ضیاء تم لوٹ آؤ
تحریر- مہاران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اس گاؤں میں اندھیروں کا راج تھا، ظالم دندناتے پھر رہے تھے، خون کی ندیاں بہہ رہیں تھیں، عزت او غیرت کے نام پر قبرستان بھرے جارہے تھے۔ قبائلی جنگیں اور خوف کا عالم، ایسے علاقے میں ایک لڑکی کا جینا بہت مشکل ہوتا ہے، مرد تو پھربھی ان حالات میں رہ کر یا ان میں شامل ہوکر سیکھ جاتے ہیں، گاؤں میں گھر بڑے اور کشادہ ہوتے ہیں، لوگ بڑے دل لیئے یہاں پیدا ہوتے ہیں لیکن یہاں وہ معاشرتی دؤر تھا کے بھائی بھائی کے خون کا پیاسا تھا۔ سرداروں کے بھٹی میں عام لوگ مر مٹ رہے تھے، خاندان کے خاندان بے یار مدد گار ہوگئے تھے، انسانیت نام کا شہ یہاں سے کوچ کر گیا تھا۔
ایک شام ایسی آئی کے شھموز کی چوٹی سے ایک ٹھنڈی ہوا چلنے لگی، وہ مغرور طوبے(چاند) جو ہمیشہ اپنی چاندنی پر نازاں تھا آج دھیمی پڑگئی تھی، نجانے اسے کیا ہوا ہے۔
میں اسی کشمکش میں مبتلا تھی کہ اچانک امی نے کہا کہ “کیا ہوا بیٹا، ایسے کیوں اداس ہو؟
میں نے کہا “امی آج چاند کی چاندنی اتنی دھیمی کیوں پڑ گئی ہے کیا وجہ ہے؟”
امی بولی “بیٹا جب سورج اور چاند کو خود سے بھی زیادہ روشن شہ نظر آئے، وہاں اسکی مغروری کم پڑ جائے، پھر وہ اس سے چھپنے کی کوشش کرتا ہے۔”
“ماں ایسا لگ رہا ہے، آج کوئی چاند کی چاندنی سے زیادہ روشن ہے، اسے اسکی مغروری پر ڈانٹ پلا رہا ہے، تبھی تو چاند یوں دھیمی پڑ گئی ہے۔”
چاند کی چاندنی کو یوں ماند دیکھ کر گاؤں کے سب بچے پریشان تھے، کیونکہ اسی روشنی میں وہ اکثر اپنے گھر کے پاس ششوک کھیلتے تھے، آج سب جلدی جلدی اپنے گھروں کو واپس لوٹنے لگے۔
میں نے اس چاندنی میں بھی اپنے لوگوں کو اندھیرے میں پایا، مجھے چاند کی اس مغروری سے بہت گھن آتا تھا کہ اس روشنی کے باجود بھی میرے لوگ اندھیری راہوں میں بھٹکے ہیں. چاندنی کی روشنی سے قبریں واضح ہوجاتی تھیں اور ہر دن قبروں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
مجھے کسی اور روشنی کی تلاش کی آس لگ گئی تھی، میرا جی اس چاند کی روشنی سے بھر گیا تھا۔ چاند چاندنی اور سورج کی روشنی میرے لوگوں کو اندھیرے سے نکالنے میں ناکام تھی۔ میں اب اس چاند، چاندنی اور سورج کی روشنی کو روشنی ماننے سے انکار کر چکی تھی، اب مجھے ایک اور روشنی چاہیئے تھا، جو میرے وطن کے لوگوں کو ایک آزاد سوچ دے جو انہیں ایک ہمدرد کی طرح اپنے حق کے لیے لڑنا سکھائے، جو ایک روشنی بن کر ایک ایک روشن سویر کا پاسبانی کرتا ہوا نظر آئے۔
اس مغرور چاند کی روشنی کو یوں لاچار دیکھ کر میں نے امی سے پائے جواب کو اپنا لیا، اس روشنی نے اگر میرے لوگوں کو نہیں بدلا، تو میں آنے والے روشنی سے یہی امید وابستہ کر کے سوگئی، بہت وقت لگا اس روشنی کو سمجھنے میں لیکن جب اس چاندنی کو سامنے پایا تو میں سمجھ گئی، اس دن سورج کس روشنی سے گھبرا رہا تھا۔
یہی تو ہے وہ، جو شھموز کی چوٹی پر بیٹھ کر اس دن مغرور چاند سے مخاطب تھا، اس نے چاند کو بتا دیا تھا کہ میں آیا ہوں اپنے لوگوں کو بدلنے، میں آیا ہوں انہیں شعور بخشنے اور حقیقی چاندنی سے متعارف کروانے۔ تمہاری چاندنی میں میرے لوگ مارے گئے، میرے مادرِ وطن کی کوکھ میں قبرستانوں میں اضافہ ہوتا گیا، میں آیا ہوں انہیں آگاہی دینے اس دن چاند اس کے سامنے شرم سے دھیمی پڑ گئی تھی۔
میں اس روشنی سے واقف تھی، میں اسے جانتی تھی، میرا اس سے بہت پرانا رشتہ تھا، میرے خیالوں کا، میرے سوچ کا میرے تلاش کا اس سے رشتہ تھا، یہ دلجان تھا میں اسے ضیاء کے نام سے جانتی تھی۔
ضیاء میرے گاؤں کا تھا، ضیاء میرا تلاش تھا، میری تلاش مجید، حئی، صدام، امتیاز کے بعد ضیاء تھا۔ ضیاء لوٹ کر آگیا تھا، ضیاء اس بار لوٹا تھا اور اس اندھیرے کو مٹانے اور اس اندھیرے سے لڑتا ہوا فنا ہوگیا، ضیاء نے وہ روشنیاں پیدا کیئے کہ آج بھی جب چاند اپنی چاندنی کے عروج پر ہوتا ہے، تو میرے گاؤں میں اسکی روشنی کمزور پڑ جاتی ہے، آج شھموز کے دامن میں بیٹھے ضیاء کے جلائے شمعوں نے پورے گاؤں کو روشن کیا ہوا ہے، آج مغرور طوبے اپنے حد میں رہتے ہوئے آکر چلا جاتا ہے۔
ضیاء لوٹ آیا تھا، اس اندھیرے کو مٹانے۔ ضیاء لوٹ آیا تھا، میری تلاش کو مٹانے۔ ضیاء لوٹ آیا تھا، بے حس چاند کو سمجھانے کہ اسکا کام لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی دکھانا ہے۔ آج ضیاء نہیں تو اس سوچ کو سمت دینے کئی ضیاء پیدا ہوگئے۔ ضیاء لوٹ آیا تھا اسے پھر سے لوٹنا ہے
میں آج بھی اسی چوٹی سے تمھاری خوشبو کی امید لیئے بیٹھی ہوں، آؤ! ہمیں سمت دو۔ آو! ہمیں روشنی دو۔ آو! ان اندھیروں کو مٹانے کی امید دو۔ آو! ہمیں ایک نیا سویرا اور آزاد روشنی دو۔ آو! ہمیں اپنے حق کے لیئے لڑنے کا سلیقہ دو۔ آو! ہمیں ایک روشن خیال دو، ہمیں غلامی کی زنجیروں سے آزاد کردو۔ آو! ہمیں اپنی سوچ اور نظریئے سے آزادی کی کرن دو، ہمیں آزادی دو۔
ضیاء تم لوٹ آؤ……
دلجان تم لوٹ آؤ…..
دلو جان تم لوٹ آؤ….
بس یہی سوچ رہی تھی کہ کہ ایک آواز سی آئی، جیسے کسی نے میری آہ سنی ہو، جیسے کسی نے ہاتھ پکڑا ہو، جیسے کسی نے راہ دِکھائی ہو، جیسے کسی نے جگایا ہو، جیسے کسی نے یہ بولا ہو کہ میرا نظریہ تمہیں راہ دکھائے گا، میرا بندوق ظلم مٹائے گا، میں کئی ضیاء بنانے کے بعد فنا ہوا ہوں، میرے ہم فکر تجھے آزاد کریں گے، میرے سنگت تمہیں نیا سویرا دکھائیں گے، بس تجھے مضبوط ہونا ہے۔