رہتی تاریخ میں شہداء ہی امر ہوتے ہیں
تحریر: کمال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ جدوجہد آزادی کی تحریک بلوچوں کی قربانیوں کی بدولت آج دنیا میں زیر بحث ہے۔ بلوچستان ایک ایسی سرزمین ہے جو اپنی جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔ بلوچستان ایک وسیع و عریض سمندر کا مالک ہے۔ بہت سے ممالک اس سمندر ی راستے کے ذریعے سرمایہ کا ری کرنے جا رہے ہیں۔ عالمی طاقتوں کی نگاہ اکثر اس آبی گذرگارہ پر ٹکی رہتی ہے۔ لیکن بلوچ کی تا ریخ گواہ ہے کہ انہوں نے جنگیں لڑی ہیں، بیش بہا قربانیوں دیں ہیں، مگر کبھی بھی کسی زور آور کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ سرزمین کے رکھوالوں نے ہر دور میں رضاکارانہ جہد کرکے مادر وطن کی دفاع کی ہے۔ وطن سے محبت بلوچوں کی رگوں میں شامل ہے۔ وطن سے محبت کا اندازہ بلوچوں کی تاریخ جو شاعروں کی زبان اور عاقلوں کے اقوال دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ’’وائے وطن ہشکیں دار‘‘ جیسے بتل یا قول شاید ہی کسی قوم اور زبان نے تخلیق کی ہوں۔ ہم دور نہ جائیں بلکہ آج کی شاعری پر ایک نظر دوڑائیں تو اس میں بھی وطن سے محبت کا اظہار نمایاں ہے۔ مرحوم واجہ غلام حسین شوہا ز کی شاعری پڑھ لیں جو وطن سے دور رہ کر وطن کی شان میں شاعری کرتے ہیں۔ انہیں بلوچستان کی چھوٹی چھوٹی بستیوں کا فکر رہتا ہے اور وہ کئی ایسی جگہوں کا نام لیکر اظہار اور لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں۔
بلوچ شہدا کی قربانیو ں کا ذکر کریں تو خان مہراب خان اور اُس کی بہن کا ذکر نہ ہو تو بات مکمل نہیں ہو تی ہے۔ خان محراب خان کے الفاظ کہ ’’اگر ہم انگر یز کو شکست نہیں دے سکتے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہم ضمیر فروش بن کر دشمن کے سامنے سر جھکا کر موت قبول کریں، ہم مرکر پیغا م دے سکتے ہیں کہ فتح اور شکست جنگ کا حصہ ہیں اور یہ شا ن اورغیرت کیلئے بھی لڑی جاتی ہے۔” مہراب خان وطن کی شان، بلوچ ننگ و ناموس کیلئے شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہو ئے۔ تا ریخ میں اُسے عظیم مقام حاصل ہے، جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیگی۔ اُس وقت یہ بات بھی سامنے آچکا تھا کہ انگر یز فوج جدید ہتھیا روں سے لیس ہے۔ مگر محراب خان کا حوصلہ اور فلسفہ قربانی جنگ جیت چکا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’میں حوصلے کی خاطر جنگ لڑ رہا ہوں تاکہ میری آنے والی نسل اپنی بقا کی جنگ کو آگے لے جائیں ناکہ جنگ سے دور بھاگ کر ضمیر کے ہاتھوں موت قبول کر یں‘‘۔ بلوچستان کے سر زمین میں ایسے فرزند آج بھی جنم لے رہے ہیں جو صر ف اس فلسفے کو لے کر جد وجہد آزادی کے ہمسفر رہے ہیں کہ ’’ہم ایک دن فتح ضرور حاصل کریں گے، اسی لئے ہم جنگ میں اپنا حصہ ادا کر رہے ہیں تاکہ آنے والی نسل کیلئے آسانی پیدا کر سکیں۔‘‘
بلوچ تاریخ میں ایک شخصیت اور موجودہے، جس نے جدید دنیا کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر جدوجہد کو آگے لے جانے کی کوشش کی۔ اگر ہم ان پر چھوٹی سی نظر دوڑئیں تو ہم یو سف عزیز مگسی کو پائیں گے، جو بلوچ کے جدید نیشنل ازم کے بانی قرار پا چکے ہیں۔ وہ ایک مضبوط سیاسی جدوجہد کا داغ بیل ڈالتے ہیں، جو انجمن اتحاد بلوچاں کے نام پر دنیا کے تمام بلوچوں کو یکمشت کرنے کی جد وجہد تھی، مگر وقت نے ساتھ نہیں دیا اور وہ جلد ہی یعنی 1935کے تباہ کن زلزلے میں کوئٹہ میں شہید ہوگئے۔ آج وہ ہر ایک کیلئے مشعل راہ ہیں۔ ساتھ ہی بلوچ نو جو انو ں نے 1931میں بلوچ اسٹو ڈنٹس ایسویشن کا کو ئٹہ کے سنڈیمن سکول میں بنیاد رکھی، جس نے آہستہ آہستہ تر قی کر کے 1965میں بلوچ اسٹو ڈنٹس آرگنائزیشن کے شکل اختیار کی جو ایک مکمل سیاسی اور انقلابی سوچ رکھنے والی آرگنا ئز یشن رہی۔
ایک اور بات بھی سامنا آتا ہے کہ 1931اور 1965کے درمیان برصغیر میں جو تبدیلی رونما ہوئی تھی خاص کر متحدہ ہندوستان تقسیم ہوکر دوحصوں میں بٹ گئی۔ ایک حصہ پاکستا ن کے نام پر وجود پزیر ہوا، دوسراہند وستان جو مو جودہ ہند وستان ہے۔ اس دور میں بلوچستان آزاداور خو دمختار ریا ست کے طو ر پر دنیا کے سامنے وجود رکھتا تھا لیکن اس آزاد اور خود مختار ملک پر نومولودہ مملکت خداداد پاکستان نے قبضہ کیا، جو تاحال قبضے میں ہے۔ اس چھوٹی سی داستان کے ذکر کامقصد یہ ہے تاکہ بات کوسمجھنے میں آسانی ہو۔
ہم بی ایس او کا ذکر کر رہے تھے 1965کو بی ایس او ایک سیاسی سوچ کے ساتھ اپنی قومی آزادی کی جدوجہد کے لئے پیش پیش رہا۔ اس بارے میں بی ایس او کی اُس وقت کی قیاد ت حکیم بلوچ ،صورت خان مری ،ڈاکٹر نعمت گچکی سمیت دیگر رہنماؤں نے اظہا ر کر چکے ہیں مگر بد قسمتی یہ ہے اسے کوئی بھی آج تک لکھ کر کتابی صورت میں تاریخ کا حصہ نہیں بناسکا ہے۔
اس پس منظر میں جانے کا مقصد انتہائی آسان ہے۔ ہم ایک ایسے نوجوان کا ذکر کر نے جا رہے ہیں، جو بی ایس او کے سیاست سے جنون کی حد تک وابستہ تھے۔ اگر ہم یہ کہیں یو سف عزیز مگسی کی طرح نو جو انوں میں سیاسی جدوجہد کی اہمیت کو پھر سے اجاگر کیا تھا، تو غلط نہیں ہو گا۔ وہ اپنی مختصر سے سیاسی سفر میں پورے بلوچستان کے نو جوانوں کو متاثر کر گئے۔ ہم اُس نو جو ان کو جاننے سے پہلے یہ دیکھیں کہ یہ وہی وقت تھا، جب بلوچستان میں آزادی کی جدوجہد کیلئے پھر سے نو جو ان اپنے گھروں سے نکل چکے تھے۔ بی ایس او کی سابقہ اور مو جودہ قیادت کو کر اچی سے پاکستانی فوج نے اغواء کیا تھا۔ ان رہنماؤں میں ڈاکٹر اللہ بلوچ بھی شامل تھے۔ ہم یہ کہیں کہ بلوچستان میں ایک دفعہ پھر آزادی کی پکار نوجوانو ں کی لبوں پر زوروں سے موجود تھا، اُس آزادی کی پکار کیلئے نو جواں خو د کو قربان کرنے میں پیش پیش تھے، مقصد بہت ہی آسان ہے، اس جد وجہد کو آگے لے جانے کے لئے یہ وہی فلسفہ ہے، جسے خان مہر اب خان نے اپنا یا تھا۔
ہم اُس نو جوان کا ذکر کررہے ہیں، جو بی ایس او کے سابقہ سیکریٹری جنرل تھے، رضاجہا نگیر ۔۔۔۔ شہید رضا جہانگیر۔ آزادی کے علم کی شمع کو جلا نے کیلئے دیو انہ وار گلی، کوچوں اور گاؤ ں گاؤ ں میں یہ پیغا م پہنچایا لیکن وقت نے ساتھ نہیں دیا۔
14اگست 2013کو تربت آبسر میں اُسے اور بی این ایم کے ریجنل لیڈر امداد بجیر کو پاکستانی فوج نے گھر پر بمباری کرکے شہید کردیا۔ شہید رضا جہا نگیر ایک محنتی سیا سی کا رکن کے ساتھ ساتھ آواران کے شاعروں میں ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ ایک بہترین ملنساردوست بھی تھے، جسے بچھڑے ہو ئے 5سال بیت چکے ہیں، لیکن انکی کمی کا احساس آج بھی مجھ جیسے سیاسی کارکن کو شدت کے ساتھ محسوس ہوتا ہے۔ رضا جہانگیر بی ایس او کے سابقہ و ائس چیئرمین اسیر ذاکر مجید ،اور شہید سہراب مری کی سیاست اور محنت سے کافی متاثر تھے۔ میں اس بات کا ماننے والا ہو ں کہ شہید امر ہو جاتے ہیں لیکن انکی کمی کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔ جدوجہد میں کامیابی کیلئے قربانی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن کسی کی کمی کو کوئی اور پورا نہیں کرسکتاہے۔ ہر ایک فرد منفر د صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔ اس لیئے ہر سیاسی کا رکن کو چاہیئے کہ وہ جدوجہد میں کامیابی اور کامرانی کے لئے اپنی حفاظت کرے۔ یہ بھی ایک قومی فریضہ ہے۔
دی بلوچستاں پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔