غلامی کے اثرات – لطیف بلوچ

1228

غلامی کے اثرات

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

غلامی اور امپیریل ازم کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، جب کوئی قوم متحد ہوئی اور اس نے کمزور ہمسائیہ ملکوں پر حملہ کرکے وہاں سے مال غنیمت لوٹنا شروع کیا، تو اس مال میں سونا، چاندی اور سامان کے ساتھ ساتھ انسان بھی بطور غلام لائے جاتے تھے، چنانچہ جب فاتحین کی افواج واپس لوٹتی، تو ان کے ہمراہ غلاموں کی بھی فوج ہوا کرتی تھی، جو بطور انعام فوج میں تقسیم کئے جاتے تھے، پاکستان فوجی طاقت و قوت استعمال کرکے بلوچوں کے سرزمین پر قابض ہوگیا۔ اُنہوں نے انسانوں کو غلام بنانے کیساتھ ساتھ بلوچ سرزمین کو بھی اپنا مقبوضہ بنادیا، دیگر امپیریلسٹوں کی طرح اُنہوں نے بلوچ وسائل اور سرزمین کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹنا اور بلوچ قوم کے خلاف طاقت کا اندھا دھند استعمال شروع کیا جو تاحال جاری ہے اور اس دوران ہزاروں بلوچوں کو اُٹھا کر عقوبت خانوں میں بند کیا گیا، زمانہ ازمنہ میں غلاموں کو منڈیوں میں فروخت کیاُ جاتا تھا یا اپنے ساتھ رکھا جاتا تھا اب بس صرف یہ تبدیلی ہوئی ہے کہ غلاموں کو ٹارچر سیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرکے مسخ شدہ حالت میں لاش پھینک دیا جاتا ہے۔

کرنل ڈین کے مطابق کسی طاقتور قوم کو بغیر جنگ کے غلام بنانے کے کچھ مخصوص طریقے ہوتے ہیں۔ ایسی قوم کو بیرونی حملوں سے نہیں بلکہ اندرونی سازشوں سے توڑا جا سکتا ہے۔ بلوچستان میں اندرونی سازشیں عروج پر ہیں، کچھ مخصوص عناصر غلامی کو خوبصورت پوشاک پہناکر قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں اور لوگوں کو مختلف طریقوں سے غلامانہ زندگی گذارنے کی ترغیب دیتے ہیں اور اُنکے سامنے آزادی کو انتہائی بھیناک اور خوفناک شکل میں پیش کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں، آج بلوچ سماج دو حصوں میں تقسیم ہے ایک انتہائی قلیل حصہ غلامی اور بدحالی کو اپنے لئے غنیمت سمجھتا ہے لیکن اکثریت لوگوں کی غلامی کو لعنت سمجھتے ہیں اور غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

کسی قوم کو بغیر جنگ کے غلام بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان لوگوں کے ذہن کنٹرول کیئے جائیں۔ جب تک کسی انسان کا ذہن آزاد ہوگا وہ غلامی کو قبول نہیں کرے گا۔ کسی قوم کو متحد رکھنے میں سب سے اہم کردار ثقافت اور زبان کا ہوتا ہے۔ اگر قانون سازی کر کے یا سماجی دباو ڈال کر ثقافت اور زبان کو بگاڑ دیا جائے تو اس ملک کی جڑیں ہل جاتی ہیں۔ تعلیمی نصاب میں بلوچ طلباء کو اُنکے زبان و ثقافت سے آگاہی دینے کے بجائے قابض اپنی ثقافت اور زبان کو رائج کر رکھا ہے، پاکستان کی نصاب میں ایک جھوٹی اور من گھڑت تاریخ لکھی گئی ہیں۔

بلوچستان پر پاکستان نے 1948 میں قبضہ کرکے اپنے نوآبادیات میں تبدیل کردیا اور بلوچ قوم کو اپنے دائمی غلامی کا شکار بنادیا اور ظلم و جبر کی ایک نئی تاریخ اور داستان رقم کردی، پاکستانی فوج کے ظلم و جبر اور بربریت کے سامنے روم اور افریقہ کےغلاموں کی غلامی شرما جائے گی، رومی سلطنت میں قانون تھا کہ اگر کوئی غلام اپنے آقا کو قتل کردے تو اس کے بدلے میں اس کے گھر میں جتنے غلام ہوتے تھے، وہ اس جرم میں قتل کردیئے جاتے تھے، افریقیوں کا بحیثیت غلام سب سے زیادہ استحصال یورپیوں نے کیا، ابتداء میں یورپیوں نے افریقہ کو نوآبادیات میں تبدیل کرنا شروع کیا تاکہ اس کے نیچرل ذرائع کی لوٹ کھسوٹ کی جائے اور اس مقصد کے تحت اُنہوں نے اپنی مقبوضات میں ترقیاتی کاموں کو شروع بھی کیاُ مگر جیسے ہی نئی دنیا کی دریافت ہوئی اور وہاں انہیں زیادہ مواقع کی اُمید ہوئی تو اُنہوں نے افریقہ کی مقبوضات کو ترقی دینے کے تمام منصوبے ترک کردیئے اور اپنی تمام تر توجہ اس مقصد پر صرف کیئے کہ نئی دنیا کے ذرائع کو کیسے حاصل کیا جائے اور انہیں کیسے استعمال کیا جائے؟

پنجابی فوج نے طاقت کے ذریعے بلوچ قوم کو غلام بنا کر رکھا ہے اور اُنکے زبان و ثقافت، تہذیب و تمدن کو بگاڑنے بلکہ مٹانے کے درپے ہے آج بلوچ قوم کے تاریخی اتحادی و یکجہتی کو توڑنے اور اُنھیں غلام بناکر رکھنے کے لیئے اُن کے زبان اور ثقافت کو مسخ کررہی ہے بلکہ دیگر قبضہ گیروں اور سامراجی قوتوں کی نسخوں اور اُنکے تمام مظالم کو بلوچ قوم پر استعمال کررہی ہے، بلوچ نوجوانوں، دانشوروں، ادیبوں، پروفیسروں، ڈاکٹروں، وکیلوں سمیت تعلیم یافتہ و باشعور طبقے کو چن چن قتل کررہے ہیں، اس کے ساتھ تعلیم و علم حاصل کرنے پر مکمل پابندی ہے، کتابوں پر پابندی ہے، خواتین کی اغوا کا سلسلہ جاری ہے اور غلامانہ سوچ اور روایات کو بلوچ قوم پر تھونپا گیا ہے آج غلامی ہمارے ذہنوں میں مکمل سرایت کرچکی ہے۔

کہتے ہیں کہ جسمانی غلاموں کو آزاد کرنا آسان ہے لیکن ذہنی غلاموں کو آزاد کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے کیونکہ جسمانی غلام غلامی کو قبول نہیں کرتے بلکہ وہ غلامی سے آزادی کے لئے جدوجہد کرتے ہے لیکن ذہنی غلام غلامی کو اپنا مقدر اور قدرت کا دین سمجھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری غلامی قدرت کی طرف سے ہماری قسمت میں لکھی گئی ہے، وہ غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے بجائے غلامی کو خوبصورت بناکر پیش کرتے ہیں، آج اگر دیکھا جائے بلوچستان میں ایسے غلاموں کی کمی نہیں جو اپنے گلے اور پیروں میں ڈالے گئے غلامی کی زنجیروں کو قبول کرچکے ہیں، جب اُن کے زنجیروں کو تبدیل کیا جاتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں آزادی مل رہی ہے۔

اس لیئے ڈاکٹر ڈین کہتے ہیں کہ کسی قوم کو غلام بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ان لوگوں کے ذہن کنٹرول کیئے جائیں کیونکہ جب تک کسی انسان کا ذہن آزاد ہوگا، وہ غلامی کسی صورت قبول نہیں کرے گی، اب کچھ لوگ مراعات، نوکری اور دیگر ریاستی سہولیات کو آزادی سمجھتے ہیں، وہ اصل میں آزادی کے اصل مفہوم سے نا آشنا ہیں کہ آزادی کس چیز کا نام ہے ایسے لوگ تاریخ سے نابلد ہوتے ہیں بلکہ قبضہ گیر جان بوجھ کر اُنھیں اُنکے تاریخ سے دور رکھتی ہے اور اُن کو اُنکے قومی ہیروز کے بجائے قابض اپنے مصنوعی ہیروز کو اُن پر مسلط کرتی ہے، اپنی غیر فطری تاریخ کو غلام اقوام پر مسلط کرکے اُنکے تاریخ کو مکمل طور پر مسخ کیا جاتا ہے آج پنجابی فوج بلوچ قوم کیساتھ بھی ایسا ہی کررہا ہے، بلوچوں کے تاریخ کو مسخ کرکے پیش کیاُ جارہا ہے بلکہ محمد علی جناح، علامہ اقبال، سر سید احمد خان، لیاقت خان سمیت دیگر کو ہیرو بناکر پیش کیا جاتا ہے، دراصل بلوچ تاریخ میں ان کا کردار ولنوں جیسا ہے جنھوں نے جھوٹ، دھوکے، فریب، وعدہ خلافی کا سہارا لے کر بلوچ سرزمین پر قابض ہوگئے، بلوچ شناخت، زبان، ثقافت، تہذیب و تمدن سمیت بلوچوں کے رسم و رواج اور تاریخ کو مٹاکر اپنی 70 سالہ مبہم تاریخ کو بلوچ قوم پر مسلط کیا، جس غیر فطری تاریخ اور ملک سے بلوچ قوم کا کوئی تاریخی اور ثقافتی تعلق نہیں رہا ہے اسلام اور مذہب کے نام پر قوموں پر پاکستان کو مسلط کیا گیا ہے بلوچ اپنی ہزاروں سالوں پر محیط تاریخ، تہذیب و تمدن کو کسی صورت پاکستان کے 70 سالہ مبہم تاریخ پر قربان کرنے کو تیار نہیں ہے۔