شے مُرید – تحریر: بیبرگ بلوچ

2503

شے مُرید

تحریر: بیبرگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

بی ایس او آزاد کےسابقہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ شہید رضا جہانگیر کے شخصیت کااحاطہ ان الفاظ میں کرتے ہیں ”میری نظر میں رضا جہانگیر ایک شخص کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک عہد کا نام ہے۔ بی ایس او کا وہ عہد جو تاریخ میں ایک بڑے کریک ڈاؤن کی نظر ہوگئی یا وہ عہد کہ بلوچ قومی تحریک میں کریک ڈاؤن کے دوران بلوچ نسل کشی میں تیزی آئی، تاریخ میں اس عہد کا نام شہید رضا جہانگیر ہے۔“

ویسے لوگ دنیا میں پیدا ہوتے ہی ہیں مرنے کے لیئے، لیکن کچھ لوگ زندہ ہونے کے باوجود مرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اور کچھ لوگ دنیا کو رخصت کرکے چلے جاتے ہیں لیکن پھر بھی زندوں میں شمار ہوتے ہیں۔ شہید رضا جہانگیر بھی انہی لوگوں میں سے ہیں جو رخصت کرکے چلے گئے ہیں لیکن پھر بھی زندہ لوگوں میں شمار ہوتے
ہیں۔

کس کو کیا معلوم تھا کہ آواران میں بختیار بلوچ نامی شخص کے گھر میں پیدا ہونے والا یہ دبلا،لاغر بدن سا شخص بڑا ہوکر ریڈیکلزم کے بنیاد پر اپنی سیاست کا آغاز کرے گا اور بی ایس او آزاد جیسے ریڈیکل آرگنائزیشن سے اپنی وابستگی جوڑ کر مرکزی سیکٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہوگا۔

شے مُرید نام رکھاتو تھا لیکن یہ شے مرید واقعی میں ایک شے تھا۔ اِس شے مُرید اور اُس شے مُرید میں فرق صرف اتنا تھا کہ اس نے حانی کیلئے اپنے آپ کو شرابِ عشق میں بھگو دیا اور پھر زندگی بھر اسی کا عاشق ہو گیا۔ لیکن جو ہمارا شے تھا شہید رضا جہانگیر، وہ تو بلوچ اور بلوچستان کا ایک ایسا محب اور عاشق بن گیا کہ جس نے زندگی میں کچھ اور کام نہ کیا وہ جب ایک بار بلوچستان کی محبت سے دوچار ہوا، پھر زندگی بھراسی بلوچ وطن کا ہو گیا۔ 2010 کے دوران بی ایس او آزاد اور بلوچ قومی تحریک کے اندر ایک کریک ڈاؤن شروع ہو جاتا ہے اور بی ایس او منتشر ہونے کی طرف جارہی ہوتی ہے۔ سامراج کی سامراجیت، قبضہ گیر کی قبضہ گیریت، سرداروں کی سرداریت، دلالوں کی دلالیت زور پکڑ رہا ہوتا ہے اور اس میں کچھ اپنوں کی مہربانیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔ جس طرح حانی کے عشق میں شے مُرید جلا وطن ہو جاتا ہے، کئی سال گُزرنے کے باوجود کوئی نام نشان نہیں ہوتا ہے کہ شے مرید کدھر گیا، اچانک چاکر رند کے دربار میں تیر اندازی مقابلے کے دوران حانی کا شے مرید منظر پر آجاتا ہے۔ بلکل اُسی طرح بلوچستان کا شے مُرید دیوانوں کی طرح منظر پر اُبھر آتا ہے اور ایک محب، ایک مفکر، ایک شاعر اور ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے زاہد جان اور دیگر دوستوں کے ساتھ ملکر بی ایس او کو منتشر ہونے سے بچانے کیلئے اپنا دن رات ایک کرتا ہے، اس مقصد میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔

بی ایس او 2012 کو اپنے کونسل سیشن کی طرف چلا جاتا ہے۔ جس میں بلوچستان کا شے مُرید بلامقابلہ مرکزی سیکریٹری جنرل منتخب ہوتے ہیں، بس کیا تھا ایک طرف بلوچستان اور دوسری طرف اس کا دیوانہ شے مُرید تھا، جس نے اپنے دن رات ایک کیئے۔ بقول دوستوں کے شے مُرید کے مجلس میں بات بی ایس او اور بلوچ قومی تحریک سے شروع ہوکر اور اسی پر ختم
ہوتا تھا۔

رضا کی سوچ وفکر سے اور ان کی جدوجہد سے لے کر حتیٰ کہ ان کی شہادت تک کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دشمن نے ہماری زمین اور ہر چیز پر قبضہ کرلیا ہے اور اس نے ہمیں غلام بنا لیا ہے۔ ہماری زندگی کے ہدایت نامے وہ لکھ رہے ہیں اور یہ زندگی ہمارے لیئے ایک بتدریج موت ہے، ایک جیتی جاگتی موت۔ ہم ان کی تیار کی ہوئی زندگی نہیں جی سکتے، یہ سوچ کر دل ڈوبنے لگتا ہے کہ ہم ہتھکڑیوں میں جکڑے غلاموں کی طرح ہمیشہ کیلئے پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں، لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ مزاحمت بڑھتی جارہی ہے اور کسی دن ہم وہ سب کچھ حاصل کر لیں گے جو ہمارا حق ہے، آج اگرچہ ہمارے لوگ غلام پیدا ہورہے ہیں، مگر ضرورت پڑنے پر شہید رضا جہانگیر جیسے لوگ اپنی جان دیں گے تاکہ آنے والی نسل غلامی کی موت نہ مریں۔

شہید رضا جہانگیر جیسے لوگ جانتے ہیں کہ پاکستانی فوج ان کے پیچھے لگی ہوئی ہے، کیونکہ سامراجی فوج نے بہت سے بلوچوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور ہاتھوں پر ہتھکڑی لگا کر لے گئے ہیں اور ان میں سے بہت کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی گئیں ہیں اور بہت سے ابھی بھی ٹارچر سیلوں میں اذیت سہہ رہے ہیں، سامراجی فوج بلوچوں کو ان قتل گاہوں میں لے کر جاتے ہیں، جہاں سے صرف غلام، تابع دار اور شکست خوردہ لوگ ہی واپس آسکتے ہیں۔

شہید رضا کو بھی آنے والے وقتوں کی خطرناک بو آرہی تھی اور وہ اپنی جدوجہد سے یہ ثابت کر رہا تھا کہ اگر میں شہید ہوگیا تو میری جدوجہد کو آگے لے جانا میری روح کیلئے دعا کرنا اور میرے ناقابل فراموش شہیدوں میں شامل ہونے پر خوشی منانا تمام وہ لوگ جو انصاف، آزادی اور اپنی سرزمین کیلئے لڑتے ہیں اور جان دیتے ہیں، وہ کامیاب لوگوں میں شامل ہوتے ہیں۔

دی بلوچستاں پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔