تیرا دین تیرا، میرا دین میرا – چاکرزہری

507

تیرا دین تیرا، میرا دین میرا

تحریر: چاکرزہری

دی بلوچستان پوسٹ 

اسلام سلامتی، امن، محبت، درگذر اور بھاٸی چارے کا دین ہے۔ مگر اسلام کو پاکستان میں ایک عجیب دین بنایا گیا ہے۔ اگر اپنے مقاصد کو پورا کرنا ہو، کسی سے کسی چیز کو نا حق چھیننا ہو یا کسی کو راستے سے ہٹانا ہو تو اس وقت دین اور دین ِ اسلام کو استعمال کیا جاتا ہے۔ حقیقت میں تو دین پر انسان کو چلنا ہوتا ہے، مگر یہاں مسٸلہ کچھ اور طرح ہے کہ لوگ دین پر چلتے نہیں بلکہ دین کو اپنی مرضی سے چلاتے ہیں۔ نام تو خداﷻ اور حضور اکرم ﷺ کا ہے مگر کام اپنا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق ہے۔

یہاں دیندار نہیں بلکہ دین کے ٹھیکے دار ہیں۔ جب اور جہاں چاہتے ہیں تو دین کو اپنے ہاتھوں سے بنائے گئے سانچے میں ڈھال دیتے ہیں۔ قاضی کا دین کچھ اور تو عالم کا دین اور۔ ہر مسلک کا دین الگ ہر مسلک کے راستے الگ اور ہر مسلک کے پیروکاروں کا دین اور۔ جو گھر سے ناراض ہوتا ہے تو اپنا مسلک اپنا دین اور اپنی مرضی کا راستہ اپنا لیتا ہے۔ یہاں وہ دین دار ہیں جن کے کتابوں میں ہر دوسرا مسلک اور اس مسلک کا پیروکار مشرک بے دین لکھے گٸے ہیں۔

قاضی عدالت میں عدل نہیں بلکہ انسانیت کا قتل اور کاروبار کرتا ہے۔ عالم مسجد کو اپنا گھر اور موذن خود کو عقل ِ کل سمجھتا ہے۔ یہاں وہ دین اور وہ دیندار ہیں، جن کے کتابوں میں کسی کا حق لکھا نہیں ہے۔ اس دین میں عورت کی عزت نہیں اس دین میں بہن کا حق نہیں اور اس دین میں باپ کا کوٸی مقام نہیں۔ اس دین میں دوسروں کو جرم کی سزا میں مجرم ٹہرایا جاتا ہے اور جب ان سے خود جرم ثابت ہوتا ہے تو خود کو ہر شئے سمجھ کر اپنی منشا سے بری کر دیتے ہیں۔ یہ دین شاید قاتل مجرم اور ایزا رسانی کا نام ہے۔

یہاں دین کے نام پر مشعال خان کو رستے سے ہٹایا جاتا ہے۔ یہاں قطب جیسے ہیروں کو اپنی مرضی اور اپنے دین کے تعلیمات کو سچ کہہ کر قتل کیا جاتا ہے۔ یہاں وہ دین نہیں جسے دین ِ متین کہا جاتا ہے، جسے دین ِ حنیف کہا جاتا ہے، وہ دین نہیں جسے حضور اکرم ﷺ لے کر آئے تھے، وہ دین نہیں جس پر ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی، اور حضرت علی حیدر عمل پیرا تھے۔

یہاں دین ہے تو ابوجہل کا دین ہے، دین ہے تو عبد اللہ بن عبیہ ، عبیہ بن خلف اور یزید کا دین ہے۔ جسکا نام درندگی سفاکیت ظلم اور جبر ہے۔ یہاں وقت کے امام چنگیز ، اور ہلاکو خان جیسے ہیں جن کا کام معصوموں کے خون ِ ناحق سے کھیلنا ہے اس ک علاوہ کچھ بھی نہیں۔ یہاں داڑھی تو شیخ ، حضرت جیسے ہیں مگر کام درندوں جیسے ہیں۔ یہاں حاکم ضیا الحق مشرف اور یحیٰ نیازی جیسے ہیں، نہ کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے ہیں، جن کے عہد میں بکری اور بھیڑیا ایک ساتھ رہتے ہوں۔

حاکم اور امام وہ تھے جو اپنے گھر کے خرچے کم کرواتے تھے کہ یہ بچے ہوئے پیسے ہماری ضروریات سے بڑھکر ہیں ۔ حاکم وہ تھے جو اپنے کندھے پر سامان اٹھا کر غریبوں کو پہنچاتے تھے۔ حاکم وہ تھے جو دشمنوں کے حصار میں بھی کہتا ہے کہ میں ان گلیوں کو خون سے رنگین نہیں کرنا چاہتا، صرف اپنی جان بچانے کے لیئے۔ حاکم وہ تھے جو اپنے کھانے کی روٹی کو اٹھا کر ساٸل کو دیا کرتے تھے۔ اور یہاں حاکم وہ ہیں روز اخراجات کے پورا نہ ہونے کا شکوہ کرتے ہیں جنکے باورچی خانے کی مرمت پر کروڑوں خرچ ہوتے ہیں۔ یہاں حاکم وہ ہیں کہ غریب کا سامان اٹھانا کیا، خود غریب کے کندھے پر چڑھ کر خود کو با عزت با شہرت ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں حاکم وہ ہیں، جو خود کی جان بچانے کے لیٸے غریبوں کو روند کر چلے جاتے ہیں۔ یہاں حاکم وہ ہیں جو ٹیکس لگا لگا کر غریب کا روٹی چھین لیتے ہیں، نہ کہ انہیں دیتے ہیں۔ یہ میرا دین نہیں یہ رستہ میرا رستہ نہیں۔ یہ حاکم میرے نہیں یہ عالم حضرت پیر ِ طریقت میں نہیں یہ آپکے ہم دین آپ کے قابلِ قدر ہیں۔

میرا دین کھرا ہے، سچا ہے میرا منصف انصاف کرنے والا ہے۔ تیرا دین میرے دین سے مختلف ہے میں تیرا ہم دین نہیں میں تیرا ہم رستہ نہیں، میں تیرا ہم صف نہیں میں تیرے دین کو نہیں مانتا۔ تو آپکا دین آپکو مبارک ہو جس طرح اللہ پاک نے اپنے پاک کتاب میں فرمایا ہے

“آپکے لیئے آپکا دین، میرے لیئے میرا دین”

دی بلوچستاں پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔