شہید اکبر خان بگٹی ایک عہد ساز شخصیت – کمال بلوچ

1188

شہید اکبر خان بگٹی ایک عہد ساز شخصیت

تحریر: کمال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

تاریخ کا مطالعہ کیا جائے توکچھ ایسے شخصیات کے نام سامنے آجاتا ہے، جو تاریخ میں عہد ساز کا رکردگی کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کا کردار دوسروں کی رہنمائی کرتا ہے۔ ان کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد راہ راست کا انتخاب کر نے والے اشخاص بھی انمول بن جاتے ہیں۔ انسانیت کی بقا کی خاطرجد وجہد کی طرف گامزن ہوناجیسے فیصلے کرنا آسان نہیں۔کوئی یہ راستہ اپناتا ہے تو وہ یقیناًاعلی کردار کا مالک گردانے جاتے ہیں۔ بلوچ تا ریخ میں تاریخ ساز شخصیات کی کمی نہیں جو اپنے کردار سے قوم کی رہنمائی کرتے رہے ہیں جن کے قول و فعل میں تضاد نہیں رہا ہے۔ ایسے لوگ جو تاریخ میں حقیقی بنیاد پر انسانیت کو سمجھ کر خود کو انسانیت کے سانچے میں لا کر امر ہو ئے ہیں ایسے کردار فخر کے باعث ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کر نے والے لو گ علم اور کردار کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر نہیں ہو تے ہیں۔ اس لئے تاریخی اہمیت میں ایسے لوگوں کے تاریخی فیصلے ان جیسے شخصیات کو زندہ رکھ کے اہم رتبے پر فائز کرتے ہیں۔ ان کا کردار انہیں تا ابد زندہ رکھتا ہے۔ با شعور لوگ راہ راست کی حقیقت سے واقف ہیں مگر معاشرے میں ایسے کرداروں کی بھی کمی نہیں جو اجتماعی عمل کے سامنے رکاوٹ بن کر تاریخ میں منفی کردار کے مالک بن جاتے ہیں۔ اسی لئے تاریخ وہ آئینہ ہے جہاں ہر کسی کے عیب اور اچھے اعمال کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے ۔ کسی کر دار کو انتخاب کرنے سے پہلے فہم و شعور سے فیصلہ کر نا چاہئے تاکہ انکے انتخاب کردہ راہ سے عظیم کام انجام پا سکیں۔ ایسے انسان بھی ہیں جن کا کردار شرمندگی کا باعث ہیں۔ تاریخ کر دار کو زند ہ رکھتی ہے ۔ایسے مصنفوں کی کمی نہیں جو تاریخ کے اوراق میں انصاف نہ کر پائےہیں۔

زرد صحافت کا کردار ہر دور میں پایا جاتا ہے جو character assassination میں ماہرہوتے ہیں۔ حقیقت میں وہ بھی قلم کے ساتھ انصاف نہیں کر پاتے ہیں کیو نکہ وہ تاریخ ساز شخصیات کی کر دار کشی میں کردار ادا کرتے ہیں۔

چے گویرا ،بھگت سنگھ ،کارل مارکس ،ہو چی منھ ،سبھاش چندر بوس ،ابراہام لنکن سمیت ایسے بے شمار لوگ جو جدید تاریخ میں زورآور کے خلاف جد وجہد کی علامت مانے جاتے ہیں۔ اگر کو ئی ظلم و جبر کے خلاف کچھ کر نے کا ٹھان لیتے ہیں، تو ایسے کردار وں کے مطالعہ کیئے بغیر کو ئی بڑااور اہم فیصلہ نہیں کر پاتا ہے۔ ایسے کرداروں کی کمی نہیں جو نا انصافی، سماجی نا برابر ی کو دیکھ کر بغاوت کرتے ہیں انکو پڑھنے اور سمجھنے کے بعداہم فیصلے کر جاتے ہیں جو انسانی روایات کو برقرار رکھتے ہیں۔

بلوچ تاریخ ہمیں سبق دیتی ہے کہ وقت و حالات کی نزاکت کو دیکھ کر ہر دور میں اہم فیصلے شعور ی بنیادوں میں کی گئی ہے۔ ان میں خان مہر اب خان ،بلوچ خان نوشیروانی، حمل جیند ،بالاچ بیرگیر ،دودا ،جد ید دور میں شہید حمید بلوچ کا انسان دوستی کے خاطر راہ مرگ کا انتخاب اور پھانسی کے پھندے کو گلے میں ڈالنا؛ مجید بلوچ ،درویش جان ،ریحان جان نے وہی کام کیئے جو تاریخ بناتے ہیں۔ اپنے ہیروؤں پر فخر کرنا اور ان کے انتخاب کردہ راہ پر چلنا زندہ قوموں کی نشانی ہے کیونکہ جب ہم اپنے تاریخ سے نا واقف رہے، تو خود کو پہچاننے میں مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لئے ہر زندہ قوم کے فرزندوں کو چاہیئے کہ وہ اپنی تاریخ میں ہر کمزوری اور مثبت پہلوکو سمجھیں اور ان لمحات کو یاد کریں، ان انسانوں کی نقش قدم پر چلیں جو فخر کے باعث بنے ہیں۔ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو جلدی دل برداشتہ ہو کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں ( وسعت اللہ خان ایک تحر یر پر نظر گزری جس نے تحر یر کی تھی کی کہیں بنیاد پر ست کمیونسٹ ،سوشلسٹ دوست تو چین کے بدعت اور سوویت یو نین کے ٹوٹنے کے باعث دلبرادشتہ ہو کر کچھ این جی او میں چلے گئے کچھ تبلیغی ہو گئے اور بہت سے کونہ پکڑکے بیٹھ گئے ،تو مارکس کا یہ تجربہ ذہن میں آتا ہے ہر تضاد اسی نظام کے اندر ابھر تاہے )۔

پاکستان کے نا انصافی و جبر کے قانون جو بلوچستان میں موجود ہیں ، یہ انسانی فطرت کے خلاف ہیں۔انسان کو آزاد زندگی گزارنے کا پورا حق حاصل ہے۔ پنجابی نے بلوچ کی بنیادی حق آزادی چھین لی ہے۔ مارچ 1948 کو پاکستان نے بزور طاقت فوجی چڑھائی کی۔ اُس قبضے سے لے کر آج تک یہ تضاد موجود ہے کہ پاکستان بلوچستان میں غیر قانو نی اور غیر اخلاقی بنیادوں پر قابض ہے۔ اسے کو ئی اخلا قی جو از نہیں لیکن وہ طاقت کے گھمنڈ کے ساتھ قابض ہے۔ تاریخ گواہ ہے، بلوچستان کے سُرمئی پہاڑخود گواہ ہیں ایسی گھمنڈ کی تاریخ کو نیست نا بود کر نے کیلئے بلوچ سر بازوں کی کمی نہیں رہی ہے۔اسی لئے پاکستان کبھی اطمینان کے ساتھ بلوچستان میں حکمرانی نہیں کر پائی ہے۔

اس بات کا بلوچ تاریخ گواہ ہے۔ 1948کے بعد بلوچستان سے لو نگ خان مینگل ،سفر خان زہر ی ،نو اب نو روز خان ،اسلم خان گچکی ،مری قبائل ، جنرل شیروف مری، نواب خیر بخش مری ، میر عبد النبی بنگلزئی ،شہید فدا احمد ،اسلم بلوچ ،حیر بیار مری ،ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ،بر اہمدغ بگٹی اور شہید اکبر خان بگٹی پاکستانی قبضے کے خلاف سیاسی اور مسلح بغا وت کر چکے۔ یہ مزاحمت کی علا مت بن چکے ہیں۔ ان میں کچھ شہید ہو کر تاریخ میں امر ہو ئے ہیں اور کچھ ابھی تک بھی تاک میں بیٹھے دشمن کے خلاف مز احمت کر رہے ہیں۔ ان کرداروں میں نمایاں کردار شہید نو اب اکبر خان بگٹی کی ہے، جو اپنی جان کی قربانی دے کر بلوچ مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔ جب 2006 کوشہید اکبرخان نے مز احمت کیلئے پہاڑو ں کا رخ کیا تو انکے ہمراہ بہت بڑی تعدا د میں بلوچ عوام ہمقدم تھا۔ اس دوران جب نواب اکبر خان پہاڑوں میں مورچہ زن تھے تو بلوچستان کے کالجوں ، یو رنیورسٹیوں اور عوام کے اندر عجب سی کفیت مو جو د تھی۔ ہر طبقہ فکر کے زبان میں اکبر خان کی مزاحمت کا ذکر ہو رہا تھا۔ ایسی فضا تھی جیسے کہ کسی بارڈر میں جنگ ہو رہا ہو۔ بلوچستان کے کو نے کو نے میں ریڈیواور ٹیلی ویژن کے ساتھ خبریں سنااور دیکھا جا رہا تھا کہ شہید اکبر خان کیا کہتے ہیں۔شہید اکبر خان کے ساتھ بگٹی قبائل لوگوں کے ساتھ ساتھ مری قبائل کے بلوچ سرمچارتھے۔

جب اکبرخان اور انکے ساتھیوں کے شہادت کی خبر آگ کی طرح بلوچستان سمیت پوری دنیا میں پھیل گئی تو بلوچستان کے کونے کونے سے بلوچ عوام نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔ پاکستان کی جیلیں بھر گئیں اور عوامی ری ایکشن شدت اختیار کرتا گیا لیکن اس موب کو نام نہاد قوم پر ستوں نے اپنے حق میں بہت خوب استعمال کیا۔یہ سوال اُس وقت سے لے کر اب تک میرے ذہن میں موجود ہے۔ مضبو ط پارٹی نہ ہو نے کی وجہ سے اسے بہترین انداز میں شعوری بنیادوں پر آگے نہیں لے جا یا گیا۔ اس کمی کو میں آج بھی محسوس کر رہا ہو ں۔ جذباتی بنیادوں پر نہیں شعوری بنیادوں پر موجودہ سیاسی حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بلوچ قوم کس طرح کی حالات سے دو چار ہے ،کس طر ح در پہ دری کی زندگی گزرنے پر مجبو ر ہے، کیا ہم اس نو عیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں؟

بلوچ جد وجہد کو ناکامی دشمن کی جبر صورت میں کبھی نہیں ہو گی۔ جد وجہد کو کو ئی طاقت کے زور پر ختم نہیں کر سکتا۔ خد ا نہ کر ے اگر ناکامی سے دوچار رہے تو وہ اس دفعہ لیڈر شپ کی وجہ سے ہو گا جو دور اندیشی کا مظا ہر ہ نہیں کر پاتے ہیں۔ انسر جنسی کو ختم کر نے کیلئے ریاست ہر طرح کا عمل کر سکتاہے کیو نکہ انکے بقا کا مسئلہ ہے۔ افغا نستان اور عراق کی جنگ پرلکھی گئی کاؤنٹر انسر جنسی کا مطالعہ کر رہاتھا کہ اُس میں لکھا تھا جب آپ کسی جد وجہد کو کا ؤنٹر کرتے ہوں وہاں70افراد میں 50کو قتل کر تے ہیں مگر انکی مزاحمت کو ختم نہیں کرتے کیونکہ 50کی جگہ 500لوگ نئے بھر تی ہو جاتے ہیں۔ انکو ختم کر نا ہے تو جڑ کو ختم کر یں یعنی انکا عوام سے رابطہ ختم کر یں۔ انکو دفاعی پو زیشن میں لے جائیں جسے جنگی زبان میں heart and mind operationکہتے ہیں۔ اس وقت بلوچستان کی صور ت حال یہی ہے۔ بلوچستان میں heart and mind operationکا سلسلہ جاری ہے لیکن بلوچوں کی طرف سے اس کو کا ؤنٹر کر نے کا طریقہ کمزور دکھائی دیتی ہے ۔میں سب سے بڑی کمزوری یہ سمجھتا ہوں بلوچ تنظیموں کے درمیان ذہنی ہم آہنگی نظر نہیں آتی ہے۔ ایک بہت بڑا تضاد بلوچ پارٹیوں کے درمیان مو جود ہے۔ ایسے سوالا ت بہت سے لو گو ں کے ذہنو ں میں مو جود ہیں۔ نواب اکبر خان بگٹی سنگل پارٹی کا مشورہ دیتے تھے، تو ایک سیاسی کا رکن کی حیثیت سے حیر بیا ر مری ،ڈاکٹر اللہ نظر بلو چ،استاد اسلم بلوچ ،براہمدگ خان بگٹی،جا وید مینگل سے اکبر خان شہادت کے دن کی منا سبت سے اپیل کر تا ہو ں کہ اپنی غلیطوں اور کوتاہیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قومی مفادات کے خاطر اپنے درمیان اعلی سطح پر ایک بات چیت کی شروعات کر یں تاکہ ایک ذہنی ہم آہنگی پیدا ہو اور ہم کم از کم آزاد بلوچستان کے ایجنڈے کے نقطے پر اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔

بقول کم ال سنگ ، قومی آزادی کی جنگ میں ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو ساتھ ملانا چاہیے۔ جو آپ کے قوم سے تعلق رکھتے ہوں انکو ساتھ لے کر جانا ہی کامیابی کی سیڑھی مانا جاتا ہے۔ ہمارا لیڈر شپ اپنی انا کے قتل کرنے کیلئے تیار نہیں تو سوالا ت کے انبار سامنے آجاتی ہیں۔

کہتے ہیں کہ مضبو ط نظریہ کے ساتھ بہترین تنظیم اور اچھی ذہنی ہم آہنگی کامیابی کا ضامن ہو تا ہے۔ بلوچ لکھاریوں اور سیاسی کا رکنوں کو چاہیے کہ بلوچستان میں ماحول سازگاری کے لئے وہ 26اگست کے تاریخ ساز دن کی مناسبت اور تاریخ ساز شخصیت اکبرخان بگٹی کی شہاد ت کی منا سبت سے اپنا قلم ایمانداری سے استعمال کرکے اپنا فرض نبھائیں ۔