تاریخ، علامتیں، والدین اور فدائین ریحان جان
کوہ دل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
تاریخ زندہ کیسے رہ سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب مجھے اپنی زندگی میں تب ملا جب ریحان نے اپنے ماں باپ سے رخصت کرکے وطن مادر کے دفاع کیلئے دشمن پر فدائین حملہ کرنے کا راستہ چُن لیا. مجھے تو اتنا معلوم تھا کہ بلوچستان میں پہلا فدائی حملہ شہید مجید بلوچ نے کیا تھا، مگر یہ بالکل بھی معلوم نہیں تھا کہ شہید مجید بلوچ نے فدائی حملہ کب کیسے اور کہاں کیا تھا، مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ تامل تحریک میں بھی فدائی حملہ کرنے والوں کی بڑی تعداد تھی، حتیٰ کہ یہ بھی میرے علم میں نہیں تھا کہ ایسے حملے کُرد آزادی پسند جنگجوؤں نے بھی کیئے تھے. لیکن جب حقیقی کردار اندھوں کے نظروں سے اندھیرا ہٹا کر اپنی کارکردگی دکھا کر سامنے سے گذر جاتے ہیں تو تاریخ پر اُٹھے ہوئے سوالات کے جوابات بھی مل جاتے ہیں اور سچائی جشن مناکر اپنے ہونے کا ثبوت دیتا ہے.
میرے اس سوال کا جواب ریحان کے عملی کردار نے دے دیا کہ تاریخ کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟ ریحان سے پہلے درویش اور مجید کی رقم کی ہوئی تاریخ کے سوا دنیا کا کوئی بھی فدائین حملہ کرنے والوں کا تاریخ نظروں سے نہیں گذرا تھا، لیکن ریحان نے وطن اور قوم کے آزادی کیلئے فدائی حملہ کرکے نہ صرف سامراجیوں کو للکارا ہے، بلکہ دنیاء کے تمام فدائی حملے کرنے والوں کی تاریخ کو بھی زندہ کر دیا ہے. ریحان کی بہتے لہو نے مظلوموں کے حق میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی تاریخ کو قارئین اور محققین کے سامنے لے آیا اور مجھ جیسے ادنیٰ طالب علموں کو بھی تاریخ سے شناسہ کر دیا، اور آج میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں صدیوں پُرانی تاریخیں اگر زندہ ہیں تو ان تاریخوں کو ریحان جیسے جانثاروں نے کٹھن راہوں سے گذر کر نا ختم ہونے والی زندگی دی ہے.
تاریخ اور قومی وجود کو ہمیشہ زندہ رکھنے کی علامتی پہچان سرفروشوں کے سینے میں جنم لیتے ہیں، فکر اور پُختہ نظریہ اس کی بیج بوکر اسے سینچتے ہیں، حُب الوطنی اس کی آبیاری کرتا ہے. اور جس کے سینے میں یہ آبپاشی ہوتی ہے، وہ صدا زرخیز و سیراب رہتا ہے. اسی طرح ریحان حقیقی علامتوں کو سمجھ چکا تھا، وہ سچائی سے واقف ہو چکا تھا اور ایک جذبے کو ورثے میں پا لیا تھا.
مثبت علامتیں انسان میں قومی جذبہ پیدا کرتے ہیں، جو حب الوطنی پر مر مٹنے کا راہ دکھاتے ہیں، یہ شعور ہی ہے جو انسان کے اندر علامتی پہچان کو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے اور یہ صلاحیتیں کسی درس گاہ سے حاصل ہوتے ہیں.
کہتے ہیں کہ انسان کا پہلا درسگاہ ماں کی گود ہے اور ریحان وہ خوش قسمت نوجوان تھا جس کو یاسمین جیسی بہادر ماں کی گود یعنی درسگاہ نصیب ہوا، اور انسان کو زندگی کا مقصد اور دنیا کے پہچان کا ہنر اُس کے گھر میں ماں باپ کی تربیت سے حاصل ہو جاتا ہے جبکہ ریحان وہ خوش نصیب بیٹا تھا جو اسلم جیسے نظریاتی انسان کے گھر میں پیدا ہوا، اُستاد اسلم اور شیرزال یاسمین کی تربیت نے اُسے تاریخ سے نہیں جوڑا بلکہ ایک نئی تاریخ کو جنم دے دیا.
ظاہر ہے بہادر مائیں تو بیٹے اسی لیئے جنم دیتی ہیں کہ قربانی کا مسلسل چلتا ہوا یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہو اور بانجھ جیسی لفظوں کو لُغات کے کتابوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نکال دیا جائے.
وطن، قوم، آزادی، مساوات اور حق رائے دہی یہ بھی اُن علامتوں میں شمار ہوتے ہیں، جو انسان کی حقیقت کو بروئے کار لاکر سامنے لے آتے ہیں۔ انسان فطرت کو سمجھے بنا ادھورا ہے اور ان علامتوں کا زندگی میں نہ ہونا انسان کی وجود کو ہی مٹا دیتے ہیں.
ریحان بلوچ کو جب فدائی حملے کیلئے تیار کرنے کے دوران اس کی بہادر ماں بلوچستان کے پرچم کاندھوں پر ڈال دیتی ہے وہ بھی ایک علامت ہے، مجھ جیسے نا اہل انسانوں کیلئے وہ محض تین رنگوں کا ایک کپڑا ہے لیکن جسے ان رنگوں نے قومی جذبہ، حوصلہ اور بہادری کا فن سکھایا تھا وہ ریحان تھا، کیونکہ وطن کے ہر سپاہی کے قربانی میں یہ پیغام اعلانیہ ہوتا ہے کہ اے مادرِ وطن جب تک ہم زندہ ہیں اس پرچم کو کبھی گرنے نہیں دیں گے اور وطن کے نڈر سپاہی ریحان نے جاتے جاتے مجھے تاریخ اور علامتی پہچان کی معنی سے خوب آشنا کر دیا اور اس پرچم کے رنگوں کی علامت بھی ماں، باپ اور بیٹے نے واضح کر دیا کہ ان رنگوں کا ہمارے لیئے کیا پیغام ہے.
سلام ہے اُستاد اسلم اور بہادر ماں یاسمین بلوچ کو جو اپنے لخت جگر کو خود اپنے ہاتھوں سے سجا کر وطن کے خاطر قربان کرنے کیلئے بھیج دیتے ہیں اور ماں کے ہونٹوں پہ ذرا سی بھی جنبش اور آنکھوں نمی دکھائی نہیں دیتی ہے.
ریحان:
“دل چھوٹا نہیں کرو ماں”
اور
ماں:
“جا بیٹا میں نے تجھے وطن کیلئے قربان کردیا”
جب جب بلوچ تاریخ کو دہرایا جائےگا، اس عظیم ماں اور بیٹے کے ان الفاظ کو بڑے فخر سے یاد کیا جائےگا۔ مجھے اُس بوڑھی ماں کی وہ بات ابھی تک یاد ہے، جس نے سب کے سامنے فخریہ انداز میں کہہ دیا تھا کہ رضا جہانگیر میرا نہیں مادر وطن بلوچستان کا بیٹا تھا جو اُس پر نذر ہوا لیکن ماؤں کے اس جراّت کو یاسمین نے پروان چڑھایا اور ایک نئی مثال قائم کردی.
کچھ روایتی لوگ یہی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ لوگ کس قدر بےحس ہوچکے ہیں، اپنے ہی لخت جگر کو خود موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہے مگر در حقیقت بےحسی کا لبادہ خود اوڑھے ہوئے ہیں۔ مانتا ہوں اولاد کی درد کو صرف والدین ہی سمجھ سکتے ہیں اس کا مجھے احساس بھی ہے.
مجھے یاد ہے ہمارے علاقوں میں قبائلی جنگوں کا عروج تھا اور اسی فرسودہ جنگوں میں ہمارے چند ہمسائے بھی سرداروں کے مہربانیوں سے شمال کیئے جا چکے تھے. ایک دن اُن میں سے ایک بزرک کو راستے پہ بیٹھے بیٹے کے انتظار میں دیکھا، اُس بوڑھے باپ کو اولاد کیلئے تڑپتے دیکھا اور اُسی درد سے محسوس کیا کہ اولاد کس قدر عزیز ہوتا ہے.
اور آج میں بیٹھ کر سوچتا ہوں تو وہ علامتیں میرے ذہن میں گردش کرنے لگ جاتے ہیں، جسے وطن کے عاشقان اپنے کندھوں پر ماں کے ہاتھوں اوڑھ کر دشمن کے ٹھکانوں کا رُخ کرتے ہیں۔ اگر استاد اسلم اور یاسمین جیسی عظیم ماں نے یہ اقدام اُٹھائی ہے، یہ درد وطن کی ہے جو اولاد کے بچھڑنے سے بھی زیادہ تکلیف دیتی ہے جب غیروں کا اُس مادر وطن پر قبضہ جما ہوتا ہے.
یہ بےحسی نہیں یہ عشق کا تقاضا ہے، یہ مادر وطن کے قرض اُتارنے کا ایک عظیم عمل کہلاتا ہے جو ہر ماں باپ اور بیٹے کو نصیب نہیں ہوتا.