عظیم باپ اور فرمانبردار بیٹا – ظفر پرچو وديارٿي

848

عظیم باپ اور فرمانبردار بیٹا

ظفر پرچو وديارٿي

دی بلوچستان پوسٹ 

کتنے دن ہوگئے ، میں اپنے آپ میں لکھنے کی ہمت جمع کر رہا تھا، کبھی تھوڑا لکھتا پھر مٹاتا، یہ صورتحال میرے ساتھ مسلسل رہی، تاریخ کے کتابوں میں ڈھونڈنے لگا، ادبی دوستوں سے پوچھتا رہا، کوئی ایسی قربانی ، کوئی ایسا واقعہ نہیں ملا! صرف ایک دو ہی ایسے واقعات ملے جب کسے باپ نے اپنے نوجوان بیٹے کی قربانی دی ہے۔ وہ بھی اس عظیم باپ اور بیٹے کے قربانی کے برابر نہیں تھے۔

وسيم بريلوي صاحب نے کیا خوب کہا ہے ،؛
کبھی لہو سے بھی تاریخ لکھنی پڑتی ہے
ہر ایک معرکہ باتوں سے سر نہیں ہوتا“ ۔

شاید استاد اسلم نے بھی یہ جان لیا تھا کہ، وقت کی نزاکت ہے کے بیٹے کی قربانی دوں، جس سے تحریک آزادی بلوچستان میں نئی روح پڑ جاۓ ، ایسا ہی ہوا استاد کے فیصلے نے بلوچ سرمچاروں میں قربانی کا نیا جذبہ پیدا کردیا۔ استاد اسلم نے سائیں نواب خیر بخش مری کی روایت برقرار رکھتے ہوئے، انہی کی طرح لوگوں سے اپنے پیارے بیٹے کی شہادت کی مبارکیں وصول کئیں۔ اتنا آسان نہیں ہوتا اپنے لخت جگر کو ایسے قربانی کیلۓ اپنے ہاتھوں سے دولہے کی طرح سجا کر میدان جنگ میں بھیجنا ، میدانِ جنگ بھی ایسی کے جہاں سے غازی بن کے واپس آنے کی کوئی امید نا ہو، پھر بھی اتنا بڑآ فیصلہ کرنا، سچ میں بڑا جگر چاہیئے !

حضرت ابراھیم نے اپنے بیٹے اسماعیل کو اللہ کے نام پے قربان کیا! حالانکہ اس واقعے میں بھی بہت جھول ہیں، لیکن استاد اسلم کا عمل شعوری تھا، وہ بھی دھرتی ماں کے لیئے، سچ آج بلوچستان کی پہاڑوں کا قد اور بھی اونچا ہوگیا ہوگا ، پہلے سائیں نواب اکبر بگٹی کی جان بازی سے اور آج ریحان کی شہادت سے۔

ویسے اس سے پہلے بھی غیرت مند بلوچ اپنے وطن کی خاطر لڑتے آئے ہیں، کبھی کوہ سلیمان کے سردار کوڑا خان کے روپ میں تو کبھی نواب نوروز خان بن کر یا میر لونگ خان مینگل ہی کیوں نا ہو، خان آف قلات کا وقت ہی کیوں نا ھو، بلوچ قوم ہمیشہ اپنی عزت و آبرو اور وطن کی آزادی کے لیۓ قربان ھوتی رھی ھے، لیکن استاد اسلم کی ہمت اور قربانی سب پے بازی لے گئی، آج کوئی عقل کا اندھا اس حقیقت سے بھلے انکار کرے، لیکن وقت بتائے گا کے لہو سے لکھی تاریخ کتنی عظیم ھوتی ھے۔

ایک سندھی آزادی پسند بھائی ہونے کے ناطے استاد اسلم بلوچ کو سلام پیش کرتا ھوں ، فرمانبردار عظیم بیٹے ریحان کو بھی سلام پیش کرتا ہوں، کوئی تعزیت نہیں ، مبارک پیش کرتا ہوں۔

دی بلوچستاں پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔