علاقے ڈلسر میں پیدا ہوئیں، ان کی تعلیم میٹرک تک تھی، دورانِ تعلیم وہ ایک بہترین مصور بھی تھیں.شہید دلجان بلوچ نے ڈاکٹر خالد بلوچ کے ساتھ دورانِ جدوجہد کئی معرکے سرانجام دیئے اور اس دوران انہوں نے سینکڑوں مرتبہ دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا. دوہزار کے دہائی میں بی ایل ایف کے وجود کے ابتدائی ایام میں جب سیاجی اور تلار میں ریاستی فورسز کی طرف سے خونی آپریشن کی ابتداء ہوئی، اس دوران جب بلوچ مزاحمت کار دشمن کے حصار میں تھے تو شہید دلجان بلوچ نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر دشمن کے ساتھ ایسی آنکھ مچولی کھیلی جس کا اس جدوجہد کے دوران کوئی نظیر نہیں ملتی۔
08 اگست 2007 کا سیاہ دن، تقریباً دوپہر کے وقت مند کے علاقے سوراپ کے جنگل میں ریاستی فورسز نے انکے ٹھکانے کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لے کر ان سے سرنڈر کرنے کو کہا، مگر انہوں نے سرینڈر کرنے سے انکار کرتے ہوتے ہوئے بہادری و دیدہ دلیری سے فورسز کا مقابلہ کیا، مقابلہ چار بجے تک جاری رہا آخر کار ڈاکٹر خالد بلوچ اور ان کے ساتھی دلوش عرف دلجان بلوچ نے جام شہادت نوش کرلیا، دوسرے دن صبح ان کی لاش تمپ پولیس تھانے پہنچائی گئی۔
صبح نو بجے ان کی جسد خاکی گھر والوں کے حوالے کی گئی، جوکہ تمپ کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا اور شہید دلجان بلوچ کی جسد خاکی کو ان کے آبائی قبرستان مند سورو میں ان کے والد کے بغل میں گلزمین کے سپرد کیا گیا۔
شہداء کی قربانیاں ایک نسل سے دوسرے نسل تک کے لیئے مشعل راہ ہیں، ان کے رہنمائیانہ کردار نے بلوچ قوم کو خواب غفلت سے نکال کر جدوجہد آزادی کی راہ پر ڈال دیا، شہداء نے جدوجہد آزادی کا بھرم قائم رکھتے ہوئے، جن مشکلات اور تکالیف سے نبرد آزما رہ کر قومی شناخت وطن اور آزادی کی جدوجہد میں شہادت کا رتبہ پاکر ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے، ریاست ہزاروں بلوچ فرزندوں کو شہید کرنے کے بعد بھی نیشنلزم اور آزادی کے جذبہ کو ختم کرنے میں ناکام ہوگئی، قربانیاں قوموں کی جدوجہد کو طاقت اور جلا بخشتی ہیں، یہی سوچ کر شہداء نے اپنے لہو سے آزادی کا امنگ اور جذبے کو زندہ رکھا اور یہ عظیم فکر ہر بلوچ سے شعوری بنیاد پر جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے۔