بی ایس او کا کامیاب سفر ایک تاریخی جائزہ – ہارون بلوچ

1131

بی ایس او کا کامیاب سفر

ایک تاریخی جائزہ

ہارون بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بی ایس او کا بنیاد بلوچ اسٹوڈنٹ ایجوکیشنل آرگنائزیشن کے نام سے 1962 کے ادوار میں کراچی میں رکھا گیا، اس تنظیم کا بنیاد رکھنے کا مقصد بلوچ نوجوانوں کو ایک ایسا فلیٹ فارم مہیا کرنا تھا جس کا مقصد تھا کہ وہ نوجوانوں کو اکھٹا کرکے اُنہیں سیاسی شعور دیں تاکہ وہ بلوچ قوم کو آنے والے وقت میں منظم کرکے اُنہیں ایک مظبوط تحریک کی بنیاد رکھنے میں کامیاب بنائیں، چونکہ یہ جنرل ایوب کی ڈکٹیٹرشپ کا زمانہ تھا سیاسی جدوجہد پر مکمل قدغن لگا ہوا تھا، اس لیئے بلوچ نوجوانوں نے لفظ ایجوکیشنل ڈالا ہوا تھا، تاکہ دشمن ہمارے سیاسی ایکٹیوزم پر نظر رکھ نہ سکیں اور وہ یہی سمجھیں کہ تنظیم کا مقصد بس تعلیمی مسئل پر ہے تنظیم کا پہلا چیئرمین چنگیز عالیانی منتخب ہوا، اس کے بعد 1962 سے 1967 یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا اور تنظیم سے وابستہ مخلص دوست تنظیم کو بلوچ نوجوانوں کے اندر منظم کرتے رہے لیکن اس وقت تنظیم بس کراچی کے اندر کام کر رہا تھا جبکہ بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں تنظیم اور اُس کے پروگرام سے عام لوگوں سمیت نوجوان لاعلم تھے۔ اس لیئے اب تنظیم سے وابستہ مخلص ساتھی تنظیم اور اس کے پروگرام کو بلوچستان کے بچے بچے سے واقف کرانا چاہتے تھے اس لیئے اُنہیں نے تنظیم کے نام سے لفظ ایجوکیشنل نکال دیا اور بی ایس او اپنے باقاعدہ نام سے 26 نومبر 1967 کو اپنے پہلے کونسل سیشن کے بعد سامنے آیا۔

اسی کونسل سیشن میں یہ اعلان بھی کیا گیا کہ بی ایس او کراچی اور سندھ سمیت بلوچستان کے ہر کونے میں سرگرم ہوگا، جہاں بلوچ رہتے ہیں۔ کونسل سیشن میں عبدالحئی بلوچ بی ایس او کا پہلا چیئرمین منتخب ہوا جبکہ جنرل سیکٹری کے لیئے بیزن بلوچ کو چنا گیا۔ بلوچ نوجوانوں کے لیے بی ایس او کا اپنے نام کے ساتھ سامنے آنا اور باقاعدہ بلوچستان میں سرگرم ہونے کا اعلان کرنا واقعی میں ایک نیک شگون تھا، البتہ یہیں سے بی ایس او کے لیڈرشپ کے درمیان نا ختم ہونے والے اختلافات جنم لیتے ہیں کیونکہ کے تنظیم سے وابستہ کچھ لوگ نیپ(NAP) سے نزدیکی رکھتے تھے، جبکہ کچھ لوگ پیپلز پارٹی سے نزدیکی رکھتے تھے جن میں سابقہ سیکریٹری جنرل عبدالرحیم ظفر امان اللہ گچکی اور صابر شامل تھے۔

پھر کیا ہونا تھا کہ تنقید کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا، پیپلز پارٹی سے نزدیکی رکھنے والوں نے بی ایس او کے چیئرمین اور جنرل سیکرٹری پر الزامات لگانے شروع کئے، اُنہوں نے الزام عائد کیا کہ عبدالحئی نے اپنے گروپ کے ساتھ بی ایس او کو سرداروں کے ہاتھوں یرغمال بنایا ہوا ہے اور پھر کچھ ہی وقت میں بی ایس او کو توڑنے کا اعلان کر دیا اور بی ایس او اینٹی سردار کے نام سے بی ایس او کا ایک الگ دھڑا بنایا جبکہ حئی گروپ نے اُن پر یہ الزامات لگائے کہ یہ لوگ پیپلز پارٹی اور ایجنسیوں کے لوگ ہیں، جو بی ایس او کو توڑنا چاہتے ہیں۔ البتہ نزدیکیاں دونوں جانب تھے، اس کا پردہ چاک اُس وقت ہوا جب بی ایس او حئی گروپ کے چیئرمین نیب کے ٹکٹ سے الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے پارلیمنٹ کا حصہ بن گیا، جبکہ دوسری جانب اینٹی سردار کے سارے لیڈر بی ایس او سے فارغ ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے اندر چلے گئے، اینٹی سردار کے بانی عبدالرحیم ظفر اپنے کتاب سنگ لرزاں میں اس بات کا کئی جگہوں پر اعتراف کرتا ہے۔

کچھ وقت گُذرنے کے بعد 1972 میں بی ایس او اینٹی سردار اپنا کونسل سیشن منعقد کرتا ہے، کونسل سیشن میں تاج بلوچ چیئرمین منتخب ہوتا ہے، اس وقت تک پیپلز پارٹی کے اثر و رسوخ بی ایس او پر ختم ہوا تھا، البتہ سرداری نظام کے بارے میں اُن کے موقف میں تبدیلی نہیں آئی تھی۔ جبکہ دوسری جانب بی ایس او عوامی کا کونسل سیشن اُردو کالج کراچی میں منعقد ہوا جس کا چیئرمین موجودہ بلوچ قومی تحریک کا ایک سرگرم رہنماء واجہ عبدالنبی بنگلزئی منتخب ہوا۔ ایک طلبہ تنظیم کی حیثیت سے بی ایس او اپنا پروگرام بلوچ نوجوانوں کے اندر پھیلاتا گیا، بلوچستان کے کونے کونے میں تنظیم کو منظم کرتا رہا جبکہ حالات اس وقت بلوچ کے حق میں نہیں تھے کیونکہ اس وقت کئی بلوچ رہنماء زندانوں میں قید تھے، جبکہ ضیاء کی حکومت آنے کے بعد ان سب کو چھوڑ دیا گیا۔
اس کے کئی وجوہات تھے، ایک تو جو بلوچ 70 کی دہائی میں بھٹو کے دور میں قتل عام پر ناراض تھے، اُنہیں منایا جائے جبکہ دوسری جانب ضیاء اپنے لیئے بلوچ رہنماؤں سے ہمدردی حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن بلوچ قیادت نے پاکستان سے مذاکرات کرنے کے بجائے جلاوطن ہونا مناسب سمجھا اور نواب خیر بخش مری اپنے ساتھیوں سمیت افغانستان چلا گیا۔

اس مشکل وقت و حالات میں بی ایس او نے ہتھیار ڈالنے کے بجائے اپنے سیاسی سرگرمیوں کو بلوچستان کے اندر جاری رکھا اور جدوجہد کرتے رہے تاکہ آنے والے وقتوں میں ایک منظم تحریک کا آغاز کر سکیں۔

کچھ وقتوں بعد بی ایس او کے رہنماؤں نے یہ سمجھا کہ ہمارے درمیان اختلافات بےبنیاد ہیں جبکہ ہمیں ایک ہوکر بلوچ قومی تحریک کے لیے ایک منظم جدوجہد کا آغاز کرنا چاہیئے اس لیئے دونوں گروپوں کی جانب سے مشترکہ فیصلے کے بعد 1974 میں کونسل سیشن بلایا گیا، جس میں ایوب بلوچ چیئرمین اور یاسین بلوچ جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ انضمام کے بعد بی ایس او نے اپنے آپ کو پورے بلوچستان میں منظم کیا اور 1986 میں اپنا کونسل سیشن منعقد کیا جس میں تقریباً ایک لاکھ کے لگ بھگ لوگوں نے شمولیت کی۔

کونسل سیشن میں چیئرمین ڈاکٹر یاسین بلوچ اور جنرل سیکرٹری وحید بلوچ منتخب ہوئے، کونسل سیشن میں ایسے کوئی اختلافات دیکھنے کو نہیں ملے البتہ بعد میں یہ اندرونی اختلافات سب کے سامنے عیاں ہو گئے۔ ایک طرف وائس چیئرمین ڈاکٹر کہور خان افغان گروپ سے نزدیک تھا، جبکہ ڈاکٹر یاسین گروپ عبدالحئی ڈاکٹر مالک اور منظور گچکی والوں سے نزدیک تھا۔ ان کے اختلافات آخر کار ایک ایسے اسٹیج تک آ پہنچے جہاں ان کے کارکناں ایک دوسرے کو جانی نقصان دینے تک کو تیار تھے۔

بی ایس او پھر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا اور ڈاکٹر کہور خان نے اپنا ایک دوسرا گروپ بنالیا اور اس کا کونسل 1987 میں منعقد کیا، جس میں اُنہوں نے اپنے گروپ کا نام بی ایس او سُہب رکھا اس کے بعد 1988 میں فدا کی شہادت کے بعد بی ایس او کی لیڈرشپ ناکام ہو گیا، جبکہ زیادہ تر کرپٹ نکلے اور کچھ پارلیمنٹ میں چلے گئے اور عوام کے اندر بی ایس او حوالے ایک مایوسی پھیل گئی۔ البتہ ایسا بھی نہیں کہ بی ایس او کے سارے کارکنان جدوجہد سے جُدا ہو گئے اس وقت بھی کچھ ایسے لیڈر تھے جو اب بھی غیر پارلیمانی سیاست پر یقین رکھتے تھے اور بی ایس او کی مکمل آزاد حیثیت چاہتے تھے، انہی میں ایک واجہ ڈاکٹر اللہ نظر تھے، ڈاکٹر اللہ نظر اُس وقت بلوچستان نیشنل موومنٹ کے بی ایس او جس کا اُس وقت نام بی ایس او محراب تھا کے سینئر وائس چیئرمین تھے۔

فروری 2002 کو بی ایس او محراب کا کونسل سیشن منعقد ہوا، جس میں ڈاکٹر اللہ نظر دوسرے مخلص ساتھیوں سمیت کونسل سیشن کا بائیکاٹ کرتے ہیں، اس کا بنیادی وجہ نادر قدوس اور اُن کے ساتھیوں کا پاکستانی پارلیمنٹ طرز سیاست تھا۔ جس کے بعد ڈاکٹر اللہ نظر نے بی ایس او کا کونسل سیشن منعقد کیا، جس میں ڈاکٹر اللہ نظر چیئرمین منتخب ہوئے جبکہ اسی کونسل سیشن میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ بی ایس او آج کے بعد پارلیمانی سیاست نہیں کرے گا جبکہ وہ اپنی آزاد حیثیت سے بلوچستان میں کام کرے گی اور تنظیم کا نام بی ایس او محراب سے بی ایس او آزاد رکھا گیا جبکہ دوسری جانب نیشنل پارٹی سے نزدیک لوگوں نے اپنا ایک دھڑا بی ایس او نادر قدوس بنایا۔

ایک جانب بی ایس او آزاد جو غیر پارلیمانی سیاست پر یقین رکھتا تھا، جبکہ دوسری جانب بی ایس او نادر قدوس جو پارلیمانی سیاست پر بھروسہ رکھتا تھا، اس وقت بلوچستان میں بی ایس او کے دو مزید ٹکڑے تھے، ایک بی ایس او مینگل جو بی این پی مینگل کا اسٹوڈنٹ ونگ تھا، جبکہ ایک اور بی ایس او جو بی ایس او استار کے نام سے مہشور تھا، جو ظاہری طور پر کسی کے ساتھ نزدیکی نہیں رکھتا تھا۔

چونکہ ڈاکٹر اللہ نظر نے پہلی مرتبہ بی ایس او کا مکمل آزاد حیثیت بحال کر دیا تھا، جو بی ایس او کی تاریخ میں ایک تاریخی فیصلہ تھا کیونکہ اس سے پہلے جو بھی چیئرمین آیا تھا، اُن سب کا کوشش یہی رہی تھی کہ وہ بی ایس او کو اپنے مفادات کے لیئے استعمال کریں، جس کے نقصانات یہ نکلے تھے کہ بی ایس او جیسا منظم تنظیم بار بار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا تھا اور بلوچ نوجوان دوسری جانب اپنے قومی فرائض سے روز بروز غافل ہو رہے تھے۔ اس لیئے ڈاکٹر اللہ نظر صاحب نے اپنے ذاتی مفادات کو بالائے تاک رکھ کر قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے بی ایس او کو جانبداری سے نکال کر غیر جانبداری کی جانب روان کیا، جو بی ایس او و بلوچستان کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے الفاظ میں یاد کیا جائے گا۔

ڈاکٹر اللہ نظر کے تاریخی فیصلے نے دوسرے تنظیموں کے کارکنان کے ذہنوں میں یہ سوال جنم دیا کہ اگر بی ایس او آزاد اپنا آزادانہ حیثیت بحال کر سکتا ہے تو ہم اپنے تنظیم کو کیون غیرجانب دار نہیں بنا سکتے؟ جس کے بعد سارے بی ایس او کے ٹکڑوں میں ایک سوال جنم لینے لگا کہ تنظیم کی آزادانہ حیثیت بحال کی جائے، جس کے بعد بی ایس او استار جس کا چیئرمین شہید حمید شاہین تھے، نے بی ایس او آزاد کے ساتھ انضمام کے لیے گفت و شنید کا آغاز کیا، کچھ دیوانوں کے بعد آخرکار اُنہوں نے انضمام کا فیصلہ کرتے ہوئے بی ایس او کا انضمام کا اعلان کیا اور نام بی ایس او متحدہ رکھا گیا، اس کے بعد ڈاکٹر اللہ نظر اور حمید شاہین اسٹوڈنٹ پولیٹکس سے کنارہ کش ہو گئے اس کے بعد دوسرے تنظیموں کے مخلص کارکناں نے اپنے لیڈرشپ پر دباؤ ڈالا کہ وہ بی ایس او کے انضمام کا حصہ بنے، جس کے بعد بی ایس او کے تین ٹکڑے بی ایس او سنگل کے نام سے ایک ہو گئے۔

بی ایس او کے ٹکڑوں کا ایک ساتھ ہونے کے بعد پارلیمانی پارٹیوں کے اندر ایک خوف سہ ماحول جنم لینے لگا، ایک خوف یہ تھا کہ اگر بی ایس او اپنی آزادانہ حیثیت سے جدوجہد کرنے لگا تو آنے والے وقتوں میں یہ اسٹیبلشمنٹ اور اُن سیاسی پارٹیاں کے لیے ایک نیک شگون عمل نہیں ہوگا، اس لیئے اُنہوں نے اپنے اپنے ہتھکنڈے استعمال کئے اور متحدہ کے ڈپٹی سیکرٹری واحد رحیم کو نیشنل پارٹی نے استعمال کرنا شروع کیا، واحد رحیم نیشنل پارٹی کے ایجنڈے پر کام کرنے لگا اور مختلف سرکلوں میں نیشنل پارٹی کا پروپگنڈا جاری رکھا، اس عمل کو بھانپتے ہوئے بی ایس او کے لیڈرشپ نے کوئٹہ میں ایک دیوان کا انعقاد کیا تاکہ واحد رحیم سے جواب طلبی ہو لیکن اُس نے دیوان میں حصہ نہیں لیا اس لیئے تنظیم نے اُس کی رکنیت معطل کرتے ہوئے اُس کا عہدہ چھین لیا، جس کے بعد واحد رحیم نے بی ایس او بچار کے نام سے ایک دھڑا بنایا، جو ابھی نیشنل پارٹی کا اسٹوڈنٹ ونگ تنظیم ہے۔

اسی دوران بی ایس او متحدہ نے اپنا کونسل سیشن پنجگور میں منعقد کیا، جس میں چیئرمین ڈاکٹر امداد بلوچ اور جنرل سیکرٹری سعید یوسف بلوچ منتخب ہوئے یہ یہی وقت تھا جب شہید غلام محمد نے نیشنل پارٹی سے کنارہ کشی کرکے بلوچ نیشنل موومنٹ کو سامنے لایا تھا، جس کا مقصد پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف جدوجہد کرکے ایک آزاد ریاست بلوچستان کا تشکیل تھا۔ اب بلوچ جدوجہد ایک نئے موڑ پر آ چُکا تھا، ایک طرف بلوچ نیشنل موومنٹ کا قیام تھا دوسری جانب مسلح تنظیمیں بھی اپنے آپ کو منظم کر رہے تھے، جبکہ ایک طرف بی ایس او ریاستی قبضہ گیریت کو اب مکمل چیلنج کرنے لگا تھا اب دشمن جان چُکا تھا کہ بلوچ نوجوان ایک منظم شکل اختیار کرنے لگے ہیں، اسی لیئے ریاستی فوج و ایجنسیوں نے بلوچستان پر توجہ دینا شروع کیا اور مختلف علاقوں میں آپریشن کا باقاعدہ آغاز کیا، کچھ ہی وقت بعد 2005 میں پاکستانی ایجنسیوں نے ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ، اُس کے چھوٹے بھائی شہید علی گوہر، ڈاکٹر نسیم بلوچ، ڈاکٹر یوسف بلوچ بی ایس او کے سابقہ چیئرمین امداد بلوچ، اختر ندیم بلوچ اور غلام رسول بلوچ کو کراچی سے اغواہ کیا، ان کی جبری گمشدگی کیخلاف بی ایس او نے زبردست جدوجہد کی اور بالآخر پاکستانی ایجنسیاں مجبور ہوئے کہ اُنہیں رہا کریں، ڈاکٹر کے کچھ ساتھیوں کو پہلے رہا کیا گیا، جبکہ اُنہیں اختر ندیم اور علی گوہر کے ساتھ بعد میں منظر عام پر لایا گیا۔

بی ایس او اب ایک نئی شکل اختیار کر چُکا تھا، بی ایس او کے کارکنان آزادی کا پیغام گھر گھر پہنچا رہے تھے، اب وہ وقت آچُکا تھا کہ بلوچستان میں پاکستانی قبضہ گیریت کو چیلنج کیا جائے، بی ایس او نے اپنا اگلا کونسل سیشن کوئٹہ میں منعقد کیا جس میں بشر زیب چیئرمین، سنگت ثناء وائس چیئرمین، سیکریٹری جنرل گلزار بلوچ منتخب ہوئے۔ اسی کونسل سیشن میں کونسلران نے فیصلہ کیا کہ بی ایس او اب بلوچ قومی آزادی کی خاطر کام کرے گی اور آئین میں باقاعدہ یہ لکھا گیا کہ بی ایس او آزاد بلوچ سرزمین کی آزاد حیثیت کی بحالی کے لیئے جدوجہد کرے گی، سیشن کے بعد بی این پی مینگل اور نیشنل پارٹی نے اپنے اسٹوڈنٹ ونگ کو باقاعدہ ایکٹیو کیا، بچار نیشنل پارٹی کے لیئے کام کرنے لگا جبکہ بی ایس او محئی الدین بی این ہی مینگل کے لیے کام کرنے گا۔

کونسل سیشن کے بعد دشمن نے بی ایس او پر باقاعدہ کریک ڈاؤن کا آغاز کیا، تنظیمی چیئرمین اور وائس چیئرمین کو گرفتار کرکے پابند سلاسل کیا گیا، جن کے لیئے تنظیمی کارکنان نے بلوچستان بھر میں سخت مظاہرے کئے، دشمن بی ایس او کے مظاہروں سے خوف کھانے لگا جس کی وجہ سے اُنہیں رہائی دی لیکن تنظیمی لیڈرشپ کی بار بار گمشدگی ایک بات ظاہر کر رہی تھی کی عنقریب پاکستانی قبضہ گیر فوج بی ایس او پر ایک بڑا کریک ڈاؤن کا آغاز کرنے والا ہے۔

خیر بی ایس او اپنے منزل کی جانب رواں دواں تھا اور دو سال گُذرنے کے بعد اپنا اٹھارواں کونسل سیشن بنام رحیم زرد کوہی اور واحد قمبر منعقد کیا، جس میں چیئرمین ایک مرتبہ پھر بشر زیب منتخب ہوئے اور جنرل سیکرٹری زاہد بلوچ منتخب ہوا، اس کونسل سیشن میں شہید سنگت ثناء بشیر زیب کے سامنے چیئرمین کے لیے کھڑا ہوا جبکہ بشر زیب کی کامیابی کے بعد سنگت ثناء نے ایک تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے اپنے ہار کو قبول کیا تھا اور بی ایس او کے اندر ایک نیا رواج قائم کر دیا تھا اور ایک دوسرا دھڑا بنانے کے بجائے اپنی ہار قبول کی تھی۔

لیکن دشمن نے اب بی ایس او پر مکمل کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تھا، تنظیم کے مرکزی وائس چیئرمین سنگت ذاکر مجید کو 8 جون 2009 کو اغواہ کیا گیا، تنظیمی لیڈر کی بازیابی کے لیئے آرگنائزیشن نے مختلف احتجاج و مظاہرے کئے، لیکن ذاکر مجید تاحال لاپتہ ہیں، دشمن کا کریک ڈاؤن یہاں تک نہیں رکا بلکہ اس کو مزید وسعت دی گئی بی ایس او مرکزی سی سی ممبر کمبر چاکر کو اغواہ کرنے کے بعد اُس کی مسخ شدہ لاش پھینکی گئی، اس کے ساتھ ساتھ مرکزی جونئیر جوائنٹ سیکرٹری سنگت شفیق بلوچ کو لاپتہ کرنے کے بعد شہید کر دیا گیا اور اُس کی مسخ شدہ لاش کو بلوچستان کے ایک ویرانے میں پھینک دیا گیا۔ اس کے ساتھ تنظیمی سینٹرل کمیٹی کے ممبر کامریڈ قیوم بلوچ کو بھی مارو اور پھینکو پالیسی کے تحت لاپتہ کیا گیا اور بعد میں اُس کی مسخ شدہ لاش پھینکی گئی، تنظیم پر باقاعدہ کریک ڈاؤن تنظیمی لیڈرشپ کے لیے ایک اچھبنے کی بات نہیں تھیں کیونکہ بی ایس او کے کامریڈ پہلے ہی جانتے تھے کہ پاکستانی فوج اپنے قبضے کو دوئم بخشنے کے لیے اُٹھنے والے ہر آواز کو مکمل دبانے کی کوشش کرے گا لیکن دشمن نے ناکہ صرف لیڈرشپ کو ٹارگٹ کیا بلکہ بی ایس او آزاد کے ہر ممبر کو نشانہ بنایا تاکہ نوجوانوں کے اندر خوف پیدا ہو، لیکن بی ایس او کے دوستوں نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے سامنے سر جھکانے کے بجائے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔

تین سال بعد حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے 2011 میں آرگنائزنگ باڈی تشکیل دی گئی، جس میں بانک کریمہ آرگنائزر اور زاہد بلوچ ڈپٹی آرگنائزر منتخب ہوئے 2008 کے کونسل سیشن سے 2012 کے کونسل سیشن تک اس چار سال کے دورانیئے میں بی ایس او کے کئی قابل کارکن اور مرکزی دوست شہید کئے جا چُکے تھے، جبکہ اس سے زیادہ تعداد میں عقوبت خانوں میں بند کر دیئے گئے تھے، بی ایس او کے لیئے اب حالات سخت کر دیے گئے تھے، لیکن تنظیم لیڈرشپ نے ہزاروں رکاوٹوں کے باوجود اپنا انیسواں قومی کونسل سیشن مشکے میں منعقد کیا، اس کونسل سیشن میں زاہد بلوچ چیئرمین منتخب ہوئے، سینئر وائس چئیرپرسن کریمہ بلوچ جبکہ جنرل سیکرٹری رضا جہانگیر چنے گئے۔

اب کے بار بی ایس او کو بہت سے چیلنجز کا سامنا تھا، ایک طرف دشمن اپنا پورا زور لگا رہا تھا کہ بی ایس او کو کمزور کروں اور دوسری جانب ریاستی بربریت کی وجہ سے کئی زون فعال نہیں تھے جبکہ تیسری جانب ایک ٹولہ بی ایس او پر وار کر رہا تھا، جن کا تعلق ایک مسلح تنظیم سے تھا جو باقاعدہ بی ایس او کو اپنی گرفت میں رکھنا چاہتے تھے لیکن بی ایس او کی لیڈرشپ نے جانبدار ہونے کے بجائے غیر جانبداری سے اپنے کاموں کا ایک نئے سرے سے آغاز کیا، شہید رضا جہانگیر بلوچستان کے مختلف زونوں کے دورے کے لیئے مکران کی جانب نکل پڑے، حالات اپنے سنگینی کو پہنچے تھے لیکن تنظیم کے اندر کوئی غلط فہمی پیدا نہ کر سکیں اس لیے رضا نے یہ قدم اٹھایا تھا لیکن چونکہ پروپگنڈا جاری تھا اور دشمن بھی رضا کی تلاش میں تھا تو تربت میں شہید امداد بجیر کے ساتھ دشمن کے ایک آپریشن میں رضا جہانگیر کی شہادت ہوئی اور تنظیم ایک اور لیڈر سے محروم ہو گیا۔

دشمن اپنے پورے زور کے ساتھ بی ایس او پر ٹوٹ پڑا تھا، ہرعلاقے سے بی ایس او کے کارکنان کو اغواء و شہید کرنے کا واقعات پیش آ رہے تھے، اسی دوران 14 مارچ 2014 کو چیئرمین زاہد اپنے ایک تنظیم دورے پر تھے کہ دشمن کے ہاتھ لگ گئے، اور ایجنسیوں نے زاہد کو لاپتہ کیا۔ اُس دن سے زاہد بلوچ ریاستی عقوبت خانوں میں قید و بند، اذیت سہہ رہے ہیں، ایک ایسے وقت میں جب سوشل میڈیا میں ایک پورا گروپ بی ایس او کے خلاف پروپگنڈا کر رہا ہو اور دوسری جانب ریاست نے بھی بی ایس او کلعدم قرار دیا تھا، البتہ بی ایس او پر کریک ڈاؤن کلعدم لگانے سے پہلے شروع ہوچکا تھا لیکن اب باقاعدہ دشمن بی ایس او کے ہر ممبر کو نشانہ بنانے کے تگ و دو میں تھا، زاہد کا اغواء ہونا تنظیم کے لیئے ایک بہت بڑا نقصان تھا چونکہ بی ایس او کے کامریڈ شعور یافتہ تھے اور اس بات کا اُن کو بخوبی ادراک تھا کہ یہ راستہ ایک کھٹن راستہ ہے۔

تنظیم تمام تر مشکلات کا سامنے کرتے ہوئے، اپنے بیسویں کونسل سیشن کی طرف آیا اور آرگنائزیشن نے کامیاب کونسل سیشن کیا، جس میں چئیرپرسن کریمہ بلوچ اور جنرل سیکرٹری عزت بلوچ عرف ثناء اللہ بلوچ منتخب ہوئے، کونسل سیشن کے بعد تنظیم نے بلوچستان میں ایک مرتبہ پھر سے اپنے آپ کو منظم کرنا شروع کیا، ایک سال ہی ہوا تھا کونسل سیشن کو کہ تنظیم کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری کو پاکستانی فوج نے تربت گورکوپ سے لاپتہ کر دیا اور دوسرے روز کولواہ میں مشکے زون کے صدر کو شہید کیا، اتنے مختصر عرصے میں مرکزی انفارمیشن سیکریٹری کا اغواء ہونا تنظیم کے لیئے ایک بہت بڑا جھٹکا تھا، لیکن تنظیمی لیڈرشپ نے سمجھداری سے اپنے کاموں کو سر انجام دیتے ہوئے تنظیم کو سُست روی کا شکار ہونے نہیں دیا، تعلیمی اداروں میں اپنے آپ کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں جہاں پر بھی بلوچ طلبہ رہتے ہیں کو بی ایس او کے پروگرام سے واقفیت دی، چونکہ بی ایس او پر ریاستی کریک ڈاؤن آج کی بات نہیں تھی اس لیئے دشمن کی کوشش جاری تھی کہ بی ایس او کے لیئے سارے راستہ بند کر دیں لیکن بی ایس او نے کبھی بھی دشمن کے سامنے ہار نہیں مانا۔

بی ایس او آزاد پر ایک اور بڑا حملہ 15 نومبر 2017 کو کیا گیا جب تنظیم کے مرکزی جنرل سیکرٹری کو دو سی سی ممبران سمیت کراچی سے لاپتہ کر دیا گیا، ان حالات و وقت میں عزت بلوچ کی نودان اور چراغ کے ساتھ گمشدگی یقیناً ایک تاریخی جھٹکا تھا لیکن از روایت بی ایس او اپنے موقف کے ساتھ دشمن کے سامنے ہمیشہ دلیری کے ساتھ نبردآزما رہا ہے۔

دوسرے دورانیوں کی طرح، اس مرتبہ بھی بی ایس او آزاد کے کئی مرکزی سی سی ممبران و زونل لیڈرز شہید و اغواء کئے گئے لیکن بی ایس او آزاد کی ایک مرتبہ پھر سے کامیاب کونسل سیشن نے دشمن پر یہ واضح کر دیا ہے کہ بی ایس او آخری فتح تک دشمن کے سامنے اسی طرح کھڑا رہے گا، بی ایس او آزاد کا اکیسواں قومی کونسل سیشن بنام عزت بلوچ لکمیر بلوچ و بلوچ اسیران زیر صدارت کمال بلوچ منعقد ہوا اور 1 سے 3 اگست تک کامیابی سے اختتام پذیر ہوا، سب سے پہلے میں بی ایس او کے کامریڈوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ اُنہیں نے ان سخت حالات میں کامیاب کونسل سیشن کا انعقاد کیا بلوچ نوجوان بشمول میں یہ اُمید کرتے ہیں کہ بی ایس او اپنے کامیاب سفر کو بلوچستان کی آزادی تک جاری رکھے گا۔