خدا رحم عرف چکو کا سیاہ کردار
تحریر: کوچال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ بلوچستان کے ماضی کے حالات کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ جن علاقوں میں عوام کے اندر برابری اور اور معاشی استحکام کا احساس پیدا ہوا ہے، وہاں عوام آزادی کی تحریک کی جانب زیادہ مائل رہیں ہے۔ اسی لیئے ہمیشہ ریاستی کاوشیں رہیں ہیں کہ عوام کو مزید پریشانیوں اور عدم استحکام کی طرف دھکیلیں اور انکا معاشی، ذہنی، اور ثقافتی قتل کریں تاکہ وہ راستے سے ہٹ جائیں۔
تاریخ گواہ ہے 1839 میں جب انگریز سامراج نے بلوچستان پر قبضہ کیا۔ تو سب سے پہلے شہید محراب خان بلوچ نے اپنے ساتھیوں سمیت انگریز سامراج سے دو بدو جنگ کرکے شہید ہوئے۔ شہید محراب ودیگر ساتھیوں کی شہادت ایک علاقے تک محدود نہیں تھے، بلکہ وہ پورے بلوچستان کے لیئے تھا، جن کا مشن آج بھی جاری و ساری ہے۔ شہید محراب ودیگر ساتھیوں کے شہادت نے ثابت کردیا کہ وطن ہمارا ہے، ہمارا تھا، اور ہمارا رہے گا۔ آج اگر بلوچ نوجوان اس مقدس تحریک سے وابستہ ہیں، تو وہ شہید محراب ودیگر ساتھیوں کے شہادت کے مرہونِ منت ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح رخشان کے لوگوں نے بھی اپنے آباو اجداد کے نقشِ قدم پہ چلنے کیلئے سر پر کفن باندھا ہوا ہے۔
رخشان بیلٹ میں شامل نوشکی، چاغی، خاران، واشک بسیمہ و دیگر چھوٹے چھوٹے علاقے شامل ہیں۔ جیسے ہی بلوچ تحریک آزادی نے رخشان میں سر اٹھانا شروع کردیا، ذہنی طور شکست خور ریاست نے بھی اپنے حقیقی چہرے سے نقاب ہٹا کر، اپنے مکروہ و پرفریب اعمال کے ذریعے تحریک کو پیچھے ہٹانے کیلئے سرگرم ہوگیا۔
ریاست کی طرف سے تشکیل کردہ مختلف ڈیتھ سکواڈ بلوچ آزادی کی تحریک کو نقصان دینے کیلئے اپنے ناپاک حرکتوں کو سرانجام دے رہے ہیں۔ انہیں ڈیتھ سکواڈوں کے تشکیل کیلئے ریاست نے بہت سے علاقوں میں قبائلی نام نہاد سرداروں کو خرید کر ان کے ذریعے انہی ڈیتھ سکواڈوں کو چلانے کا منصوبہ بنایا۔ مثال کے طور پر مسلح دفاع، متحدہ محاذ ، حق نا توار وغیرہ وغیرہ۔
خدارحم عرف چکو کی ریاست کے ساتھ جان پہچان ابتدائی طور پر نام نہادعیسیٰ زئی قومی تحریک کےذریعے ہوئی۔ جی ہاں! یہ وہی عیسیٰ زئی قومی تحریک ہے، جس نے خدارحم عرف چکو کو زمین سے آسمان تک پہنچا دیا۔
کہا جاتا ہے خدارحم نے اپنے دیگر کارندوں کے ذریعے عیسیٰ زئی قومی تحریک کی بنیاد خاران کے علاقے بسیمہ میں رکھا۔ ابتدائی طور پر اس تحریک کا کام بسیمہ کے ہر شہر میں عیسیٰ زئی قبیلہ کے جتنے لوگ موجود ہیں، انہیں قبائیلیت ودیگر ایسے برے کاموں کی طرف راغب کرنا تھا، جو بلوچ قومی تحریک کو نقصان پہنچانے میں مدد گارہوں۔
جیسے جیسے وقت گذرتا گیا عیسیٰ زئی قومی تحریک بلوچ نسل کشی کی تاریخ میں ایک نیا مجرمانہ باب ثابت ہوا۔ کیونکہ اس کو چلانے میں خدارحم عرف چکو کو ریاست کی طرف سے چھوٹ ملی تھی کہ وہ جو چاہے، جہاں چاہے، جس طرح بھی چاہے، جن علاقوں میں چاہے، بغیر خوف و حراس کے بخوشی ریاست کے دست راست بنکر کرے اور ساتھ ساتھ ریاستی کاموں میں مدد گارہو۔
مزید براں، خدارحم عرف چکو نے انہی حالات کا فائدہ اٹھا کر نہ صرف فوجی آپریشن کا حصہ بنا بلکہ ساتھ ہی ساتھ اپنا ایک فورس بھی قائم کیا، جو حق نا توار سے پہچانا جاتا ہے۔ جس کے سربراہ ریاست نے شفیق مینگل کو مقرر کردیا تھا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ خدارحم عرف چکو انسانیت سے گِر کر ریاست کا سہارا لیکر حیوانوں جیسے حرکات کرنے لگا۔
بسیمہ کے علاقے زیک سے تعلق رکھنے والے ایک غریب گھرانے پر چھاپہ مار کر وہاں گھر میں موجود عورتوں اور بچوں کو مار پیٹ کر چادر و چار دیواری کی بے حرمتی کرتے ہوئے، گھر میں موجود گھرانے کی بڑی صاجزادی کو اغوا کر کے وڈھ میں شفیق مینگل کے کیمپ میں بدنام زمانہ ڈاکو حفظ ولد ملا اسحاق سے زبردستی نکاح کروایا۔ اور اس جیسے بے تحاشہ سیاہ واقعات رقم کیئے۔
آج اگر رخشان کے کئی علاقوں میں منشیات فروشی عام ہے، ان سب میں خدارحم عرف چکو کی کمک ہے کیونکہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے طرف سے خدارحم عرف چکو کو سماجی برائیوں میں حصہ لینے کا موقع ملا ہے۔
اس کے علاوہ بسیمہ کے علاقے گرین ٹاون میں واقع ایک مدرسہ، جو دینی طالب علموں کے ذہن سازی کا تربیت گاہ بن چکا ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ بسیمہ کے کئی نوجوان رنگے ہاتھ لشکر جھنگوی کے گڑھ برابچہ سے گرفتار ہوئے ہیں۔ جن کے انکشافات کے مطابق گرین ٹاون مدارس میں انکی ذہن سازی کرکے جہاد پر بھیجنے کیلئے ترغیب دی جاتی ہے۔ گرین ٹاون مدرسہ خدارحم عرف چکو کے زیر قبضہ ہے۔
بسیمہ کے مختلف شہروں میں فوجیوں کی قبائلی مسائل میں عمل دخل، سب کے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ یہاں لکھنا مناسب نہیں سمجھتا، ایف سی کی کرنل سہیل خدارحم عرف چکو کے ساتھ کئی کلیوں میں طلاق کے کاموں میں مداخلت کرتے رہے ہیں۔
آج وقت کی تقاضہ یہی ہے کہ مختلف آزادی پسند تنظیموں کے کارکن خدارحم عرف چکو کے خلاف ایک کمیٹی تشکیل دے کر، ان پہ لگائے گئے الزامات کی از سر نو تحقیق کریں، اور جرائم ثابت ہونے پر اسے عبرت ناک سزا دی جائے ۔ تاکہ مستقبل میں بلوچ تحریک آزادی کو کسی قسم کے جانی و مالی نقصان اٹھانے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔