Rehan the Legend
برزکوہی
بلوچ قومی تاریخ میں بالاچ گورگیچ ایک لیجنڈ ہے، بالاچ گورگیج قدیم گوریلا جنگ کا بانی کہلانے کا مستحق ہے، اپنے کمزور طاقت سے تن تنہاء اپنے مدمقابل انتہائی طاقتور دشمن سردار بیبرگ بلیدی سے بلوچ روایات بلوچ کوڈ آف آنر کے خاطر آخری دم تک لڑتا ہے، بالاچ گورگیج کی ماں، بہن یاسمین کی طرح بالاچ گورگیج کو کہتا ہے
یا مرد کہ میار جل انت
تہا نیمروچ نا وسپ انت
بالاچ گورگیج کی ماں کی بالاچ کو نصیحت یا شغان، بہن یاسمین کی اپنے بیٹے ریحان کو قومی بیرک سے لپیٹ کر یہ کہنا جا بیٹا میں نے آپ کو وطن کے لیئے قربان کردیا۔ دونوں تاریخی کردار اور واقعات اپنے تئیں وقت و حالات اور تقاضات کے مطابق مختلف ہوتے ہوئے ایک حد تک یکسانیت رکھتے ہیں، دونوں کی بنیادی اصول بلوچ قوم کوڈ آف آنر پر آکر رک جاتی ہے۔
بالاچ گورگیج اور اس کی ماں کا تاریخی کردار، آج تک بلوچ سماج میں بہادری کی وہ داستان بن چکی ہے کہ جسے اکثر مائیں اپنے بچوں کو سناتے ہوئے بہادری کا درس دیتے ہیں اور بالاچ گورگیج اور اس کی ماں کا یہ تاریخی داستان بلوچوں کے ذہن پر اپنے نقوش چوڑ دیتا ہے۔
شہید نواب اکبر خان بگٹی بھی بالاچ گورگیج کو اپنا آئیڈیل مانتا تھا اور آخری عمر میں وہ بالاچ گورگیج کے فلسفہ پر کاربند ہوتا ہے۔
ریحان بھی صرف بلوچ قوم کا نہیں بلکہ تمام مظلوم قوموں کے لیئے ایک لیجنڈ بن گیا ہے، آج بلوچ قوم کے ساتھ ساتھ دیگر مظلوم اقوام بھی نسل درنسل اپنے بچوں کو اگر بہادری کی داستانیں سناتے ہونگے یا ماں اپنے بچوں کو بہادری کی لوری سنائیں گے، تو ریحان اور بہن یاسمین ہی ان کا موضوع ہوگا۔
تمام مظوم اقوام سمیت، بلوچ قوم کے شہداء اور ماؤں کی قربانی اور کردار اپنی جگہ انتہائی قابل قدر اور قابل فخر ضرور ہے لیکن ریحان اور اس کی ماں یاسمین کی قربانی اور تاریخی کردار سب سے الگ منفرد اور مثالی ہے، جس کا موازنہ اور برابری پوری انسانی تاریخ میں کسی جگہ ہمیں نہیں ملتی ہے۔
کوئی بھی ماں اپنے بیٹے کو بخوشی جنگ پر روانہ کرنا یا اس کی شہادت کے بعد اس پر فخر کرنا، ایک الگ سوچ اور کیفیت ہوتا ہے لیکن اپنے بیٹے کو فدائی پر روانہ کرنا وہ بھی مذہبی نظریئے یعنی خدا کی راہ میں قربان کے سوچ سے مختلف، صرف وطن پر قربان کرنا، وہ بھی یہ سوفیصد جان کر میرا بیٹا ریحان واپس زندہ گھر ہرگز دوبارہ نہیں لوٹے گا، یہ خود انوکھا واقعہ اور کیفیت ہے یعنی بالاچ گورگیج کی ماں کو پورا یقین تھا اس کا بیٹا لڑکر ضرور واپس لوٹے گا لیکن ریحان کی ماں کو پورا یقین تھا کہ ریحان کبھی بھی گھر کے دروازے کی چوکھٹ پر واپس پلٹ کر قدم نہیں رکھے گا، پھر بھی خوشی سے ریحان کو شہادت کے لیئے روانہ کرنا، خود اپنے اندر عجیب ہم جیسوں کے لیئے نہ سمجھنے والی کیفیت ہے۔
صرف میں اتنا سمجھتا ہوں فکرے وطن اور فکرے قوم سب چیزوں سے بالاتر ہے، بشرطیکہ قومی فکر خود کمزوری تذذب اور ڈگمگاتے ہوئے کیفیت کا شکار نہ ہو، بلکہ پختہ یقین ہو۔ یہ بلکل شعور اور قومی فکر کی پختگی اور انتہاء ہے۔ جب بھی قومی فکر، قومی شعور کی پختگی اور اس کی انتہاء ہوگی، تو قومی جنگ برائے قومی آزادی کو پھر رد کرنا کسی بھی طاقت اور رکاوٹ کی بس کی بات نہیں ہوگا۔
قومی جنگ اور قومی شعور لازم و ملزوم ہیں، قومی نجات کیلئے صرف جنگ اور لڑنا بغیر قومی شعور کے بے فائدہ ہے اور قومی شعور بغیر قومی جنگ کے بھی بے فائدہ ہے، قومی شعور اگر ٹیبل ہے تو قومی جنگ ٹیبل کی چار ٹانگیں ہے، اگر قومی جنگ کسی مکان کے چھت ہوتا ہے تو قومی شعور مکان کے چاروں اطراف کے دیواریں ہوتی ہیں، قومی جنگ اگر ایک درخت ہوتا ہے تو پانی قومی شعور ہوتا ہے۔
قومی شعور قومی جنگ کو تخلیق کرتا ہے اور قومی جنگ قومی شعور کو تخلیق کرتا ہے، یعنی دونوں برابر، لاذم اور ملزوم ہیں ایک کے نا ہونے کی صورت میں، دوسرا نا مکمل ہوگا جب نامکمل ہوگا تو ایک دن ضرور انسان تھکاوٹ، مایوسی، پشیمانی اور الجھن کا شکار ہوگا۔
جہاں اور جب بھی قومی شعور پختہ ہوگا، قومی جنگ تسلسل کے ساتھ جاری و ساری رہیگی، وہاں کامیابی ہی کامیابی قومی مقدر ہوگا۔ قومی جنگ کی منظم، مضبوط اور موثر شکل قومی شعور میں پوشیدہ ہے، تو اسی طرح قومی جنگ کی شدت قومی شعور کی پرورش کرتا ہے۔
جذبہ اور احساسات جب بھی لاشعوری یا کم شعوری میں مبتلا ہوں، تو وقتی ہی صحیح لیکن مستقل طور پر قومی تحریک کے لیئے کارگر ثابت نہیں ہونگے، بہت جلد منہدم پڑ جائینگے۔ ذاتی تجربات اور مشاہدات کے پیش نظر، سینکڑوں واضح مثالیں ہمارے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔
لیجنڈ ریحان اور بہن یاسمین کی تاریخی کردار اور عمل اس کے بعد پوری بلوچ قوم، قومی تحریک اور دنیا پر پڑے مثبت و حوصلہ افزاء اثرات، احساسات اور جذبات قومی تحریک کے لیئے انتہائی سود مند ہیں اور مزید سود مند ثابت ہونگے، بشرطیکہ تمام جہدکار ان ہی جذبات، احساسات اور مثبت اثرات کو قومی شعور کے رخ میں بدل کر قومی جنگ میں مزید شدت پیدا کریں۔
اس کوشش کے لیئے ہر قدم ہر لمحہ انتہائی سوچ و بچار اور سنجیدگی کی اشد ضرورت ہے۔ چین سامراج اور پاکستان دشمن سمیت تمام رد انقلابی اور جنگ مخالف قوتیں حتع الوسع کوشش کرینگے کہ بطور ردعمل ایسا عمل کریں تاکہ یہ اثرات زائل ہوں۔
ان کے تمام چھوٹے بڑے عزائم، سازشوں اور اقدامات کو باریک بینی سے جاننا اور سمجھنا اور حکمت عملی ترتیب دینا، اس وقت سب مخلص اور ہم خیال جہدکاروں کا قومی فرض ہے۔ اس مقصد کےلیئے انتہائی سنجیدگی سوچ سمجھ اور غور و خوض کی ضرورت ہے اور ساتھ ساتھ علم ہنر اور صلاحیت درکا ہوتا ہے، نہیں تو جذبات کا ماحول جیسا بھی ہو، جس طرح بھی ہو، جس مقام اور سطح اور عروج پر ہو، وہ جذبات ہی ہوتے ہیں، جو ہرگز دیر پا نہیں بلکہ وقتی کیفیت ہوتے ہیں اور کیفیت خود ہی ہمیشہ آخر کار سرد پڑجاتے ہیں۔
تو بجائے تمام مخلص اور ہم خیال جہدکاروں کی سطحی، محدود اور غیرضروری چیزوں پر اٹکے رہنے کے، اپنا تمام تر توانائی توجہ اور دلچسپی اہم اور ضروری چیزوں پر مبذول کرکے ریحان کو بطور لیجنڈ سمجھ کر ریحان کے افکار، نظریات اور خیالات کو آگے بڑھاتے ہوئے قومی شعور کو اجاگر کریں اور ساتھ ساتھ قومی جنگ پر توجہ دیکر، قومی جنگ کو تیز کردیں، اسی میں بلوچ قومی تحریک کی کامیابی اور کامرانی پوشیدہ ہے۔
اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔