بکواس بند کرو
وش دل زہری
دی بلوچستان پوسٹ
آج دوستوں کے درمیان وہی معمول کی باتیں اور بحث و مباحثہ جاری تھا، انتخابات اور موجودہ سرگرمیوں پر محفل شوخ تھا کہ ایک سنگت نے میری باتوں پر اپنی جادوئی جال بچھاکر بے ساختہ کہنے لگا “بکواس بند کرو،
یہ نظام ختم نہیں ہونے والا.”
ایک لمحے کیلئے ہم سب خاموش رہ گئے، ایسا لگا جیسے وقت رک گیا اور دنیا کے سارے شے اپنی اُسی حالت میں بےجان بن کر ایک جیسی حالت میں خاموش اور ساکت رہ گئیں. کیونکہ شعور و ادب کے محفل میں اس طرح تلخ لہجہ اور ایسے الفاظ کبھی تعظیمی دائرے کا حصہ نہیں کہلاتے ہیں، لیکن اُس سنگت کی اس تلخ لہجے اور ان الفاظ نے محفل میں جان ڈال دی، جب بات کی حقیقت ہم سب جان گئیں، ایسا لگا کہ بغاوت میں بغاوت اور انقلابی ہیرے کو تلاش کرنے کیلئے غوطہ زن کا فن اسی تلخ لہجے کا نام ہے.
میں نے خاموشی کو ایک سوال میں لپیٹ کر توڑ دیا اور سنگت سے پوچھنے لگا کہ سنگت میں نے بکواس تو کر لیا ہے، میں مانتا ہوں کیونکہ یہ دیوان باشعور، اہل علم، ادیب، انقلابی اور قومی شاعروں کا ہے، عام مجھ جیسے فضول باتونی لوگ بھی بیٹھے ہوئے ہیں، آپ کے اس لہجے اور تلخ الفاظ کو میں نہ نظر انداز کر سکتا ہوں، نہ ان پر متفق ہوتا ہوں، برائے خدا آپ اس تلخی کی وضاحت کریں.
سنگت نے کہا کہ سنگت یہ لہجہ اور تلخ الفاظ آپ کے خلاف نہیں، موجودہ وقت کے عکاسی کرتے ہیں. بیبخش سنگت! میں نے آپ کے لئے لفظِ بکواس استعمال کر لیا، لیکن یہ بکواس ہم دن رات جہاں بھی آپس میں گھل مل جائیں کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اس کی بیخ کُنی نہیں ہوتی ہے، ہم کھوکھلے پن کے شکار ہوتے جارہے ہیں۔ کیا اسی طرح ہم حقائق کو روز سولی پر چڑہا لیں گے اور محفلوں کو خوش گپیوؤں میں گرما دیں گے؟
ہر جگہ ہم یہی کہتے رہتے ہیں کہ اس نظام کا اب خاتمہ ہو چکا ہے، یہ فرسودہ نظام اب محض اپنی آخری سانسوں کی گنتی گن رہا ہے، اور ہم اس خوش فہمی میں بھی چلے گئیں ہیں کہ اس نظام کے بزرگ حامی اور اس نظام کو رائج و راج کرنے والوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ یہ بدبودار اور فرسودہ ہے اور اپنی آخری دنوں کو گن رہا ہے۔ ہم کب تک ان خوش فہمیوں میں رہینگے اور اپنے آپ کو اور قوم کو دھوکے میں رکھیں گے؟ سچ کو کیوں یہاں آنکھیں دکھایا جا رہا ہے؟ کون کہتا ہے کہ اس نظام کا اب زوال عنقریب اپنے منزل پر پہنچ چکا ہے؟
کل ہی تو جرگہ ہوا تھا سینکڑوں قتل کا روایتی تصفیہ ہو گیا، چند پیسوں کے عوض لاشوں کی قیمتیں لگ گئیں، قدیم روم کے زن فروش منڈیوں کا سا منظر بنا دیا گیا۔ ہاں وہاں ننگی عورتیں بکا کرتی تھیں، یہاں ننگے ضمیروں کو خریدا اور نیلام کیا جا رہا تھا قیمت محض اُن کا ووٹ اور انگلی پر نیلا نشان تھا.
ہم سب سنگت کے اس جذبے سے بھری باتیں غور سے سُن رہے تھے، وہ ایسے بولے جا رہا تھا جیسے برسوں سے بغاوت پر لکھی کتاب آج ہمیں سنا رہا ہے.
ہاں انسان کے اندر بھی بغاوت کا شعلہ بھڑک رہا ہوتا ہے، مگر وہ اس آگ کو ظاہر کرنے کی جسارت نہیں کرتا، کیونکہ اُسے وقت اور حقائق کے ساتھ موقعے کا تلاش رہتا ہے اور آج سنگت کو وہ سارے مواقعے مل چکے تھے اور وہ ایک اہل دانش کی طرح اپنے سارے دلیل و حقائق اور منطق ہمیں سُنا رہا تھا بلکہ اپنے جھلسی ہوئی اندر کی دنیا سے وہ انگارا فراہم کر رہا تھا، جو ہمیں بھی حقائق اور سچ کا سامنا کرنے کیلئے جلاکر مضبوط کر لے، تاکہ اُس کی طرح ہم بھی انقلاب کے ہیرے کو سماجی سمندر سے نکالنے والے غوطہ زن بن جائیں.
اُس نے اپنی باتیں بلا خوف و خطر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ چلو مان بھی لیتا ہوں کہ سردار عطاءاللہ مینگل نے اپنے علیل حالت میں یہ تسلیم کر لیا ہے کہ سرداری نظام اب ناکارہ ہو چکا ہے، ایک نئی اور مضبوط اجتماعی و قومی نظریئے نے اس کا جگہ لے لیا ہے، یہ اس کی دور اندیشی ہے یا پھر ہمارے آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھنے کی ناکام اور بوڑھی کوشش ہے، لیکن ہمیں اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیئے کہ سردار عطاءاللہ نے جو کہا اب اس کا بیٹا بھتیجا اور عزیز و اقارب نے اس نظام کے جنازے کو کندھوں پر اُٹھاکر دفن کرنے کیلئے نکل چکے ہیں۔.
ہم کیوں ان کی باتوں کو اعتقاد بنا کر ان میں اس قدر گُم ہو جاتے ہیں، جیسے ایک مذہبی پیشواء کے ہر بات کو فتویٰ سمجھ کر اُس پر عمل کیا جاتا ہے۔ آیا فرسودہ روایتیں ابھی تک زندہ ہیں؟ اگر ان روایتوں کو شکست دینے کا ہمت نہیں تھا تو انقلاب کا یہ نعرہ لگانے کی کیا ضرورت تھی؟
سنگت کی باتیں ایسی تھیں، جیسے کوئی لیکچرار یونان کے منطق اور ایتنھنز کے سُقراط سے قبل رائج نظام پر بات کر رہا ہے اور ہم سب سیکھنے کا ماحول بناکر بیٹھے سُن رہے ہیں۔ سوال پہ سوال اور ہم سب جوابوں کے منتظر تھیں۔
کون کہتا ہے یہ نظام اب مر چکا ہے؟ کیا تمہیں معلوم نہیں پانچ سال بعد اس انتخابات میں کیا ہوا اور اب کیا ہونے جا رہا ہے؟ جام کمال خان اُس نظام کا حصہ دار شخصیتوں میں سے ایک ہے، جس نظام کو آپ نے اس صدی کے ادوار میں مارنے کی ہزاروں منطقیں اور دلیلیں پیش کیئے ہیں، جبکہ جام کمال آج بھی والیِ لسبیلہ خاندان نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے، اور یہی لسبیلہ کا والی، حالیہ دنوں میں سردار اختر مینگل سے جاکر اس کے گھر میں ملاقات کرتا ہے اور اسی سیاسی ہلچل میں جام کمال کا دوڑ دھوپ یار محمد رند کے گھر تک بھی جاری رہتا ہے اور دوسری جانب کئی سردار، وڈیرے اور ان کے ماتحت کام کرنے والے نام نہاد الیکشن میں جیتنے والے امیدوار پہلے سے والیِ لسبیلہ بی اے پی پارٹی کے جھولی میں گر چکے ہیں.
سنگت میں تو آپ کی ان باتوں کا بلکل حامی نہیں کہ اس نظام کا ہاتھ پیر ٹوٹ چکے ہیں اندھا، بہرا اور گونگا ہو چکا ہےاور اب اپاہچ ہوکر اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے. میں تو اس سرداری اور نوابی نظام کو مضبوط ہوتا دیکھ رہا ہوں، چاہے اس نظام کو جہاں سے بھی ایندھن مل جائے، یہ آپ کا اور میرا جبکہ پورے قوم کا سودا لگاکر اپنے راجداری کو قائم رکھیں گے، وقت کا تماشہ اور غرور کی تپش میں ان سرداروں کیلئے اپنے ضمیر کا بھی سودا لگانا عالمی منڈی میں بکنے والے خام شے کی طرح ہوتا ہے، جو سرمایہ داروں کو کوئلے میں ہیرا لگتا ہے. ان سرمایہ داروں کیلئے ان کا ضمیر قیمتی ہیرا ہوگا کیونکہ اس ہیرے کو تراشنے والا جھوٹا اور مکار کوئی اور نہیں، ہم ہیں ہمارا جھوٹا دانشور اور مورخین و انقلابی ہیں، جو حق اور سچ کو چھپانے کے در پر ہوتے ہیں، کیونکہ اُسے عوام پر پورا یقین نہیں ہوتا اور وہ دلائل دینے میں وقت کا ضیاع کرتے ہیں اور ضمیر فروش گروہ ایک دن بازی لے جاتا ہے، ہم مُٹھی بھر انقلابی نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔.
گُستاخی معاف سنگت یہی حقیقت ہے. سنگت نے اپنی باتیں ختم کرتے ہوئے خاموش بیٹھ گیا اور میں نے کہا سنگت آپ کی باتوں کو سُن کر میں مانتا ہوں کہ میں نے بکواس کیا تھا، جب تک ہم حقیقت سے منہ چھپائیں گے یہ فرسودہ نظام ختم نہیں ہونے والا۔