بنگلہ دیش کے دارالحکومت میں تیز رفتار بس سے 2 نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد طلباء کے مظاہرے شدت اختیار کر گئے جو عام انتخابات سے قبل حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی کا باعث ہے۔
طلباء کا حالیہ احتجاج اس وقت شروع ہوا جب گنجان آباد شہر ڈھاکا میں ایک بس نے موٹرسائیکل کو ٹکر ماردی، جس کے نتیجے میں موٹرسائیکل سوار نوجوان ہلاک ہوگیا تھا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ انہوں نے جمعہ کو ہونے والے ٹریفک حادثے میں بس ڈرائیور کو گرفتار کرلیا۔
نوجوان کی ہلاکت کے بعد مظاہرین نے ٹریفک کا نظام مکمل طور پر مفلوج کردیا اور پرتشدد مظاہروں میں 317 بسیں نذرآتش جبکہ 51 افراد زخمی ہوگئے۔
اس سے قبل ایک نجی بس نے کالج کے طالب علم کو ٹکر ماری تھی، جس کے بعد سے ہزاروں طلباء لاپرواہ بس ڈرائیوروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ لیے سڑکوں پر موجود تھے۔
دوسری جانب اس سارے معاملے پر بنگلہ دیشی وزیر داخلہ اسد الزمان خان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے طلباء کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے تمام مطالبات تسلیم کیے جائیں گے اور پارلیمنٹ کے اگلے سیشن میں قانون کا مسودہ پیش کیا جائے گا‘۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ ہمیں ڈر ہے کہ یہ تحریک پرتشدد ہوسکتی ہے کیونکہ یہ حکومت کو کمزور کرنے کی ایک سازش ہے لیکن ہم نابالغوں کو اکسانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں گے‘
انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ثبوت ہے کہ اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی ( بی این پی ) نے اپنی طلبہ تنظیم کے کارکنان کو ان مظاہرین کے ساتھ ملنے کا کہا تھا لیکن میں والدین پر زور دیتا ہوں کہ وہ اپنے بچوں کو اس احتجاج سے دور رکھیں۔
تاہم بی این پی کے سیکریٹری جنرل مرزا فخرالاسلام نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سڑک پر ہونے والے حادثات اور بڑے پیمانے پر شروع ہونے والے بحران کو حل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے، لہٰذا حکومت کو فوری طور پر مستعفی ہوجانا چاہیے۔
اس حوالے سے عالمی بینک کا کہنا تھا کہ ’ پورے ملک میں احتجاج نے کثیر آبادی والے ملک میں ٹریفک خطرات کو اجاگر کیا ہے کیونکہ ہر سال 4 ہزار سے زائد لوگ صرف حادثات میں اپنی جان کھودیتے ہیں جو دنیا میں حادثات کی بلند ترین شرح میں سے ایک ہے‘۔