تحاریک میں خواتین کا کردار اور بلوچ تحریک – کمبر لاسی ‎

993

تحاریک میں خواتین کا کردار اور بلوچ تحریک

‎تحریر : کمبر لاسی

دی بلوچستان پوسٹ

‎اگر پسماندہ معاشروں کی بات کریں، تو وہاں ہر انسان ذلت کی زندگی گزار ہا ہوتا ہے۔ ہر فرد بس اپنی ذات کیلئے جی رہا ہوتا ہے۔ انہی سماج میں مظلوم عوام جب جدوجہد کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو بالادست قوت مظلوموں کی جدوجہد کو کچلنے کے لیئے مختلف طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔

‎انہی ہتھکنڈوں کے ذریعے مظلوم قوموں کے ذہنوں کو بھٹکانے اور جدوجہد کے اصل رنگ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ مظلوموں کی جدوجہد کی شروعات سامراج کی موت ہوتی ہے۔

‎اس ذہنیت کو اتنی تقویت دی جاتی ہے کہ مظلوم جدوجہد نہیں کرسکتے ہیں یا ان کی جدوجہد ان کیلئے تباہی کی باعث بنے گی جبکہ بعض اوقات مفاد پرستوں کے ذریعے انقلابی تحریک کو وسائل یا محدود حقوق کی جدوجہد میں بدلنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔

‎اسی طرح محکوم سماج کو مختلف طبقوں میں تقسیم کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے، خاص طور پرعورت کو سماج کا سب سے نازک طبقہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عورتوں کو جدوجہد سے دور کرنے یا ان کے سامنے رکاوٹ کھڑی کرنے کیلئے عورتوں کو چار دیواری کی عزت کہہ کر ان کے حوصلوں کو پست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ رٹی رٹائی جملے ہر سماج میں دہرائی جاتی ہے کیونکہ بالادست قوتوں کو خواتین کی طاقت کا اچھا خاصہ تجربہ ہوتا ہے۔

‎تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کسی بھی سماج میں عورت کی جدوجہد میں شامل ہونے کے بغیر تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ کسی بھی سماج میں تبدیلی کیلئے لازم ہے کہ جدوجہد میں صنفی امتیاز نہیں ہونا چاہیئے اور مرد و خواتین کی یکساں جدوجہد کرنے سے تبدیلی ممکن ہے۔

‎انقلابات کا مطالعہ و موازنہ کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خواتین کی جدوجہد سماج میں روح کی اہمیت رکھتی ہے۔ روح کے بغیر جسم مردہ حالت میں ہوتی ہے، اسی طرح اگر مرد جدوجہد کرتے ہیں اگر اس جدوجہد سے تبدیلی بھی آجائے لیکن اس تبدیلی کی رنگ مختلف ہوتی ہے کیونکہ اس جدوجہد میں معاشرے کی اکثریت کی رائے نہیں ہوتی۔

‎جیسا کہ انسانی تاریخ کی پہلی تبدیلی زراعت کی ابتداء سے شروع ہوئی۔ زراعت کے ابتداء کے بعد سب سے بڑی تبدیلی صنعتی انقلاب سے لے کر مختلف ادوار میں جتنی بھی تبدیلیاں آئی ہیں، ان تمام تبدیلیوں میں عورتوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

‎تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے دنیا کے انقلابی تحریکوں نے محکوم سماج میں صنفی سماج میں امتیاز کو ختم کیا ہے۔ اگرہم 16ویں صدی سے لے کر بیسوی صدی کو آئیں تو ہمیں جتنے بھی انقلابات ملیں گے، وہاں معاشرے کو تبدیل کرنے کی جدوجہد میں عورت صف اوّل میں رہی ہے۔

‎اگر تاریخ کی اہم انقلابی تحریکوں کا ذکر کریں، یہاں بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جنگ کے دوران عورتوں نے اہم کردار ادا کیئے ہیں۔

جون آف آرک، ایماگولڈمان،گولڈ امیئر، کلارازیٹکن، لیلیٰ خالد، اندرا گاندھی، شیخ حسینہ واجد ،سکینہ کینسزکرد وغیرہ دنیا میں آئیڈل کردار ہیں۔ انہوں نے اپنی جدوجہد سے تاریخ میں اہم مقام حاصل کی ہے۔

‎جون آف آرک نے فرانسیسی قوم کو خواب غفلت سے جگایا اور فرانسیسیوں کو بطور قوم متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور آخری سانس تک جدوجہد کرتا رہا۔

‎ایماگولڈمان نے مظلوموں کی جدوجہد میں ہر طرح کی مصیبتیں برداشت کیئے، اپنے مقصد کے خاطر ہر طرح کی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ ایما ایک باغی مزاج انقلابی خاتوں تھی، جس کی جدوجہد کا اہم مقصد انسان کی آزادی تھی، اپنے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے زندگی کا طویل عرصہ جیل میں گزارا۔ ایما کے حوالے سے مشہور ہے کہ وہ ہر وقت اپنے بیگ میں کتابیں رکھتیں تھیں، جب ان سے پوچھا گیا ’’آپ ہر وقت اپنے بیگ میں کتابیں کیوں ساتھ رکھتے ہیں؟‘‘ تو ایما گولڈن مان نے انتہائی خوبصورت جواب دیا ’’مجھے کسی بھی وقت گرفتار کیا جاسکتا ہے اس لیے میں کتابیں اپنے ساتھ رکھتا ہوں اگر مجھے گرفتار کیا گیا تو جیل میں میرے پاس کتابیں ضرور موجود ہونی چاہیئے۔‘‘

‎گولڈامئیر نے اسرائیلی ریاست کے قیام کی جدوجہد سے لے کرریاست کی مضبوطی تک اپنی تمام زندگی اسی جدوجہد میں وقف کیا اور اسرائیل کی تیسری وزیر اعظم بھی منتخب ہوئے۔

‎کلارازیٹکن نے جرمنی میں انقلابی جدوجہد میں خواتین کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا اور دنیا کے مزدور طبقہ کی جدوجہد میں بھی اہم کردار تھا۔

‎لیلیٰ خالد نے فلیسطینی ریاست کے قیام کی جدوجہد میں اہم گوریلہ رہنماء کا کردار ادا کیا، لیلیٰ خالد کو یہ اعزازبھی حاصل ہے کہ انہوں نے بطور پہلی عورت سیاسی مطالبات منوانے کیلئے دنیا میں ایک جہاز ہائی جیک کیا۔ قدامت پسند عرب سماج میں لیلیٰ خالد کی جدوجہد اورقربانیاں عظیم مثال ہیں ۔

‎شیخ حسینہ واجد اُس خاندان کا وارث ہے جس نے بنگلہ دیش کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور اس جدوجہد میں حسینہ واجد نے اپنے خاندان کو قربان کیا لیکن اپنی جدوجہد سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں اور آج بطور ریاست کے سربرہ مذہبی جنونیت اور بنگالی قوم کے غداروں کے خلاف جدوجہد کررہی ہیں۔

‎لیکن اگر ہم بلوچ تحریک میں خواتین کے کردار کا جائزہ لیں تو دیکھتے ہیں کہ یہاں خواتین کی کردار انتہائی محدود ہے۔ تاریخی حوالے سے بلوچ سماج سیکولر ہونے کے باوجود ستر سالوں سے جاری تحریک میں خواتین کی کردار آٹے میں نمک کے برابر ہونا کسی المیے سے کم نہیں ہے۔ بلوچ قومی آزادی کی تحریک میں مسلح جدوجہد ستر برسوں سے کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے لیکن آج تک کوئی خاتوں گوریلا سامنے نہیں آسکا۔ یقیناًبلوچ قیادت نے اس امرکی کبھی ضرورت محسوس ہی نہیں کی ہے یا پھر یہ ہوسکتا ہے کہ بلوچ قیادت بھی سامراجی طاقتوں کے مشہور کردہ اصطلاح ’’صنف نازک ‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔

‎میں سمجھتا ہوں بلوچ نیشنل موومنٹ جیسی سیاسی پارٹی کی موجودگی، بلوچ سماج میں انقلابی کامیابی ہے۔ لیکن بلوچ نیشنل موومنٹ کو قومی پارٹی بننے کے سفر میں اب بھی کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ جن سے انتہائی سنجیدگی سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر خواتین کو کس طرح سیاسی پلیٹ فارم کا حصہ بنایا جائے اس پر سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیئے۔ کیونکہ بلوچ سماج کی امیدیں صرف بی این ایم سے وابستہ ہیں۔ وقت اور حالات کا اہم تقاضہ یہ ہے کہ بی این ایم کی قیادت سماج کی فرسودہ روایات کو ختم کرنے کیلئے انقلابی فیصلہ لیں شائد آج ان فیصلوں کی مخالفت بھی ہو لیکن تاریخ بی این ایم کے ان فیصلوں کو عظیم تاریخی فیصلوں کی صف میں شامل کرے گی۔