ریحان! جنگ جاری رہیگی – نُغرا بلوچ

401

ریحان! جنگ جاری رہیگی

نُغرا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ریحان تمُ تو جانتے ہو مدتوں سے یہ غلام قوم خوشیوں کو ترستی ہے، خوشیوں کی خفیف سی مقدار بھی انہیں جشن منانے کو ملتی ہے تو منا لیتے ہیں، آج غلام قوم ہوکر بھی ہم 11 اگست کو بطور یوم آزادی مناتے ہیں، تاکہ ہمیں اُس لطف کا اندازہ ہو جو ہمیں آزادی کے بعد ملے گی اور ہم اپنے دشمن کو یاد دلائیں کہ ہم اس کے بننے سے پہلے بھی غلام تھے، مگر آزاد ہوگئے ایک دن پھر تیرے ستم سے بھی اُبھر آئینگے۔

آج بھی 11 اگست کا دن تھا ریحان، جشن منانے کا دن ۔۔۔ ہم نے تیاری کی ہوئی تھی کہ ہم جشن مناینگے، مگر پھر تمہارے بچھڑھنے کی خبر آئی، دل شکستہ ہوگیا، دماغ پہ سکتہ چھا گیا، ہم جشن کیسے مناتے آج کے دن؟ ہم نے ارادہ ترک کردیا مگر، تھوڑی دیر کہ بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہم جشن منایئنگے، اس قوم کی خاطر جس میں تم جیسے جوان جنم لیتے ہیں، اُس قوم کا حق ہے کہ وہ جشن منائے، جس کے لیئے تم نے یہ تاریخی فیصلہ لیا۔

ریحان جب تمہاری پہلی تصویر شائع ہوئی،” ایک معصوم نوجوان جس کی آنکھوں میں موت کا خوف نہیں بس ایک تجّسُس دکھ رہا تھا کہ میرے اس فیصلے کہ بعد میری قوم میں کتنے سوئی اُمیدیں جاگ جائینگے؟ کتنے جوانوں کی تھکن اُتر جائے گی؟ میرا دشمن کتنا خوف زدہ ہو جائےگا؟

ریحان اس قوم کی بزگی، اس قوم پر دشمن کا ارش، اس قوم کی گھٹن میں گذرتے ہر سانس سے تم واقف تھے، تبھی شائد تُم نے صرف 12 سال کی عمر میں فیصلہ کرلیا تھا کہ تم فدائن بن رہے ہو۔ کامریڈ آج تم نے وہ تمام زبانیں خاموش کردیئے جو بلوچ قوم کے لیڈر شپ پر سوال اُٹھاتے تھے، تم نے ُان سب کو چُپ کرادیا جو ان تحاریک کی پُختگی کو پرکھتے تھے۔ آج وہ سب چُپ ہیں بلکل چُپ، شائد وہ حیران ہیں یا پھر پریشان، مگر وہ سب چُپ ہیں۔

جب تُمہارے دوستوں سے تُمہارےمتعلق پوچھا، تو وہ فخریہ انداز میں تُمہارا ذکر کر رہے تھے کہ ہاں ہم ریحان کے دوست ہیں، ہم اُس شخصیت کے دوست ہیں، جو نہایت کم عمری میں ہی اپنے تمام تنظیمی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دے رہا تھا، ایک عظیم رہنما کے گھر میں پیدا ہونا، تمہارے اس مقام تک آنے کا باعث نہ بنا بلکہ وطن سے محبت اور جزبہ تمہیں یہاں تک لے آیا۔ ریحان تُم نے اس معاشرے میں قائم کردہ روایات کا گلا گھونٹ ڈالا، یہ وہ معاشرہ تھا جہاں پدری نام پہ لوگ راج کے خواہاں ہوتے ہیں، مگر اس کے بر عکس تم انے اپنا تقدیر اپنے دم پہ لکھنا چاہا، تم نے اپنے فیصلے اپنے محبت کے حق میں کیئے۔

جنگ یقیناً ایک مُشکل چیز ہے، معاشرے کا ہر فرد اسے سہنے کی سکت نہیں رکھتا اسے چلائے رکھنے کی ہمت نہیں رکھتا، جنگ زدہ علاقوں میں ہر گذرتا دن کئی امیدیں توڑ دیتا ہے، دشمن کا ہر ضرب ایک گہرا نشان چھوڑدیتا ہے، ہمارے ساتھ بھی یہی چل رہا ہے، یہاں بھی کئی اُمیدیں بنتے ہیں تو کہیں ٹوٹتے ہیں، مایوسیاں یہاں بھی ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں، مگر تمہارے آج کے قربانی نے پھر سے کئی اُمیدیں زندہ کردیں ، ہاں کئی امنگیں پھر سے جاگ اُٹھیں ہیں کہ اس قوم میں اب تک تم جیسے لوگ موجود ہیں، جو جنگ کی ابتدا پھر سے اسطرح کر سکتے ہیں کہ دشمن کانپ اُٹھیں، اور تم نے ایسا ہی کیا ، ایک ایسے جنگ کی ابتدا کی کہ دشمن جسکے تاک میں بھی نہ تھا۔

ریحان تم نے صحیح کہا ہے کہ “میرے دوست اس مایوسی کو توڑنے کے لیئے ہمیں اپنے سروں کی قربانی دینی ہوگی” ہاں کامریڈ یہں مایوسی آج ہمارے لوگوں کے تھکنے کا سبسب بن رہی ہے، اس مایوسی کا ٹوٹنا اشد ہے اور اس کے لیۓ تمہارا یہ قدم بلوچستان کی رہتی تاریخ تک یاد رکھا جائے گا۔

ایک اور عکس تمہارا سامنے آیا ایک ایسی تصویر جو میں آنکھیں بند کر کے بھی اپنے سامنے پا رہی ہوں ، ایک شخص تمہارے سر پہ بوسہ دیا رہا ہے، آہ! میں کون سمجھوں اُس شخص کو؟ ایک لیڈر جو اپنے سپھائی کو جنگ پہ بھیج رہا ہو اور دُعائیں دے رہا ہے کہ تمہیں فتح نصیب ہو؟ یا ایک باپ جو اپنے وطن کی آجوئی کے لیئے دعا گو ہو جس کے لیئے انکا لخت جگر قربان ہونے جا رہا ہو؟ میں نے اس تصویر میں ایک داستان دیکھ لی، جسکا عنوان اور اختتام ایک ہی تھا” مادر وطن سے محبت سےآگے کسی محبت کا وجود نہیں”۔ اس جنگ آزادی میں ہر کردار ایک سبق لکھ کر جا رہا ہے، تُم نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا، ایک ایسا سبق سکھایا کہ اب زندگی کوئی امتحان لے لے ہم یہ نہ کہیں گے کہ یہ زیادتی ہے۔

بقول شہید غلام محمد کے کہ ہم نے خود اس جنگ کی ابتداء کی ہے، یہ جنگ ہم پر دشمن نے مسلط نہیں کیا، ہم خود اس جنگ کو جاری رکھنے کے خواہاں ہے” واقعی یہ جنگ لازمی ہے کیونکہ ہم غلامی کے اُس جنگ کو نہیں سہہ سکتے، جو یکطرفہ خاموش جنگ ہے۔ جہاں صرف آقائی فریق غلاموں کو اس طرح ختم کر دیتے ہیں کہ انکی تاریخ تک مٹ جاتے ہیں، اس لیئے اس جنگ کی ضرورت ہے، جو دو بدو ہو۔ جہاں چپ کرکے زندہ رہنے سے بہتر ہے، مزاحمت کرکے موت کو قبول کیا جائے، یہ وہی جنگ ہے ریحان، یہاں مزاحمت کا دوسرا نام آزادی ہے، اپنے غلامانہ سوچ سے آزادی اور اس جنگ کے آگ کو بجھنے نہ دینا ہی کامیابی ہے، آج پھر سے تم نے اُس ہوا کا کام کیا ہے، جو آگ کے شعلوں کو روح بخشتی ہے، جو اسے پھیلنے کی قوت دیتی ہے، تم نے بھی وہی کیا۔

وہ ویڈیو پیغام بھی ایک للکار تھی دشمن کے لیئے، کہ دیکھ لو تم سے تمہارے گمان کے آگے لڑنے والے لوگ موجود ہیں، وہ موت جس سے ڈراتے ہو، ہمیں تم پر خود قہر بن کر برسنے والے ہیں۔ اُس ماں کے لیئے میرے الفاظ کبھی کافی نہ ہونگے میں لکھ بھی نہ پائونگی اُس جذبے کی قدر جس جزبے سے وہ تُمہیں بیرک اوڑھتی ہے، تُم ان سے کہتے ہو ماں دل چھوٹا نہ کرنا۔۔۔ دل کیسے چھوٹا ہوسکتا ہے اُس ماں کا، آخر اُسی کوکھ نے تم جیسے لال کو جنم دیا ہے، وہ دل ہر گز چھوٹا نہ ہوگا بلکہ اُسکے سامنے آج مُجھ جیسے خود کو چھوٹا محسوس کر رہے ہیں کہ ہم نے کبھی ایسے سوچنے کی بھی سکت نہ رکھی۔

یہ جنگ جاری رہیگا، ریحان ،جب تک یہاں یہ سوچ زندہ ہے، جب تک یہاں غلامی سے بیزاریت زندہ ہے، جب تک یہاں مادر وطن سے محبت زندہ ہے، جب تک یہاں ایسے اولاد زندہ ہیں، جب تک یہاں ایسی مائیں زندہ ہیں، جب تک یہاں ایسے قائد زندہ ہیں، جب تک یہاں آخری بلوچ زندہ ہے، یہ جنگ جاری رہیگا، آزادی کے حصول تک۔