بلوچ ریاست کے دفاع میں ناکامی کی وجوہات ۔ حمیدبلوچ

602

‎بلوچ ریاست کے دفاع میں ناکامی کی وجوہات

‎تحریر ۔ حمید بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‎1839 ء تا 1945ء دنیا کی تاریخ کا وہ سیاہ دور ہے جب سامراجی قوتوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور دنیا میں اپنی حکمرانی قائم کرنے کے لئے انسانی اقدار کی دھجیاں اڑاکر رکھ دیے تھے۔

‎البتہ اسی جنگ کی تباہ کاریوں نے برطانیہ جیسی طاقت کو سخت نقصان سے دوچار کرکے اسے مجبور کیا کہ وہ اس نازک صورتحال میں اپنی نو آبادیوں سے نکل جائے۔ لیکن اپنے’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت اْس نے ہندوہستان کی تقسیم کا بھی اعلان کردیا تاکہ ایک ایسا ملک اپنے ایجنٹوں کے ذریعے وجود میں لایا جاسکے جو مستقبل قریب میں برطانوی مفادات کی چوکیداری اِس خطے میں کرتا رہے اور اس سلسلے کا پہلا کام سر اسٹیفورڈ کرپس کی سربراہی میں ایک مشن کے ذریعے انجام دیا گیا۔ لیکن اس برطانوی کاوش کو کانگریس نے ناکام بنایا اسکے بعد بھی انکی کاوشیں جاری رہیں اور بالاخر 3جون 1947 کو انگریزوں نے ہندوہستان کی تقسیم کا اعلان کردیا اور اعلان کیا کہ 15 اگست کو ان ملکوں کو اقتدار بھی منتقل کیا جائے گا ۔ اسکے بعد قلات کی بھی آزادی کا اعلان کیا گیا اور 4 اگست 1947 کو وایسرائے ہند جناح اور خان کے درمیان ملاقات کے بعد بلوچستان کی آزادی کا اعلان آل انڈیا ریڈیو دہلی سے نشر کیا گیا اس آزادی کو پاکستانی حکمران جناح نے بھی تسلیم کیا۔ 1839 ء میں انگریز کا حملہ، 1893 ء میں مکمل قبضہ، 1947 ء میں آزادی اور صرف 9 ماہ کے عرصے میں ایک اور سامراجی چوکیدار کا قبضہ، اور اس قبضے کے خلاف بغاوت اور بغاوت کی ناکامی کئی سوالاات کو جنم دیتی ہے کہ کیوں بلوچ اپنی آزادی کا دفاع کرنے میں ناکام ہوئے اور کیوں انکی پاکستان کے خلاف بغاوت چندمہینوں کے بعد دم توڑ گئی یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر آج بھی بحث جاری ہے اور ان بحثوں میں اکثر ایک سوال دہرایا جاتا ہے کہ اگر بلوچ اپنی آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تو اپنی ریاست کا دفاع کرسکیں گے یا ایک مرتبہ پھر ایک اور ریاست ان پر قابض ہوجائے گا ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں تاریخی پس منظر میں جانا ہوگا تاکہ ماضی میں ہوئی ناکامیوں کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کرنے کے بعد مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کیا جاسکے تاکہ ہماری آزادی کو دنیا کی کوئی دوسری طاقت سلب کرنے کی کوشش نہ کرسکیں۔

‎آزادی کے اعلان کے بعد 15 اگست 1947ء کو سربراہ بلوچ ریاست میر احمد یار خان نے عوامی اجتماع سے خطاب کیا اور اپنے نظریات اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے عوام کی تعاون کی درخواست کی ۔ حکومت سنبھالنے کے کچھ دن بعد ریاست کاآئین بنایا گیا، آئین کے مطابق ملک میں عام انتخابات ہوئے، اسمبلیوں کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ ملک کے لئے قانون سازی کی جاسکے ،ریاستی انتظام چلانے کے لئے وزرا کی کونسل بنائی گئی، جس کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا تھا اور جن کی تقرری کا اختیار سربراہ ریاست کو بنایا گیا، اختیارات اور طاقت کا مرکز خان تھا ۔خان نے اپنے تقریر میں اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ تمام بلوچوں کو متحد کریں گے اور اپنی آزادی کے دفاع کے لئے ہر طرح کی قربانیوں کے لئے ہمہ وقت تیار رہیں گے۔لیکن آزادی حاصل کرنے کے کچھ مہینوں بعدبلوچ ریاست کو مختلف مسائلوں نے گھیر لیا کہ وہ مستقبل میں کسی دوسرے ملک کے ساتھ الحاق کریں گے یا اپنی آزاد حیثیت کو برقرار رکھے گے۔ اس اہم مسئلے کو حل کرنے کے لئے ریاست قلات نے 12 دسمبر کو الحاق حوالے ایوان زیریں کا اجلاس طلب کیا گیا اور اسکے بعد فروری کو ایوان بالا کا اجلاس طلب کیا گیا تاکہ الحاق حوالے کسی نتیجے پر پہنچا جاسکے ۔

‎پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے الحاق کو سرے سے ہی مسترد کردیا اور قرداد پیش کیا کہ ہم پاکستان کے ساتھ دوستانہ معاہدہ کریں گے لیکن الحاق نہیں کسی صورت نہیں کریں گے۔ وزیراعظم قلات قرداد کی کاپیاں لیکر جناح سے ملنے کراچی گئے تاکہ مستجار جگہوں پر اور الحاق حوالے بات کی جاسکیں لیکن جناح نے صرف الحاق کے مطالبے کو ہی دہرایا۔ وزیر اعظم قلات کا دورہ مکمل طور پر ناکام ہوا اور اس ناکامی نے خان کو سخت مشکلات سے دوچار کردیاتھا ایک طرف عوام جو الحاق کے خلاف تھے اور دوسری طرف پاکستان کا دھمکی آمیز رویہ اور اسکی سب سے بڑی وجہ پاکستانی تنخواہ خور وزیر اعظم محمد اسلم خان تھا جس نے اپنی ڈبل پالیسی کے ذریعے خان اور ریاست قلات کے لئے سخت مشکلات کھڑی کردی تھی جس کا اعتراف خان خود بھی کرتا ہے خان کہتے ہیں کہ میری مشکلات اس وقت کم
‎ہوئی جب مجھے پتہ چلا کہ جناح سبی تشریف لارہے ہیں اور میں ساری صورتحال کو ان کے سامنے رکھوں گا اور ان کا صیح حل نکل آ ئے گا۔

‎جب 11 فروری 48 19 ء کو جناح سبی تشریف لائے اور خان سے ملاقات میں جناح نے پھر الحاق کا مشورہ دیا دوسری ملاقات میں انہوں نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ اور آزادی ایکٹ 1935 ء کی کاپیاں خان کو دی ۔ بقول خان کہ اس رویئے نے مجھے دماغی طور پر سخت نڈھال کردیا میں بیمار پڑگیا ۔جناح کی سازش کے خلاف خان نے پاکستانی سیکرٹری خارجہ سے احتجاج کیا لیکن اس احتجاج کا کچھ بھی فائدہ
‎نہیں ہوا۔ 8 مارچ 1948ء کو جناح نے خط کے ذریعے خان کو پیغام دیا کہ اب میں ذاتی حوالے سے قلات کے معاملے کو آگے نہیں بڑھاوں گا بلکہ اب اس کا فیصلہ وزارت خارجہ پاکستان حل کریں گے۔ پاکستان کے اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب حکومت پاکستان قلات کے خلاف جارحانہ اقدام اٹھانے کا فیصلہ کرچکی ہے اور انکی نیت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

‎اس اقدام کے بعدبلوچ ریاست کے خلاف سازشوں کا جال تیار کیا گیا جس میں خان کو پھنسا کر آسانی سے بلوچستان پر قبضہ کیا جاسکے۔خاران اور بیلہ کے سردار خان کے مخالف تھے، اب اس سازش میں مکران کے نواب بائیان گچکی کو بھی شامل کیا گیا، بائیان گچکی علاج کی غرض سے کراچی گئے اور وہاں شئے عمر کے ذریعے خفیہ طور پر پاکستانی اداروں کے ساتھ ملکر خان کے خلاف باتیں کیں اور ان پر الزام لگایا کہ خان ٹیکس لیتا ہے اور اپنے عوام میں جناح کے خلاف پروپگنڈہ کرتا ہے۔ اگر حکومت پاکستان ہمارے ساتھ الحاق نہیں کرتا تو ہم کوئی اور قدم اٹھانے پر مجبور ہونگے ۔بائیان کی ملاقات کے بعد کابینہ کا ایمرجنسی اجلاس بلایا گیا ۔جس میں فیصلہ ہوا کہ ان ریاستوں کے ساتھ الحاق کو منظور کیا جائے تاکہ خان پر دباو ڈال کر الحاق پر مجبور کیا جاسکے۔ ریاست پاکستان نے 17 مارچ 1948ء کو مکران بیلہ اور خاران کے ساتھ الحاق کرکے ایک غیر آئینی قدم اٹھایا۔ اس خبر کو وزارت خارجہ پاکستان نے اخباری بیان کے ذریعے 18 مارچ 1948 ء کو تصدیق کی کہ خاران، مکران اور لسبیلہ کے الحاق کے بعد
‎قلات اپنے آدھے حصے سے محروم ہوگیا۔

‎اسکے بعد انہوں نے دیگر سرداروں کے ساتھ رابطے کئے تاکہ انہیں رشوت دیکر اپنے ساتھ ملا کر خان پر دباو بڑھایا جاسکے ۔یہ سازشیں جاری تھی کہ 27مارچ 1948ء کو آل انڈیا ریڈیو سے وی پی مینن کا ایک بیان جاری ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ ’’ خان نے اپنا سفارتی نمائندہ الحاق کے لئے ہندوہستان بھیجا ہے‘‘ اسی رات پاکستانی فوج نے قلات پر چڑھائی کرکے خان سے بندوق کی نوک پر الحاق نامے پر دستخط کروائیں۔اس جبری قبضے کے خلاف عوامی ریلیوں کا آغاز ہوا، عوامی طوفان کو کنٹرول کرنے کے لئے فوج کو الرٹ کردیاگیا، قلات اسٹیٹ پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی ،لیڈران گرفتار کردئے گئے ،قلات کے معاملات چلانے کے لئے 15 اپریل 1948 ء کو پاکستانی ریاست نے پولیٹیکل ایجنٹ کا تقرر کیا اور پورے قلات کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس غیر آئینی و غیر جمہوری رو یے نے پورے بلوچستان میں بے چینی اور مایوسی کو جنم دیا اس نازک صورتحال میں خان قلات کے بھائی پرنس کریم آغا خان نے قومی تحریک آزادی کی قیادت کا فیصلہ کرلیا۔

‎آغا عبدالکریم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سرلٹھ کے مقام پر جمع ہوئے۔ لیکن اس مقام پر افغان حکومت نے آپکو پیغام دیا کہ ہم اپنے سرحد سے آپکو پاکستان کے خلاف کاروائی کی اجازت نہیں دینگے آپ ایک پناہ گزین کی حیثیت سے افغان علاقوں میں ایک پناہ گزین کی حیثیت سے آجائیں ہم آپکو حق دینگے۔ لیکن ہیاں بھی کچھ ایسے لوگ موجود تھے جن کے رابطے پولیٹیکل ایجنٹ کے ساتھ تھے میجر بیگ نے مختلف حلیے بہانے سے آپکو وہاں جانے سے روکا اور دوسری طرف غوث بخش بزنجو نے بھی مسلح جدوجہد کی مخالفت کی۔ اندرونی و بیرونی امداد نہ ملنے کی وجہ سے مجبور ہوکر پرنس کریم قلات آئے جہاں قران پر ہاتھ رکھ کر معاہدے ہوئے ۔لیکن پاکستانی فوج نے معاہدے کی خلاف ورزی کرکے پرنس اور اسکے ساتھیوں پر حملہ کرکے انہیں گرفتار کرلیا ان پر مقدمات چلائے گئے ۔27نومبر 1948ء کو پرنس اور اسکے ساتھیوں کو مختلف سزائیں اور جرمانے کئے گئے پرنس اور ساتھیوں کی گرفتاری نے بلوچوں کی تحریک کو شدید نقصان سے دوچار کردیا اور یہ تحریک اپنے اختتام کو پہنچی اور بلوچ معاشرے میں ایک مرتبہ پھر مایوسی اور ناامیدی نے جنم لیا ۔یہ بلوچ قومی آزادی قبضہ بغاوت کی ایک مختصر تاریخ تھی جن کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ بلوچ کیوں اپنے آزادی کے دفاع میں ناکام ہوئے اور کس طرح آسانی سے پاکستانی فوج نے قومی تحریک آزادی کو کچل دیا۔ 21 ویں صدی میں یہ سوال بلوچ قوم کے لئے آج بھی اہمیت رکھتا ہے کہ ناکامی کی وجوہات کیا تھی اگر اس سوال کا جواب نہ ڈھونڈا گیا اور ماضی کی غلطیوں کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ نہیں کیا گیا تو ہماری مستقبل کی آزادی بھی ظالم ریاستیں سلب کرسکتی ہے ۔ میرے رائے کے مطابق بلوچ مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر اپنے آزادی کا دفاع کرنے میں.ناکام ہوئے ۔

‎1.موروثی سرداروں کی طاقت.

‎بلوچ ریاست دفاع میں ناکامی کی اہم وجہ سرداروں کی طاقت تھی۔ کیونکہ یہ سردار اپنے مفادات کے لئے کبھی برطانیہ سرکار کے ساتھ اور کبھی پاکستانی ریاستوں کے ساتھ خان آف قلات کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل رہے۔ انہی سرداروں نے 1839 ء میں نواب محراب خان کا ساتھ دینے کے بجائے چپ سادھ لی تھی اور یہ وہ سردار تھے جب رابرٹ سنڈیمن دربار سبی میں آئے تھے تو ایک سردار کو چھوڑ کر باقی تمام سردار سنڈیمن کے ساتھ تھے۔ ان سرداروں کو ہروقت اپنا ذاتی مفاد عزیز تھا اور یہ اپنے مفادات کو مقدس سمجھتے تھے ۔ رابرٹ سنڈیمن نے جب بلوچ سرزمین پر قدم رکھا تو اس نے وہاں کے سرداروں کی طاقت میں اضافہ کیا انہیں مراعات و سہولیات دی تاکہ انگریز سرکار انہیں اپنے مفاد کے لئے استعمال کرسکیں ۔سنڈیمن نظام کے نفاذ نے سرداروں کو سخت طاقتور بنادیا اور ان سرداروں نے اپنے طاقت و اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا عوام کو انہوں نے اپنا غلام بنایا یہ وہ سردار تھے جو ترقی و خوشحالی سے نفرت کرتے تھے اسلئے انہوں نے اپنے عوام کو ترقی سے دور رکھ کر ہمیشہ اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا ۔ جب ریاست پاکستان نے قلات پر جبری قبضہ کیا تو اس قبضے کو آسان بنانے میں بھی ان موروثی سرداروں کا بڑا ہاتھ تھا جنھوں نے پاکستانی حکمرانوں سے سازباز کرکے الحاق کیا اور خان کے خلاف ساشوں میں مصروف عمل رہے۔ بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف انہوں نے ہمیشہ طاقتور ملکوں کا ساتھ دیکر اپنے سرزمین سے غداری کی اور اس تحریک کی ناکامی میں اور اسکے دفاع میں ناکامی کی اہم وجہ سرداروں کی طاقت تھی جنھوں نے عوام کو تحریک آزادی سے دور ر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔

‎2.تعلیم سے دوری.

‎بلوچ ریاست کے دفاع میں ناکامی کی دوسری اہم وجہ تعلیم سے دوری تھا۔ نیلسن منڈیلا کہتے ہیں کہ کسی ملک کی ترقی میں تعلیم ایک اہم کردار کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے بلوچ عوام کو تعلیم سے ہمیشہ دور رکھا گیا اور تعلیم کو سردار کے گھر کی لونڈی ہر طاقتور نے بنایا۔ ڈاکٹر عنایت بلوچ اپنی کتاب ” بلوچستان کا مسئلہ” کے آرٹیکل گرہن آزادی میں لکھتے ہیں کہ قومی تحریک کے ناکامی کی سب سے بڑی وجہ قومی تعمیر کے لئے ایک ترقی پسند سماج کی ناپیدی تھی سرداروں نے جدید اداروں اور اصلاحات کی مخالفت کی 1929 ء سے لیکر 1948 ء تک کوئی کالج یونیورسٹی قائم نہیں کی گئی۔ لیکن پہلے بلوچ قوم کو برطانیہ نے سرداروں کے ذریعے تعلیم سے دور رکھا اور اسکے بعد سرداروں نے مسلم لیگ کے جھنڈے تلے بلوچ قوم کو علم کی روشنی سے دور رکھا تاکہ وہ شعور و زانت کی طاقت سے محروم ہوکر اپنے غلامی کو مزید طول دیں ۔

‎3.خواتین کی تحریک میں عدم شرکت۔

‎ریاست قلات کی آزادی کے دفاع میں ناکامی کی ایک اہم وجہ عورتوں کی انتظامی امور اور تحریک آزادی میں عدم شمولیت تھی ۔ جب انگریز سرکار نے قلات کی آزادی کا اعلان کیا تو آئین کے مطابق اسمبلیاں بنائی گئی لیکن ان اسمبلیوں میں عورت کے لئے کوئی بھی نشست مختص نہیں کی گئی تھی۔ اسکے علاوہ پرنس کریم کی شروع کردہ بغاوت میں بھی کسی خواتین کا ذکر نہیں ملتا ہے۔ اگر ہم دنیا کی تحریک آزادیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان تحریکوں میں عورتوں کا 50 فیصد کردار نظر آتاہے ۔لیکن بنیادی بلوچ تحریک میں عورت کہیں بھی نظر نہیں آئی جو تحریک کی ناکامی کی بڑی وجوہات میں شامل ہے۔ بلوچ سماج میں عورت کا ایک قابل ذکر کردار ملتا ہے کہ عورت جرگوں میں فیصلے کرتی نظر آتی تھی جنگ کے میدان میں عورت نظر آتی تھی، لیکن جب اس سرزمین پر انگریز نے قبضہ جمایا سنڈیمن نظام کے ذریعے بلوچ سماج میں عورتوں کے کردار کو ختم کردیا گیا اور اسی قبضہ گیر کے نظام نے بلوچ سماج میں کاروکاری جیسی اصطلاحات کو پرموٹ کیا۔ اس لئے عورت کی سماجی، تعلیمی ،سیاسی و معاشی نظام میں کردار ختم ہوگیا اور وہ گھر کی چار دیواری کی زینت بن گئی۔

‎4. کمزور ادارے۔

‎ریاست قلات کی ناکامی کی ایک وجہ ریاست میں مضبوط اداروں کا نہ ہونا تھا نہ ہی ریاست کے پاس دفاعی ادارے موجود تھے۔ جو کسی ناخوشگوار حالات میں ملک کے دفاع کے فرائض سر انجام دیتے ۔سنڈیمن نظام کی وجہ سے سرداروں کے پاس باقاعدہ لیویز کی شکل میں فوج موجود تھی لیکن ریاست کے پاس باقاعدہ ریگولر آرمی موجود نہیں تھی جو پاکستان آرمی کے خلاف جنگ لڑتی اور انہیں اپنے سرزمین سے نکال دیتی جب پرنس کریم نے جنگ کا اعلان کیا تو اسوقت بھی کچھ قبائل کے لوگ ان کے ہمراہ تھے۔

‎5. خان سیاسی لیڈر سے زیادہ مذہبی رہنما۔

‎ناکامی کی ایک وجہ خان سیاست کے داؤ پیج سے عاری ایک حکمران تھا وہ ایک سیاسی لیڈر سے زیادہ مذہبی رہنما لگتا تھا۔ میر گل خان نصیر تاریخ بلوچستان میں خان کے متعلق کہتے ہیں کہ خان کے سیاسی نظریات میں تضاد پایا جاتا ہے ایک طرف وہ قومپرستی کے علمبردار اور دوسری طرف ایک خالص مذہبی ریاست کے داعی ہیں۔ وہ قومی اور مذہبی حکومت میں کوئی فرق نہیں کرتے جو انکے کردار میں پختگی کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ اس لئے وہ اپنے لئے کوئی راہ کا انتخاب نہیں کرسکے تھے ۔ انہوں نے 15 اگست کی تقریر میں بھی واضح طور پر کہا کہ وہ ملک میں اسلامی دستور اور شریعت کے لئے جدوجہد کرینگے اور آئین میں جو پابندیاں دوسرے لوگوں پر تھی علماء پر ان کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا تھا اس لئے بلوچ سماج جو اپنے خان کو فوجی جرنیل کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے مذہبی لیڈر کی حیثیت سے نہیں۔ اس لئے عوام نے انکے نیم مذہبی اور نیم قومی رحجانات کو قبول نہیں کیا اور خان نے اپنے پروگرام کو مکمل کرنے کے لئے غیروں کو اپنا سمجھا۔ جنہوں نے ان کے اقتدار کو ختم کرکے اقتدار اپنے لوگوں کو منتقل کردیا۔

‎6.غیروں پر انحصار ۔

‎کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست قومی مفادات کے تحت چلتی ہے اور دنیا کا ہر ملک اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر خارجہ پالیسی بناتی ہے۔ اور انہی مفادات کو مدنظر رکھ کر اپنے تعلقات بناتے ہیں۔ لیکن خان آف قلات سیاست کے ان مفروضوں سے عاری ایک کمزور شخص تھا جس نے اپنے ریاست کا انتظام کے ایک ایسے ملک کے تنخواہ خور ملازم کے ہاتھ میں دیا تھا جو ہمیشہ دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے کا عادی ہے۔ اور اسی وزیر اعظم نے خان کو ایسے پھنسا دیا تھا کہ اس مشکل سے نکلنا خان کے بس کی بات نہیں تھی۔ اسکے علاوہ وزیر خارجہ ڈی وائی فل جو برطانوی نژاد تھا ۔ وہ ڈی وائی فل ہی تھا جس نے خان کو مزاحمت کرنے سے روکا اسکے علاوہ جب پرنس کریم نے بغاوت شروع کی تو اس نے اپنے عوام پر اعتماد کرنے کے بجائے روس اور افغانستان کی طرف نظریں گھمائیں جنھوں نے مدد سے انکار کردیا اور وہ مجبور ہوکر واپس قلات آئے اور گرفتار کردئے گئے اور ان کی گرفتاری کے بعد قومی تحریک بھی دم توڑ گئی۔

‎7.فیصلہ کرنے سے عاری لیڈرز۔

‎ایک لیڈر ہی قوم کی کشتی کو طوفانوں اور مشکلات سے نکال کر کنارے پر لے جاتا ہے۔ لیکن بلوچ لیڈر ان صلاحیتوں سے عاری تھے ۔ان میں مشکل وقت میں فیصلہ کرنے کی طاقت نہیں تھی اس لئے پاکستان نے بزور طاقت قلات پر حملہ کردیا اگر اسوقت خان جنگ کا فیصلہ کرلیتا تو آج یہ صورتحال پیش نہیںآتی۔
‎8.مرکز اور ریاستوں میں ہم آہنگی کا نہ ہونا۔
‎دفاع میں ناکامی کی ایک وجہ قلات اور اسکے ملحقہ ریاستوں میں رابطوں کا فقدان تھا خاران اور بیلہ کے حکمران ہمیشہ خان کے خلاف بغاوتوں کی کوشش میں مصروف تھے ۔وہ پاکستان کے ساتھ الحاق پر زور دے رہے تھے اسکے بعد انکے ساتھ مکران کا نواب بھی شامل ہوگیا مرکز کا صوبوں سے رابطہ وتعلقات ہی ریاست کو مضبوط کرتا ہے لیکن ہیاں مکمل انڈر اسٹینڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے قلات پاکستان کے قبضے میں چلا گیا۔

‎برطانوی و پاکستانی سازش ۔

‎ریاست قلات اپنے آزادی کے دفاع میں اس لئے بھی ناکام ہوئی کہ پاکستان اور برطانیہ نے قلات کی آزاد حیثیت کو کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا وہ ہر وقت موقع کی تلاش میں تھے کہ مناسب موقع ملتے ہی قلات پر قبضہ کیا جاسکے۔ انہی سازشوں کی وجہ سے ہی ریاست پاکستان نے قلات پر ہلہ بول دیا اور زبردستی بندوق کی نوک پر خان سے الحاق نامے پر دستخط کروائے۔ برطانیہ نے ہمیشہ بلوچستان کو ہندوہستانی ریاست کے طور پر دیکھا اور اپنے اقتدار کے خاتمے کے بعد بھی قلات کی آزاد حیثیت کی مخالفت کرتا رہا۔ شاہی نمائندے نے لارڈ ماونٹ بیٹن نے کو اس خطرے سے بھی آگاہ کیا برطانیہ کو یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں قلات ریاست سویت یونین کے ساتھ تعلقات قائم نہ کریں۔ اسلئے اسکی کوشش تھی کہ ریاست قلات پاکستان کے ساتھ الحاق کریں۔ اسکی واضح مثال یہ ہے کہ برطانوی ریاست نے دانستہ طور پر ریاست قلات کو ہتھیار نہ دیئے جس کی وجہ سے قلات پاکستان کے زیر قبضہ چلا گیا پاکستان نے بھی موروثی سرداروں کے ساتھ ملکر قلات کے خلاف سازشیں کیں جسکی وجہ سے خان کی پوزیشن سخت کمزور ہوگئی اور وہ مشکل وقت میں کوئی فیصلہ نہ کرسکا اور قلات پر پاکستان نے اپنا قبضہ جما کر بلوچ قوم کی آزادی کو سلب کردیا۔ قلات کی آزادی کے بعد پاکستانی قبضہ، پرنس کی مزاحمت اور مزاحمت کے ناکامی اور اسکی وجوہات بلوچ قوم کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ آج بھی بلوچ قوم اپنی آزادی کے لئے جدوجہد کرر ہے ہیں اور ان تمام ناکامیوں کو مدنظر رکھ کر بلوچ سیاسی پارٹیوں کو اپنی حکمت عملی بنانا ہوگی اگر ان غلطیوں کا تجزیہ سائنسی بنیادوں پر نہیں ہوا تو بلوچ قوم مستقبل میں بھی اس طرح کے حالات کے شکار ہوسکتے ہیں ۔آج بلوچ انقلابی پارٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچ عوام میں سرداروں کے خلاف شعور و آگاہی فراہم کریں کہ یہ سردار بلوچ قوم کے ہمدرد نہیں بلکہ سامراج کے ہاتھوں میں استعمال ہونے والے کھلونے ہیں۔ جس طرح قلات اسٹیٹ پارٹی نے ریاستی الیکشن میں ان کو عبرتناک شکست سے دوچار کرکے ثابت کردیا کہ وہ ایک عوامی پارٹی ہے اور عوام میں اپنی جڑیں رکھتی ہے۔ آج بلوچ پارٹیوں کو بھی اسی جذبے و حکمت عملی کی ضرورت ہے بلوچ نوجوانوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لئے اپنی جدوجہد کو تیز کرنا چاہئیے اور بلوچ خواتین کو تحریک آزادی میں متحرک کرنا چاہیئے اسکے علاوہ آزادی پسند تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ بلوچ قوم کو اس حقیقت سے واقفیت دلانا ضروری ہے کہ دنیا میں کوئی کسی کو آزادی نہیں دلاسکتا بلوچ تحریک کی اصل طاقت بلوچ عوام ہے اور عوام کی شرکت کے بغیر آزادی کی منزل حاصل کرنا محض ایک خواب ہوگا ۔