سراج رئیسانی اور ڈیتھ اسکواڈ
تحریر: چاکر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج میں نے کوشش کی ہے کہ سراج رئیسانی کا اصل چہرہ عوام کے سامنے پیش کر سکوں، سراج رئیسانی نواب غوث بخش رئیسانی کے بیٹے اور سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کے چھوٹے بھائی تھے۔ اگر اس خاندان کو دیکھا جائے، یہ بلوچ قوم کے کبھی خیرخواہ نہیں رہے ہیں۔ انہوں نے رند اور رئیسانی اقوام کے لڑائی میں کثیر تعداد میں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ یہی رئیسانی خاندان کے بیٹے اسماعیل رئیسانی، جو سراج رئیسانی کے بڑے بھائی تھے، نے نواب اکبر خان بگٹی کے فرزند سلال بگٹی کو سریاب روڈ پر قتل کردیا۔ اسی طرح انکے دو کزن سلار ڈومکی اور دینار ڈومکی جو سردار چاکر خان ڈومکی کے بیٹے تھے، وہ بھی اسی طرح کے ایک حملے میں زندگی کی بازی ہار گئے۔
2008 کے عام انتخابات میں نواب اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ منتخب ہوئے، تو سراج رئیسانی کی غنڈہ گردی عروج پر پہنچ گئی، ریاست نے وہاں سرزمین جھالاون پر شفیق مینگل کو ڈیتھ اسکواڈ کا سربراہ مقرر کر رکھا تھا اور یہاں ساروان میں سراج رئیسانی کو ڈیتھ اسکواڈ کا سربراہ مقرر کرکے تحریک آجوئی کے راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی اور سراج رئیسانی اغوا برائے تاوان، چوری، ڈکیتی کے وارداتوں میں سرگرم تھے۔ سراج رئیسانی نے ریاست کے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیئے سراوان یوتھ فورس کے نام سے ایک تنظیم بنا رکھا تھا، جس کا کام بلوچ نوجوانوں کو ڈسٹرب کرنا تھا۔
2011 میں سراج رئیسانی کو مستونگ اسٹیڈیم میں نشانہ بنایا گیا، جس میں سراج رئیسانی کے بیٹے اکمل رئیسانی مارے گئے اور اسی واقعے میں سراج خود زخمی ہوئے تھے، اس حملے کی ذمہ داری بلوچ عسکریت پسند تنظیم بی ایل ایف نے قبول کی۔
سراج رئیسانی نے اس حملے کے بدلے مستونگ میں موجود بی ایس او آزاد کے ذمہ داران طارق بلوچ، محمود بلوچ، حامد بلوچ اور لطیف بلوچ کو ایک ہی دن میں شہید کردیا اور ان کے خاندان کے لوگوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ سراج رئیسانی اس کے بعد تھائی لینڈ چلے گئے، جہاں کافی عرصے رکنے کے بعد واپس آئے اور آتے ہی بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہو ئے اور مستونگ سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔
13 جولائی کو سراج رئیسانی الیکشن مہم کے دوران ایک جلسے میں خودکش دھماکے میں جہنم رسید ہوگئے، سراج رئیسانی کی ہلاکت کی خبر سن کر لوگوں میں ایک خوشی کی لہر دوڑ رہی تھی نا جانے کتنی ماؤں کا کلیجا ٹھنڈا ہوا، جنہوں نے سراج رئیسانی کے ہلاکت کی خبر سنی ہوگی۔