ظلم کا ارتقاء
تحریر: لطیف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جبر، دکھ، درد، آنسوؤں،آہوں اور سسکیوں کے یہ سیاہ راتوں کی داستانیں بہت طویل، دردناک اور افسوسناک ہیں۔ غلامی کے اس گھپ اندھیرے اور طویل راتوں میں بلوچ گذشتہ 71 سالوں سے سفر کررہے ہیں، اس سفر میں بلوچ قوم نے بے شمار اذیتیں، ظلم و ستم اور درد سہہ رہے ہیں، ایک روشن سویرے کے لیئے قربانیوں، اذیتوں کا سلسلہ بھی بہت تلخ و طویل ہے، 27 مارچ 1948 سے قبل بلوچ انگریز سامراج کے خلاف لڑتے رہے لیکن اپنے آزادی پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ جب تک انگریز سامراج بلوچستان یا اس خطے پر قابض تھے لیکن اُنہوں نے اس طرح کا ظلم و جبر نہیں کیا تھا، جس طرح کا ظلم و جبر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مسلمان فوج بلوچ قوم کیساتھ کررہا ہے، بلوچ قوم کا آج شناخت، زبان، ثقافت، تہذیب، اور تاریخ محفوظ نہیں، بلوچ نوجوان اور بزرگ ریاستی بربریت کا شکار ہیں، بلوچ خواتین بھی ریاستی ظلم و جبر اور زیادتیوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس بہادر مسلمان فوج نے جس طرح کی ظلم و ستم بنگلہ دیش میں کیا، جس طرح وہاں خواتین کو جنسی اور جسمانی زیادتیوں کا نشانہ بنائے، بنگلہ دیشی خواتین کو جنسی زیادتیوں کا نشانہ بناکر بے دردی سے قتل کیا گیا آج وہ بدترین اور سیاہ تاریخ بلوچستان میں دہرائی جاری ہے۔ بلوچ خواتین کو اُٹھا کر لیجاتے ہیں اور خواتین کو ریاستی عقوبت خانوں اور ٹارچر سیلوں میں منتقل کیا جاتا ہے، جب سے بلوچستان میں فوجی آپریشن جاری ہے، تب سے آئے روز بلوچ خواتین لاپتہ ہورہے ہیں، ایسے ہزاروں خواتین کی بہت درد ناک کہانیاں ہیں، جن کو آپریشن کے دوران فوج نے اُٹھا لیا ہے جو تاحال لاپتہ ہیں۔
ایسا بلوچستان میں پہلی بار نہیں ہورہا بلکہ اس سے قبل جتنے بھی فوجی آپریشنز ہوئے ہیں، دوران آپریشن ایسے بہت سے دل دہلانے والے ہیبت ناک واقعات رونما ہوئے ہیں، بلوچ رہنما شیر محمد مری اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ 1973 میں جب بلوچستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا، تو اس دوران کوہستان مری سے بلوچ خواتین کو اغوا کرکے منڈیوں میں فروخت کیا گیا وہ کہتے ہیں کہ ایسے بہت سے بلوچ خواتین کے لئے اُنہوں نے رقم دے کر اُنھیں منڈیوں سے آزاد کروایا ہے۔
دنیا میں جہاں مظلوم اقوام نے قابض قوتوں کے خلاف مزاحمت کیا ہے، تو قابض اپنے طاقت کی نشے میں دھت ہوکر مظلوم اقوام کے خلاف ایسے غیر مہذب اور غیر انسانی حرکتوں کا سہارا لیتے رہے ہیں اور اپنی وحشیانہ و سفاکانہ حربوں کے ذریعے تحریکوں کو کچلنے کی کوشیش کرتے رہے ہیں، خواتین کی آبروریزی کو دشمن جنگ کے دوران ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں، نہتے اور جنگ سے لاتعلق خواتین کو گھروں سے اُٹھا کر ٹارچر سیلوں میں لیجانا دراصل دشمن کی نفسیاتی شکست کو واضح کرتی ہے، وہ اس طرح کے حربے استعمال کرکے جنگی محاذ پر متحرک قومی جہد کاروں کے حوصلوں کو توڑنا اور پست کرنا چاہتے ہیں۔
بلوچستان کے جنگ زدہ علاقوں میں ایسے بہت سے حیوانی واقعات رونما ہوئے ہیں کہ فوج نہتے خواتین کو اُٹھا کر لے گئی ہے، اس سے قبل بولان، ڈیرہ بگٹی اور کوہستان مری میں ایسے بہت سے دلخراش، وحشت ناک واقعات ہوئے ہیں، شکست خوردہ دشمن خواتین کو اپنے جبر کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
اس طرح کے دلخراش واقعات جنگ سے متاثرہ بلوچستان کے علاقے آواران اور مشکے میں رونما ہوتے رہے ہیں، پاکستانی فوج جنگی قوانین کو پاؤں تلے روند کر کمسن بچوں اور خواتین کو اپنے سفاکیت کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں، مشکے سے گذشتہ کچھ دن سے خبریں موصول ہورہی ہیں کہ فوج نے نور الملک زوجہ اللہ بخش کو دو ہفتے قبل انکی دو بیٹیوں 22 سالہ حسینہ زوجہ اسحاق اور 18 سالہ ثمینہ کے ہمراہ فورسز نے گھر پر چھاپے کے دوران گرفتاری بعد نامعلوم مقام پے منتقل کردیا ہے، جبکہ نور ملک کے 10 سالہ بیٹے ضمیر کو 3 جولائی کو فورسز نے گرفتار کر کے لاپتہ کردیا تھا۔
اس طرح کی پالیسیاں ریاستوں کے انسرجنسی کاونٹر پالیسیوں کا حصہ ہوا کرتے ہیں، وہ مختلف حربے استعمال کرکے تحریکوں کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس سے قبل بھی اس طرح کے واقعات رونما ہوئے ہیں، لیکن آزادی کی تحریک، فکر اور نظریہ ختم نہیں ہوا ہے گذشتہ سال بلوچ گوریلا لیڈر ڈاکٹر اللہ نزر بلوچ کی اہلیہ اور کمانڈر اُستاد اسلم بلوچ کی ہمشیرہ کو فورسز نے کوئٹہ سے گرفتار کرکے لاپتہ کیا تھا۔ اُن میں دیگر خواتین اور اللہ نذر بلوچ کی کمسن بیٹی بھی شامل تھی، لیکن شدید سیاسی اور بین الاقوامی دباو کے بعد ریاست نے اُنہیں بازیاب کرکے رہا کیا تھا، ریاستی پارلیمانی انتخابات کے موقعے پر پنجگور اور آواران میں جبری طور پر بلوچ خواتین کو گھروں سے اُٹھا کر کیمپوں میں منتقل کیا گیا اور اُنہیں زبردستی ووٹ کاسٹ کرنے کے لیئے پولنگ اسٹیشنوں پر لایا گیا، وہ بھی دردناک مناظر تھے۔ جب بلوچ خواتین پولنگ اسٹیشنوں کے باہر سنگینوں کے سائے تلے بے بسی کی تصویر بنے کھڑے تھے، ان ریاستی مظالم کی نظیر دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں نہیں ملتی۔
پنجابی ظلم کا ارتقاء ہمیں یہ دکھاتا ہے کہ ریاستی فوج اور اُن کے خفیہ ادارے بلوچستان میں اپنے ایزا رسانی، بربریت، سفاکیت اور ریاستی جبر میں اضافہ کرکے بلوچ قومی تحریک آزادی کو دبانے اور فتح کرنے کی خواب دیکھ رہے ہیں، ظلم کے تمام ضابطے بلوچ قوم پر استعمال کیا گیا بمباری، قتل عام، عقوبت خانے، اغوا و گمشدگی، تشدد، سر بریدہ لاشیں، نسل کشی سمیت دیگر بدترین انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے لیکن بلوچ قوم کو قومی آزادی کی تاریخی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹا سکے، ریاست کے ان تمام مظالم و درندگی کے باوجود ایک دن آزادی کا سورج ضرور طلوع ہوگا۔