اپنے پیاروں کے بازیابی کے لیے آواز اٹھانے والے خواتین و کمسن بچوں کو اجتماعی سزا کے طور پر فورسز حراست میں لیکر ملٹری کیمپ منتقل کررہے ہیں۔ وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ
(دی بلوچستان پوسٹ)
بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی مرکزی وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ نے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بلوچ خواتین کی گرفتاریوں کے خلاف کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کیا۔
طیبہ بلوچ نے پریس کانفرنس کے آغاز میں صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج آپ کو یہاں زحمت دینے کی وجہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی بدترین صورتحال کو آپ کی توسط سے ریاست کے اعلیٰ اداروں تک پہنچانا ہے۔ آپ حضرات حالات کابخوبی ادراک اور انسانی حقوق کی صورتحال میں روز بہ روز سنگینی کے معلومات بھی رکھتے ہیں۔ بلوچستان میں آج انسانی حقوق کی خراب صورتحال کا اندازہ آپ اس امر سے بھی لگا سکتے ہیں کہ یہاں کے شہری اپنے زندگیوں کے بارے میں شدید خوف میں مبتلا ہیں۔ کسی بھی لمحے بم دھماکہ یا ٹارگٹ کلنگ کی صورت میں موت کا خوف موجود رہتا ہے یا جبری گمشدگی کا خوف ان کے سروں پر ہر وقت منڈ لارہا ہوتا ہے جبکہ جبری گمشدگی کے شکار افراد کے اہل خانہ بلوچستان کے کسی بھی کونے میں مسخ شدہ لاش کی برآمدگی کی صورت میں اپنے گھرمیں ماتم مناتے ہیں اور بلوچستان کے پریس کلب انہی لاپتہ افراد کے لواحقین کی وجہ سے پرُ رونق نظر آتے ہیں جو اپنے زندگی کا زیادہ تر وقت انہی پریس کلبوں کے سامنے اپنے پیاروں کی راہ تکتے گزارتے ہیں۔
بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی مرکزی وائس چیئرپرسن طیبہ بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے میں شدت اس وقت پیدا ہوا جب اپنے پیاروں کے بازیابی کے لیے آواز اٹھانے والے اور سیاسی وابستگیوں کے بنیاد پر خواتین کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ مختلف سیاسی و انسانی حقوق کے تنظیموں کے رپورٹوں کے مطابق بلوچستان کے شورش سے متاثرہ علاقوں میں گذشتہ کئی سالوں سے فوجی کاروائیوں کے دوران سیاسی وابستگیوں کے بنیاد پر اجتماعی سزا کے طور پر خواتین کو گرفتار کرکے سیکورٹی اہلکار ملٹری کیمپ منتقل کرتے ہیں۔ ہمارے تنظیم کے علاقائی کوآرڈینیٹر کے مطابق دسمبر 2017ء میں ضلع آواران کے علاقے مشکے سے درجنوں خواتین کو گرفتار کرکے ایف سی کیمپ منتقل کیا گیا تھا اس واقعے کے بعد بلوچستان بھر سے خواتین کے جبری گمشدگیوں کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ صرف گزشتہ دو ماہ کے دوران ہمار ے تنظیم کے پاس خواتین کی جبری گمشدگیوں اور ان پر فوجی کاروائیوں کے دوران تشدد کا نشانے بنانے کے درجن سے زائد کیس جمع ہوئے ہیں۔گذشتہ روز آٹھ اگست کو ضلع خضدا ر کے علاقے گریشہ میں سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ثناہ اللہ سکنہ مشکے کے زوجہ عدیلہ بنت امان اللہ کو تین کمسن بیٹیوں 6 سالہ صورت، 4 سالہ سمّو اور دودھ پیتی بچی چمو کے ہمراہ حراست میں لیکر اپنے کیمپ منتقل کیا گیا۔ 31 جولائی کو ضلع پنجگور کے علاقے گچک میں سیکورٹی فورسز نے ایک خواتین بی بی وسیمہ اور اس کے شوہر جمل بلوچ کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا ہے جن کے بارے میں تاحال کوئی معلومات نہیں ہے جبکہ اس سے قبل 22 جولائی کو ضلع آواران کے علاقے مشکے النگی سے سیکورٹی فورسز نے نور ملک کوان کی دو بیٹیوں بی بی حسینہ اور ثمینہ کے ہمراہ حراست میں لیکر ایف سی کیمپ منتقل کردیا گیا۔ اسی طرح 27 جون ضلع آواران کے جھاؤ لال بازار سے گل بانو بنت غلام حسین اور ان کی بیٹی بی بی گنجل کو حراست میں لیکر ملٹری کیمپ منتقل کیا گیا اور اسی روز جھاؤ کے علاقے کوہڑوسے ستر سالہ نودو کو ان کی بیٹی بی بی صائمہ زوجہ محمد انیس کو حراست میں لیکر ملٹری کیمپ منتقل کیا گیا۔ جھاؤ سے حراست میں لیے گئے خواتین کو دوسرے روز ذہنی اور شدید جسمانی تشدد کے بعد زخمی حالات میں رہا کردیا گیا تھا جبکہ مختلف علاقوں سے خواتین اور کمسن بچوں کے گرفتاریوں کے درجنوں واقعات کی اطلاعات ہمیں موصول ہوئی ہے۔
طیبہ بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچستان کے شورش سے متاثرہ علاقوں میں شہریوں کی زندگیاں پہلے سے انتہائی غیر محفوظ تھے لیکن اب خواتین و کمسن بچوں کی گرفتاریوں کے واقعات نے شہریوں کو کرب میں مبتلا کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے 1974 کے ریزولیوشن ’’جنگوں و تنازعوں میں خواتین و بچوں کے تحفظ کے عالمی ڈکلیئریشن‘‘ کے شق اول کے مطابق ’’شہری آبادیوں خاص طور پر عورتوں اور بچوں حملہ یا بمباری کرنا، جو کسی بھی آبادی کا سب سے کمزور حصہ ہوتے ہیں، ممنوع قرار پاتا ہے اور ایسے اقدامات کی سخت روک تھام کی جائے۔ اسی طرح شق نمبر 5 کہتا ہے کہ ’’عورتوں اور بچوں کے خلاف ہر طرح کے ظالمانہ و غیر انسانی برتاؤ، جس میں قید و بند، تشدد، قتل، اجتماعی اغواہ، اجتماعی سزا، گھروں کو تباہ کرنا، جبراً گھروں سے بیدخل کرنا چاہے فوجی آپریشنوں کے نام پر ہو یا مقبوضہ علاقوں میں ہوں مجرمانہ تصور کی جائیں گی۔ خود ریاست پاکستان کے اپنے قوانین کے مطابق ریاست اپنے شہریوں خاص کر خواتین و بچوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کا ذمہ دار ہوگا لیکن بلوچستان میں سیکورٹی فورسز اقوام متحدہ سمیت خود ریاست پاکستان کے آئین و قانون کو بھی پامال کررہا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی قوانین کے مطابق کسی بھی مجرم یا جرم یافتہ شخص کے اہل خانہ کو سزا دینا سنگین جرم کے زمرے میں آتا ہے لیکن بلوچستان میں سیکورٹی فورسز سیاسی وابستگیوں کے بنیاد پر لوگوں کے خاندان خاص کر خواتین و کمسن بچوں کو اجتماعی سزا کے طور پر حراست میں لیکر ملٹری کیمپ منتقل کررہے ہیں۔ ریاست پاکستان کے آئین کے مطابق عدلیہ اور پارلیمنٹ ریاست کے سب سے بالائی ادارے ہیں لیکن بلوچستان میں تسلسل کے ساتھ خواتین و بچوں کے گرفتاریوں جیسے انتہائی حساس اور سنگین مسئلے پر سیکورٹی فورسز کے سامنے مکمل بے بس نظر آتے ہیں جبکہ میڈیا بھی اس سنگین مسئلے کو رپورٹ نہیں کررہا ہے جس سے بلوچستان کے شہریوں میں تشویش پائی جاتی ہے لہذا ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے عدلیہ اور پارلیمنٹ کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں خواتین و بچوں کی گرفتاریوں سمیت انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے روک تھام میں فوری اور فعال کردار کریں۔