دو قومی نظریہ یا پھر؟ – بالاچ بلوچ

500

دو قومی نظریہ یا پھر؟

تحریر: بالاچ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

پاکستان دو قومی نظریئے کے بنیاد پرہندوستان توڑ کربنایا گیا، یہ کہا گیا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں اور وہ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ پھر پاکستان بنایا گیا اور اس میں وہ علاقے شامل کیئے گئے، جہاں مسلمان اکثریت میں تھے اور ہندو نہ ہونے کے برابر تھے۔ وہ علاقے جہاں مسلمان اور ہندو دونوں اقوام آباد تھے، وہ انڈیا کے حصے میں آئے۔ اب بندہ قاصرالبیان ہے کہ کن مسلمانوں کو ہندو سے خطرہ تھا؟ انکو جو اپنے علاقوں میں اکثریت میں تھے یا وہ جو ہندوؤں کے ساتھ رہ رہے تھے؟

پاکستان بنتے ہی، ہندوؤں کے علاقوں میں آباد مسلمان اپنے ہی ملک میں اقلیت میں تبدیل ہوگۓ اور لاکھوں لوگ مسلمان اور ہندو دونوں قتل ہوئے۔ گویا دو قومی نظریئے کا مطلب یہ کہ مسلمانوں کو تقسیم کرو اور کمزور کرو اور ان پر غیر مسلموں کو قابض کرو۔ اب اگر کسی کو اسلام سے خارج ہونا ہے (بمطابق پاکستانی ملاؤں کے) تو وہ یہ کہے کہ پاکستان کا مطلب لاالہ الی اللہ نہیں بلکہ اسکا مطلب ھے کہ اسلام کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا۔ اگر انہی پاکستانی ملاؤں سے شیعاؤں کے عقیدے کے بارے میں پوچھو تو جواب آئےگا کہ انکا اسلام سے تعلق نہیں۔ پھر جب ان سے یہ پوچھوگے کہ پاکستان بنانے والے جناح تو شیعہ تھے، پھر پاکستان کیسے اسلامی ملک تھا؟ تو جواب آئےگا کہ آپ “را” کے ایجنٹ ہیں، آپ کا اسلام سے تعلق نہیں۔

اب بندے کو یہ بات سمجھنے میں دشواری ہورہی ہے کہ مولانا طارق جمیل اور مولانا منظور مینگل میں سے کون سچا ہے اور کون جھوٹا کیونکہ مولانا طارق جمیل اپنے ایک تقریر میں کہتا ہے کہ جناح میرے خواب میں آئے اور اس نے کہا کہ میں قبر میں آرام اور سکون سے ہوں یعنی جنت میں ہوں۔ لیکن دوسری طرف مولانا منظور مینگل اپنے ایک تقریر میں کہتا ہے کہ جناح شیعہ تھا اور شیعہ کافر ہے اور یہ دونوں پاکستان کے بڑے علماؤں میں شمار کیئے جاتے ہیں۔

اگر آپ کو اپنے لیئے جہنم کا سرٹیفکٹ (پاکستانیوں کی طرف سے) جاری کروانا ہے، تو صرف یہ کہیں کہ جنرل سر فرینک والٹر میسر وی اور جنرل ڈگلس گریسی مسلمان نہیں تھے اور وہ پاکستان کے پہلے اور دوسرے آرمی چیف تھے۔ اب ایک ملک کے فوج کے سربراہ اگر غیر مسلمان ہوں، تو وہ ملک کیسے اسلامی ہوسکتا ہے، چونکہ پاکستان کے اس ”دو قومی نظریئے اور اسلام کو اپنا جاگیر سمجھنا” کے پالیسی نے لاکھوں لوگوں کا قتل عام کیا اور انکے مال و دولت لوٹ لیئے، لہٰذا اب اگر کوئی کسی ضدی بچے کی طرح جاہل بن جائے اور اس ملا سے یہ سوال کرے کہ بلوچستان پر پاکستانی قبضے کا کیا جواز ہے۔ تو جواب آئے گا کہ مسلمان بھائی بھائی ہیں اگر یہ سوال بھی کروگے کہ بھائی کے مال و دولت کو لوٹنے کا کیا جواز ہے؟ تو جواب آئےگا کہ آپ کو اسلام نہیں مال و دولت چاہیئے آپ اسلام سے خارج۔

ناکو شمبے کا بیٹا حمل اتنا زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھا لیکن وہ مطالہ بہت کرتا تھا اور جب اسکے دوست آتے اور وہ آپس میں بیٹھ کر مجلس و دیوان کرتے تو اسکا بوڑھا باپ بھی اس مجلس میں آکر بیٹھ جاتا لیکن وہ باتیں جو اسنے یہاں سنے اور سمجھے تھے وہ ان باتوں کے بالکل برعکس تھے، جو اس نے مسجد کے ملا سے سنے تھے، جو کسی دوسرے علاقے کا تھا اور اس مسجد کا پیش امام تھا۔ چنانچہ ناکو شمبے نے ارادہ کیا کہ ملا سے اس بارے میں ضرور پوچھونگا۔

جب ناکو ملا سے ملا تھا اسکا اگلا سوال یہ تھا کہ بلوچوں کی جنگ جائز ہے کہ نہیں تو تو ملا نے جواب دیا کہ “اسلام میں اپنے خلیفے کے خلاف ہتھیار اٹھانا اور لڑنا فتنہ و فساد ہے۔”

ناکو کا دماغ سوالوں سے بھرا پڑا تھا۔ اس نے سوال کیا کہ خلیفہ کی تعریف کیا ہے؟ تو جواب آیا کہ “جسے لوگ منتخب کریں اور اپنا حکمران بنائیں۔” اب یہ سوال تو ایک عام بندہ بھی پوچھےگا کہ پاکستان کو بلوچوں نے تو اپنا حکمران نہیں بنایا ہے، وہ زبردستی اور طاقت کے بل بوتے پر حکمران بنا ہے تو ملا نے ناکو شمبے سے کہا کہ ابھی نماز کا وقت ہے نماز کے بعد بات کرینگے۔

ناکو شمبے نے یہ ارادہ کیا تھا کہ کچھ بھی ہو آج ملا سے ہر سوال کا جواب طلب کرونگا۔ نماز کے بعد اسنے دوبارہ سوال کیا کہ مجیب الرحمان کو جب عوام کے اکثریت نے منتخب کیا تھا، تو اسکو پاکستانیوں نے نہیں مانا اور بنگالیوں کا قتل عام شروع کردیا اور عورتوں کا ریپ کیا۔ اسکا کیا جواز ہے؟ تو ملا نے جلدی جلدی میں کھا کہ کل میں چار مہینے کے لیئے جارہا ہوں اور واپس آکر آپ کے سارے سوالوں کا جواب دونگا۔ اگلے دن ناکو شمبے کا بیٹا حمل اغوا ہوتا ہے اور ایک ہفتے بعد اسکی مسخ شدہ لاش پہاڑوں کے درمیان، بہتے دریا کنارے مل جاتی ہے اور جیب سے ایک پرچی مل جاتی ہے، جس پہ لکھا تھا کہ انڈیا کے ایجنٹوں کا یہی حال کرینگے۔۔۔