گیارہ اگست آزادی کا دن
توارش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج 11 اگست ہے یعنی بلوچ قوم کی آزادی کا دن، آج سے 71 سال پہلے بلوچستان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا، لوگ سچ کہتے ہیں آزادی یوں ہی بیٹھے بیٹھے نہیں ملتی بلکہ اس کیلئے قربانی درکار ہوتی ہے، اپنے گھر بار کی قربانی اپنے پیاروں کی جب پوری قوم اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیار رہتا ہے، تب ملتی ہے آزادی۔ بلوچستان کی آزادی کی خاطر ہزاروں بلوچ سپوتوں نے زندگیاں قربان کیئے، نواب سے سرداراں تک بلوچ قوم کے بچے بچے نے دشمن کے خلاف مزاحمت کی، جب انگریز سامراج نے اپنے توپوں کی طاقت سے بلوچستان پر قبضہ جمانے کی کوشش کی تو پہلے ہی دن میر محراب خان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کی، محراب اور اُن کے ساتھیوں کی قربانی نے بلوچ قوم میں سرزمین پر مر مٹنے کا ایک ایسا رواج قائم کیا، جو آج 180 سال بعد بھی جاری ہے۔
میر محراب خان کو جب دشمن کی آمد کا اطلاع ملتی ہے، تو وہ کم تعداد اور ٹوٹے پوٹے کچھ ہتھیاروں کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرنے نکلتا ہے، وہ یہ بخوبی علم رکھتا ہے کہ دشمن کے ساتھ توپیں ہونگیں، بڑے بڑے ہتھیار ہونگے، ٹینک اور بمب ہونگے لیکن وہ اپنی جان کا پرواہ کیئے بغیر اپنے زمین کے دفاع کیلئے نکلتا ہے اور اپنے آخری سانسوں تک اپنے بہادر و عظیم بلوچ سپوتوں کے ساتھ دشمن کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتا اور لڑ لڑ کر جام شہادت کا عظیم رتبہ حاصل کرتا ہے۔
بلوچستان پر انگریز کا قبضہ غیر قانونی و غیر اخلاقی تھا کیونکہ بلوچ ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے صدیوں سے اپنے زمین پر آباد تھا، بلوچوں کا اپنا تہذیب، اپنا کلچر، اپنا زبان اور جینے کے اپنے رسم و رواج ہیں۔ اس سے صاف صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچ پر انگریز سامراج کا قبضہ بلوچستان کے معدنیات کو لوٹنے کا ایک بہانہ تھا۔ انگریز سامراج اپنی فوجی طاقت کے ذریعے بلوچستان کی زمین کو لوٹنے کا مکمل منصوبہ بناتا ہے لیکن دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر بلوچ نوجوان و پیر و بزرگ کھڑے ہوتے ہیں اور دشمن کی توپوں اور بمبوں کے سامنے دلیری سے لڑتے ہیں۔ جب انگریز فوجی یہ سمجھ لیتے ہیں کہ بلوچ زمین پر قبضہ کرنا ممکن نہیں تو وہ ایک معاہدہ کرتے ہیں کہ بلوچ قوم کی آزادانہ حیثیت کو انگریز کچھ نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرے گا بلکہ آپ کی معاونت کرے گا۔ اس بنیاد پر انگریز بلوچستان میں قیام کرتے ہیں جبکہ بندوق کے نوک پر بلوچستان پر قبضہ کرنے کا انگریزوں کا خواہش چکنا چور ہوتا ہے، یہ معاہدہ اُس وقت کے سردار اور میر محراب خان کے بھائی اور انگریز فوجیوں کے درمیان طے پاتا ہے۔
اس کے بعد انگریز بلوچستان میں اپنے آخری دنوں تک بلوچ قوم کی آزادانہ حیثیت کی احترام کرتا ہے، جبکہ دوسری جانب انڈیا پر ریاست انگریز کا مکمل قبضہ ہوتا ہے اور وہاں پر صدیوں تک لوٹ ماری کرتا ہے۔ جب انڈیا میں نوجوان قومی تحریک چلاتے ہیں انگریز سامراج کی غلامی کے خلاف لڑتے ہیں اور آخرکار انگریز کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ہندوستان چھوڑ کر نکل جائیں، انڈیا کی انقلابی جدوجہد کے سامنے جب انگریز ہار مان لیتے ہیں تو انگریز سب سے پہلے بلوچستان کے زمین کو چھوڑنے کا فیصلہ کرتا ہے اور 11 اگست کو بلوچستان کی آزادی کا اعلان کر دیتا ہے جس کی خبر 12 اگست کو the New York Times میں چھپتا ہے۔
لیکن نومولود ریاست برطانیہ کے ایماء پر چلنے والی پاکستان، جس کو بنانے کا مقصد برطانیہ کا اس خطے پر اپنے اثر و رسوخ قائم کرنا تھا نے بلوچستان پر آزادی کے نو ماہ بعد پھر سے قبضہ کیا۔ اور بلوچ سرزمین کو پھر سے غلامی کے دلدلوں میں دھکیل دیا لیکن ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر بلوچ قوم نے آزادی کا نعرہ بلند کیا اور پاکستانی ناجائز قبضے کے خلاف اپنے کم وسائل کے ساتھ جنگ کا آغاز کیا، جو تا ہنوز جاری ہے۔
دنیا کے اندر کسی بھی ریاست و ملک کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ ایک آزاد و خود مختیار ریاست پر جبراً قبضہ کریں لیکن پاکستانی جرنیلوں نے عالمی قوانیں کو روند کر بلوچ سرزمین پر دھوکے سے قبضہ کیا تھا، البتہ پاکستانی ریاست کے بانی جناح نے خود بلوچ قوم کی آزادی کا کیس لڑا تھا لیکن پھر اپنے وعدے سے مکر کر بلوچستان پر جبری قبضہ کرنے کی حامی بھری تھی، لیکن چونکہ بلوچستان 11 اگست کو آزاد ہوا تھا، اس لیئے پاکستانی قبضہ غیر قانونی ہے۔ جس کے خلاف بلوچ قوم آج پانچواں جنگ لڑ رہا ہے۔
پاکستانی فوج و ایجنسیوں نے بلوچ قوم کو دبانے کیلئے مختلف حیلے و بہانے استعمال کیئے بلوچ لیڈران کو لالچ و مراعات دینے کی کوشش کی لیکن بلوچ قوم نے دشمن کے کسی بھی مراعات کو قبول نہیں کیا جبکہ اپنی آزادانہ حیثیت واپس بحال کرنے کیلئے جنگ جاری رکھا ہوا ہے۔ آج بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ریاست اپنی طاقت کا بھرپور استعمال کر رہا ہے آئے روز بلوچ نوجوانوں کی گمشدگی کے واقعات رونما ہوتے ہیں، وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے مطابق 30000 سے زائد بلوچ لاپتہ ہیں، جبکہ ہزاروں کی تعداد میں مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے کونے کونے سے برآمد ہوئیں ہیں، جو ریاستی وحشیانہ کارروائیوں کا تسلسل ہے۔ اس بربریت کا مقصد بلوچ قومی آزادی کو سلب کرنا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی قوم کو مارنے سے تباہ نہیں کیا جا سکا ہے، اگر قومیں مارنے سے تباہ ہوتے تو آج الجزائر و ویتنام کا نام و نشان اس دنیا سے مٹ جاتا جہاں پر ہزاروں ویتنامی و الجزائری لوگ قتل کر دیئے گئے تھے، جنہوں نے آزادی کی بات کی تھی لیکن آج الجزائر و ویتنام آزاد ریاست کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر قائم و زندہ قومیں ہیں۔
یہ پاکستان کی بھول ہے کہ وہ بلوچ قوم پر طاقت کے ذریعے دائمی قبضہ کرنے میں کامیاب ہو پائے گا کیونکہ آزادی کے جزبے سے سرشار بلوچ نوجوان آج اپنی زمین کی خاطر مرنے پر تیار ہیں، بچوں سے لیکر بزرگوں تک سب قومی آزادی کی خاطر قربانی دینے کو تیار ہیں۔ شہید شاید ندیم کے بزرگ باپ واجہ لال بخش اپنے بیٹے کے جنازے پر ماتم کرنے کے بجائے خوشی سے فخریہ انداز میں قوم کو یہی پیغام دیتا ہے کہ آزادی کے خاطر ہم سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں۔ یہ جزبہ آج بلوچ بچے بچے میں پایا جاتا ہے، جس کے خلاف دشمن بھی کمر بستہ ہے اور کئی بچوں و عورتوں کو لاپتہ کر چُکا ہے۔ یہ دشمن کی ہار ہے کہ بلوچستان میں بچوں و عورتوں کی گمشدگی کا سلسلہ شروع ہو چُکا ہے اب قابض یہ بخوبی علم رکھتا ہے کہ بلوچستان میرے ہاتھوں نکلنے والا ہے، اس لیئے وہ ایسے جارہانہ حرکتوں پر اُتر آیا ہے۔
آج 11 اگست کے دن یعنی ہماری آزادی کے دن میں پورے بلوچ قوم کو بشمول شہید و پس زندان لوگوں کو مبار پیش کرتا ہوں، آج ہماری آزادی کا دن ہے جس آزادی کو پانے کیلئے ہزاروں بلوچوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور آیئے آج کے دن ایک عہد کرتے ہیں کہ اپنے شہیدوں کے فکر و فلسفے کو لیکر آگے چلیں گے، پاکستان جیسے جابر ریاست کے خلاف اپنی آزادی کے جدوجہد کو منزل مقصود تک پہنچائیں گے، آؤ! عہد کرتے ہیں کہ دشمن سے اپنے شہیدوں کا بدلا لینگے جنہوں نے اپنی جانیں ہمارے کل کیلئے قربان کر دیئے۔