امریکی ایوان بالا کے اراکین کا کہنا ہے کہ ماضی میں پاکستان نے ہمیشہ امریکہ سے دوغلی پالیسی اختیار کیے رکھی اگر عمران حکومت اپنی پالیسی میں افغان ایشو کو حل کرنے میں ہماری مدد کریں تو دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آسکتی ہے ۔
سینٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر باب کورکر کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ پاکستان کو ساتھ ملانے اور فوج کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی پر آمادہ کرنے کی کوششیں درست حکمت عملی ہے ۔
موجودہ حالات میں ہمیں پاکستان کی سب سے زیادہ ضرورت افغانستان میں ہے ۔
ڈیموکریٹک سینیٹر جینی شاہین کا کہنا ہے ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کی نئی حکومت امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنائے اور ان دہشت گردوں کے خلاف اقدامات اٹھائے جو پاکستانی سرزمین سے کاروائیاں کر رہے ہیں ایسا کرنا پاکستان، افغانستان اور اس خطے کے مفاد میں ہے ۔
ریپبلکن سینیٹر باب مینیڈیز کا کہنا ہے کہ ہماری توقع ہے پاکستان کی نئی حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کریگی۔
ڈیموکریٹک سینیٹر کریس مورپی نے کہا پاکستان اور افغانستان میں حقانی نیٹ ورک کی موجودگی اور اسکے مستقبل کے بارے میں ہمارے پاکستان کے ساتھ اختلافات ہیں میرا خیال ہے کہ اس ایشو پر دونوں ممالک کے ساتھ مذاکرات مشکل ہی ہوں گے ۔