شہید بابا بختیار بلوچ
تحریرـ محراب بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انیسویں صدی میں انگریز سامراج کی بلوچستان آمد اور قبضے کے بعد بلوچستان معاشی، سیاسی اور سماجی حوالے سے عدم استحکام کا شکار ہوا۔ پرگنج سرزمین کے مالک نان شبینہ کیلئے محتاج ہوگئے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
بلوچستان کے ستر فیصد لوگ آج تک غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح آواران کے لوگ سندھ و دوسرے علاقوں میں جاکر فصلیں کٹائی کرکے اپنا معاشی گذر بسر کرتے تھے۔ بلوچستان کے شہر لسبیلہ میں جاکر وہاں جدگال تاجروں کے زیرِ سائے مزدوری کرکے کچھ حاصل کرنے کے بعد واپس اپنے علاقے لوٹ آتے تھے۔ آواران کے لوگوں کا ذریعہ معاش غلہ اور جّوار تھے، گلہ و جؤار کی پیدورا اتنی نہیں تھی کہ پوری سال گذارہ ہوتا، تو پھر وہ بیلہ و سندھ اور دوسرے علاقے زُرت کی کٹائی کیلئے چلے جاتے تھےـ
اسی غربت کے زمانے 01 جنوری 1948 کو واجہ مَندہ اور بی بی گموار کے ہاں آواران کے ایک چھوٹے سی گاؤں تیرتیج میں واجہ بختیار نے آنکھ کھولی۔ وہیں بچپن و لڑکپن گذاری، بچپن سے لڑکپن کے زمانہ تک اپنے بھیڑ، بکریوں کو چراتے تھے۔ آپ کا لڑکپن بھیڑ، بکریاں چرانے میں گُذری، اسی طرح آپ کی جوانی بھی دربہ دری میں بیت گئی۔ اُس زمانے میں بلوچستان کے بیشتر حصوں کی طرح آواران میں اسکول نامی کوئی شے موجود نہ تھا۔ آپ چھوٹے بچے تھے، آپ کے والد محترم مندہ وفات پاگئے، تو نو سال کی چھوٹی عمر میں آپ گھر کی ذمہ داریوں کا حصہ دار بن گئے۔ لائق، چُست و چوبند انسان ہونے کی وجہ سے اپنے گھریلو زندگی میں کامیاب رہے۔ آپ سترہ سال کی عمر میں کیچ کے علاقوں، مند، تُمپ ءُ ایران کے بارڈر پر واقع علاقوں میں جاکر کنواں کھدائی کا کام کرتے تھے، آبپاشی کیلئے کاریزوں میں کام کیا کرتے رہے۔ آپ نے بائیس سال کی عمر میں مرحوم دلِمُراد کی بیٹی ارضمَلِک کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ ستائیس سال کی عمر میں 1975ء کو دبئی چلے گئے۔ وہاں محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں و خاندان کی کفالت کرتے تھے۔ آپ کے تین بھائی اور ایک بہن تھی۔ آپ سب سے چھوٹے تھے۔ لیکن سب سے زیادہ ذمہ دار تھے۔ آپ نے زندگی کے بتیس سال متحدہ عرب امارت میں گذارے۔ آپ نے محنت مزدوری کرکے گھر کی کفالت کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو شالکوٹ کے تعلیمی اداروں میں داخلے دلوائےـ آپ دبئی میں بتیس سال گذار نے کے بعد 2007 ء کو واپس اپنے وطن بلوچستان آکر یہاں اپنے ذاتی زمینوں پر زمینداری و کھیتی باڑی شروع کردی ـ
آواران آنے کے بعد آپ سے رضاجہانگیر کے بارے میں گاؤں کے بہت سے میر و معتبروں نے شکایت کی کہ آپ کا بیٹا رضا بی ایس او میں ہے۔ رضا حکومت کے خلاف کھڑا ہوا ہے۔ حکومت کے خلاف جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔ حکومت نے نواب اکبر خان بگٹی کو نہیں بخشا، غوث بخش بزنجو کو بڑی مدت تک جیل میں ڈالا، ڈاکٹر اللہ نظر کو نیم زندہ حالت میں رہا کیا، رضا کو بھی معاف نہیں کرینگے۔ اس دوران رضا کوئٹہ میں تھے، بہت سے میر و معتبروں نے کہا کہ رضا کو کوئٹہ سے واپس بلا لیں، ورنہ نہ صرف آپ اپنے بیٹے کو کھو بیٹھو گے بلکہ اثرات آپ کے فیملی تک پہنچ سکتے ہیں۔
آپ نے اس صورتحال میں کسی کی باتوں میں آکر جذبات کا مظاہرہ نہیں کیا۔ آپ نے کہا باپ پر فرض ہے اپنے بیٹے کو پڑھائے، علم و شعور کا راستہ دیکھائے، مجھے معلوم ہے رضا ضرور پڑھتا ہے، یہ ثبوت میرے آنکھوں کے سامنے ہیں۔ بچپن سے آج تک میرے گھر میں کسی نے کتابوں کی بات تک نہیں کی ہے۔ آج میرے گھر کی زینت کتاب بن چکے ہیں، چاروں کونوں میں کتابیں بکھرے ہوئی ہیں، اگر رضا ان کتابوں پر عمل کریگا وہ ایک کامیاب راستے کا انتخاب کریگا کیونکہ میں جو بھی کہوں جو بھی نصیحت کروں، میں چالیس سال کی چشم دید باتیں کرتا ہوں لیکن کتابیں نہ صرف میرے آباوجداد کی تاریخ بتاتے ہیں بلکہ آنے والے دنوں کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔ کتابوں کی شعور مجھ سے بہت آگے ہے، شاہد جہاں میں دیکھ نہ پاؤں۔ میں کہاں کتب کے عاشقوں سے دستِ گریباں ہوسکتاہوں یا وطن کے مریدوں کو روک سکتا ہوں۔ وہ شخص جو کتابوں سے سنگتی کرتے ہیں وہ منزل کی طرف تنہا بھی چل سکتے ہیں۔ میں رضا کو روکنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ میرے فضول باتوں سے رضا باز نہیں آئیگا کیونکہ میری باتیں میر و معتبروں کے لفاظی پر، غیر منطقی باتوں پر مبنی ہیں۔ ہمارے پاس کوئی ٹھوس دلائل موجود نہیں کہ ھم ایک کتابی علمبردار کو اپنے غیر منطق مکالمے سے قائل کریں۔
رضا تنطیمی دوروں میں ہر وقت مصروف تھا، کبھی کیچ، کبھی کراچی، کبھی شال۔ بحیثیت والد رضا کی تمام مالی ضروریات آپ کی زمہ داری تھی، اگر رضا نے بلوچ قوم کیلئے بے بہا قربانیاں دی ہیں، تو آپ قربانیوں کے بہر سے الگ نہیں، اُن قربانیوں میں آپ شریک تھے۔
جب 2007 میں آواران آکر آپ نے اپنی زمینوں پر کھیتی باڑی شروع کی، تو آپ سیاسی جہد کاروں کی مدد میں پیش پیش تھےـ مجھے یاد ہے 2013 کے شروعات میں آج دورِ حاضر کی طرح آزادی پسند سیاسی ورکروں کے گھروں میں پاکستانی فورسز کی چھاپہ ماری زوروں پر تھی، آپ نے اُن سیاسی ورکروں کی طرح جنگل و کھیتوں میں رات گزاری لیکن مرتے دم تک آپ نے کبھی اُف تک نہیں کی۔ ہمیشہ ہم کو کہا کرتے بلوچ قومی جد و جہد میں مخلصی و ایمانداری کا مظاہرہ کریں، مستقل مزاجی اپنائیں، جیت ہماری ہوگی اگر جذباتیت کے پہلوؤں میں آکر چاکرو گہرام کی نفسیات میں کام کرینگے، ہمارے اندرونی مسئلے مسائل آپسی کُشت و خون تک پہنچ جائینگےـ
آپ اپنے علاقے میں خاندانی مسائل کے حل کرنےمیں ہر وقت پیش پیش تھے، لیکن پاکستان خونخوار فورسز کے ہاتھوں آپ بھی نہ بچ سکےـ
28 اگست2014 کی شام آٹھ بجے آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اللہ کے ذکر و عبادت میں مصروفِ عمل تھے۔ پاکستانی فورسز کے پالے ہوئے مذہبی انتہا پسندوں نے آواران آرمی ہیڈکوارٹر سے نکل کر پانچ کلومیٹر کے فاصلے کہن زیلگ سید عیسٰی کے ٹھکانے میں آکر حملہ کردیا، جہاں آپ اپنے سات رشتہ داروں کے ہمراہ شہید ہوئے اور چار سے زائد زخمی ہوئےـ
واجہ بختیار چھیاسٹھ سال کے عمر میں شہادت نوش کر گئے۔ آپ کے ساتھ بزرگ مزار جو ستر سال کی عمر میں تھے، پینتیس سال کے اللہ بخش، چالیس سالہ حاجی امیتان، اٹھائیس سال کے داد جان، بیس سالہ سعید اور سولہ سال کے نوجوان نیاز بنگل بھی شامل تھے۔ مقامی لوگوں نے اپنی آنکھوں سے مارنے والوں کو آواران فوجی ہیڈ کوارٹر میں گھستے دیکھا، بعد میں حملے کی زمہ داری مذہبی دہشت گرد تنطیم لشکرِ خراسان نے قبول کرلی ـ
اسی دوران آئی ایس آئی کے اعلٰیٰ عہدیدار عثمان کے زیر فرمان یہ کام ہوئے۔ عثمان بہت سے لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا کر ذکری و نمازی کے نام پر ورغلانے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ حملہ ذکری و نمازی تضاد پیدا کرنے کا منصوبہ تھا، لیکن سیاسی دوستوں کی تربیت، قومی شعور اجاگر کرنے کی وجہ سے آواران میں کوئی مذہبی تعصب موجود نہ تھا۔ آئی ایس آئی کے اس خونی عمل کو سر اُٹھانے نہیں دیا، جو بے سود ہوکر رہے گیاـ
شہید واجہ بختیار باقی شہیدوں کے ساتھ، سید عیسٰی کے چاردیواری کے اندر مادرِ وطن کے دلبند میں سپردِ خاک ہے۔