فدائینِ بلوچستان – عبدالواجد بلوچ

499

فدائینِ بلوچستان

تحریر:عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گو آبلے ہیں پاؤں میں پھر بھی اے رہروو
منزل کی جستجو ہے تو جاری رہے سفر

دنیا میں پہلا خود کش حملہ13 مارچ 1881 کو روسی سلطنت میں ونٹر پیلس کے باہر ہوا، جب اگنیٹی گرینوسکی نامی شخص نے الیگزینڈر دوئم کے قافلے پر بم پھینکا لیکن اسکی گاڑی بلٹ پروف تھی، جو اسے نیپولیئن نے تحفے میں دی تھی، جسکی وجہ سے وہ محفوظ رہا، جب الیگزینڈر باہر آیا گرینوسکی نے دیکھا تو وہ تیزی سے اسکی طرف بھاگا اور اسکے قدموں میں بم پھینکا، جس سے وہ دونوں موقع پر ہلاک ہو گئے، گرینوسکی بائیں بازوں کے تنظیم کا نوجوان رکن تھا، ایک رات پہلے اس نے لکھا تھا کہ
“میں ہماری فتح کے شاندار دور میں ایک دن یا ایک گھنٹہ بھی زندہ نہیں رہوں گا لیکن مجھے یقین ہے کہ میں اپنے موت کیساتھ اپنی ذمہ داری پوری کر دو نگا جو مجھے کرنی چاہیئے”

اس عمل سے گرینوسکی تاریخ میں دنیا کا پہلا ریکارڈ شدہ خود کش حملہ آور تصور کیا جاتا ہے، اسکے بعد پچھلے 130 سال سے دنیا کے مختلف ممالک میں خود کش حملے جاری ہیں، جن میں افغانستان و پاکستان کے بیشتر حصے اور عراق زیادہ تر ان حملو ں کا نشانہ رہے ہیں۔ گذشتہ 30 سال میں یہ خود کش حملے 40 مختلف ممالک پر کئے گئے، دوسری جنگ عظیم میں اکتوبر 1944 کو جاپان نے پہلی بار ٹوکوٹائی تعینات کی جس میں فوجیوں نے دشمن کے بحری جہازوں پر خود کش حملے کیئے، اس میں نہ صرف فوجی بلکہ رضاکارانہ طور پر یونیورسٹیوں کے طالبعلموں نے بھی شرکت کی اور یہ لوگ جہاز اور کشتیاں بارود سے بھر کر لے جاتے اور اپنے مطلوبہ حدف پر حملہ کرتے، دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک جاپان نے 3860 خودکش حملے کئے اور دشمن کے تقریبا 50 بحری جہاز تباہ کئے جو کہ شاید بہت بڑا نقصان نہیں تھا لیکن اسکا دشمن پر نفسیاتی اثر بہت زیادہ تھا۔ امریکن کمانڈر ایڈمائرل ہالسے کا کہنا تھا کہ “یہ واحد ہتھیار تھا، جس سے میں جنگ میں خوفزدہ تھا۔”

دوسری جنگ عظیم کے بعد 1980 تک خود کش حملوں کے واقعات پیش نہیں آئے حالانکہ انہیں افغانستان، ویتنام انگولا اور ناردرن آئرلینڈ میں بڑی افواج کا سامنا رہا ہے لیکن پھر بھی خود کش حملے نہیں کئے گئے اسی دوران برطانیہ اور امریکہ نے بھی مڈل ایسٹ میں اسلامی جہادی تنظیموں کو مضبوط اور طاقتور کرنا شروع کیا تاکہ سویت یونین کے خلاف استعمال کیا جا سکے اور 1970 کی دہائی میں سعودی عرب نے بھی وہابی فرقے کو پروان چڑھانے کےلئے کروڑوں ڈالر خرچ کیئے۔

اسرائیل نے 1980 میں جب لبنان پر قبضہ کر رکھا تھا، تو دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلا خود کش حملہ ہوا، اس وقت سب سے بڑا حملہ 23 اکتوبر 1983کو امریکن فوجی بیس پر ہوا، جب ایک بارود سے بھری ٹرک سے فوجی بیس پر حملہ کیا گیا جس میں تقریبا 20 ہزار پاونڈز بارود بھرا تھا، اس خود کش حملے میں 241 فوجی مارے گئے پھر ایک اور حملہ فرانسیسی فوجیوں پر کیا گیا، جس میں 58 فوجی مارے گئے اور اس کا ذمہ دار شیعہ فرقہ کے عسکری ونگ کو ٹہرایا گیا۔ جن پر ایران کی پشت پناہی کا الزام تھا اور بعد میں یہ حزب اللہ کے نام سے جہادی عسکری گروپ سامنے آیا، انہوں نے 1980 کی دہائی میں 20 حملوں کی ذمہ داری قبول کی، لبنان میں اس وقت کار بم دھماکے پہلے سے کئے جاتے تھے لیکن خود کش حملہ آوروں نے نہ صرف میڈیا بلکہ پوری دنیا کو ایک دم اپنی طرف متوجہ کیا.

سری لنکا میں جب جنگ جاری تھی، تو وہاں سب گروپ ایسے نہیں تھے جو خود کش حملے کرتے تھے بلکہ لبریشن ٹائیگر آف تامل ایلام (ایل ٹی ٹی ای) جو کہ ایک سیکولر گوریلا تحریک تھی، انہوں نے خود کش حملہ آور تیار کیئے جو کہ 1980 کی دہائی کے آخر پر اس تحریک کا حصہ بنے، جو تامل لوگوں کے لئے علیحدہ ریاست کا مطالبہ کر رہے تھے، اس گروپ کے لیڈر ویلو پلائی پرابھا کرن نے اس ضمن میں فرقہ پرست لوگ اپنے ارد گرد جمع کئے اور خود کش حملہ آور تیار کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا اور انہیں بلیک ٹائیگرز کا نام دیا۔

سری لنکا میں پہلا خود کش حملہ 5 جولائی 1987 کو ہوا جب بارود سے بھرے ٹرک سے سری لنکن آرمی بیرکس پر دھماکہ کیا گیا جس سے 55 فوجی ہلاک ہو گئے اور یہ حملہ 1983 میں بیروت میں ہونے والے کامیان حملوں سے مشابہت رکھتا تھا جس سے یہ یقین کر لیا گیا کہ ایل ٹی ٹی ای کے ممبرز کی ٹرینگ بھی حزب اللہ نے کی ہے اور اس حملہ آور کا تامل اکثریتی علاقے جافنا میں جسمہ بھی بنایا گیا، اس گروپ میں شامل ہونے کے لئے باقائدہ درخواست لکھنی پڑتی تھی اور لیڈر فیصلہ کرتا تھا کہ کسے شامل کرنا ہے، درخواستوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ شہیدوں کی لاٹری نکالی جاتی یہاں تک کہ جن لوگوں نے خود کو حملے کے لیئے پیش کیا، انہیں بھی شہادت کا درجہ دیا گیا۔

1980 سے لیکر 2003 تک بلیک ٹایئگرز خود کش حملوں میں عالمی لیڈر تھے، ٹائم میگزین نے ایل ٹی ٹی ای کو دنیا کی سب سے کامیاب دہشت گرد تنظیم قرار دیا، جنہوں نے دو انتہائی ہائی پروفائل حملے کئے جن میں ایک سری لنکن وزیر اعظم رنا سنگھ پریتمداسا اور دوسرے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کا قتل شامل ہے اور مزید پانچ سری لنکن کابینہ کے ممبرز بھی مارے گئے، بلیک ٹائیگرز نے خود کش بیلٹ بھی ایجاد کی جو بعد میں عراق، افغانستان اور پاکستان میں باقائدگی سے استعمال ہوتی رہی ہے. خودکش حملہ آوروں میں عورتوں کو بھی استعمال کیا گیا۔

یو نیورسٹی آف شکاگو کے مطابق 1981 سے 2010 تک 125 عورتوں نے خود کش حملے کئے، ان میں زیادہ مشہور وہ عورتیں رہیں، جو چیچنیا میں آزادی کی جنگ لڑ رہیں تھیں، یہ وہ عورتیں تھیں جن کے خاوند یا بھائی اس جنگ میں مارے گئے جنہیں روسی میڈیا نے بلیک ویڈو کا نام دیا، عورتوں کے خود کش حملوں کا ان کو کچھ فائدے تھے، ایک تو میڈیا کا دھیان بہت زیادہ ملتا دوسرا کسی کو شک نہ ہونے کی بنا پر مطلوبہ حدف کو نشانا بنانا آسان ہوتا، اس کے علاوہ یہ بھی واضح پیغام جاتا کہ انکی تحریک صرف مردوں تک محدود نہیں رہی، آج بھی بوکو حرام گروپ کی طرف سے عورتوں کو خود کش حملہ آور کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے.

خود کش حملہ آوروں کی مکمل تاریخ پر اگر بات کی جائے تو شاید ذہن میں یہ امر ابھر سکتی ہے کہ یہ ایک مذہبی جنونیت ہے لیکن دنیا میں آزادی پسند حلقوں نے بھی اپنے اوپر ظلم و بربریت کی انتہاء کو کمزور کرنے کے لئے خود کش حملے کئے، جس میں فلسطین کے اندر اسرائیلی بربریت پر جب 21 سالہ نوجوان محمد احمد مارمش خود کش کرتے ہیں، تو وہ ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہیں جس میں کہتے ہین کہ میرا خود کش حملہ فلسطین میں بے گناہ لوگو ں خاص طور پر بوڑھی عورتوں اور بچوں کا بدلہ ہے.

مغربی بلوچستان میں گزشتہ ادوار بلوچ مزاحمت کار شہید مالک ریگی کے بھائی عبدالغفور ریگی نے ایرانی فورسز پر حملہ کرکے اس امر کی ابتداء کی تھی۔

مشرقی بلوچستان کے اندر جب آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو ابتدائی ادوار میں شہید مجید بلوچ اول نے 2 اگست 1974 کو اس وقت کے ظالم حکمران ذولفقار علی بھٹو پر خود کش حملے کی ابتداء کی گو کہ اس حملے میں بھٹو محفوظ رہے لیکن اس جذبے کی بنیاد رکھی گئی کہ “جب مقصد عظیم ہو تو جان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی”

اس کے بعد مشرقی بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے خلاف اور پاکستان کے بنائے گئے ڈیتھ اسکواڈ پر کوئٹہ میں بلوچ سرمچار درویش بلوچ نے اس وقت کے بدنام زمانہ ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ شفیق مینگل پر ارباب کرم خان روڈ پر 30 دسمبر 2011 کو خود کش حملہ کرکے ثابت کیا کہ ہم فدائین ہیں. بلوچستان پر گزشتہ ستّر سالوں سے پاکستانی بربریت اپنے انتہاء کو پہنچ چکی ہے اور آج پاکستانی فورسز بلوچ نہتے ماؤں بہنوں بچوں کو پسِ زنداں ڈال کر اپنے گہناونے عزائم کو مزید تقویت دے رہے ہیں، اور ان تمام جبر و ظلم میں پاکستان کے ساتھ چائینا مکمل شراکت دار ہے، کیونکہ چائینا بلوچستان میں بلوچ وسائل کو ہتھیانے کے عوض پاکستان پر اپنا افرادی و مالی قوت صرف کررہا ہے بلوچستان پر چائینا کے اس لوٹ مار کے خلاف بلوچ مزاحمت کاروں نے ان پر بعض اوقات کاری ضربیں لگائیں، لیکن آج اس جذبے کو بی ایل اے شہید حمید برگیڈ کے کساں سال سپاہی فدائین ریحان جان بلوچ نے دالبندین میں چائینیز پر خود کش حملہ کرکے یہ ثابت کیا کہ مادرِ وطن پر آنچ آئے تو ہم جان کی بازی مکمل جزبے سے دیں گے.
“کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیوں، اب تمہارے حوالے وطن ساتھیوں”

دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔