باپ اور پاپیوں کی کارستانیاں
تحریر۔حنیف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
پاکستان کی سیاسی قیادت کو عسکری قیادت نے کُچھ اِس طرح اپنے شکنجے میں کس لیا ہے کہ سب کی بولتی بند ہوگئی ہے، جِس کا اعلامیہ پانامہ پلاننگ کے دوران آئی ایس پی آر کےتر جمان نے پریس بریفنگ کے دوران کیا تھا کہ مارشل لاء کا مت سوچیں اب کی بار اس سے کچھ مختلف اور نیا ہوگااوراب انھوں نے کچھ ہی مدت میں کرکے دِکھایا کہ نیا اِس طرح ہوگا فوج اور ایجنسیز نے اب جمہوریت کے دعویداروں کی سیاسی کورٹ مارشل کرکے ایوانوں سے کُچھ اِس طرح نکال باہر پھینکا کہ کسی جرنیل کی مارشل لاء کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی کیونکہ فوج اور ایجینسیزنے عمران خان کو بِنا وردی کے سرپرست اعلی کا رُتبہ دیکر سیاست میں اپنا پنجہ گاڑھ دیا۔
اس سلیکشن سے پہلے آرمی چیف کا بیان نام نہاد جمہوری قوتوں کیلئے کھلے چیلنج سے کم نہیں تھالیکن کسی سیاسی جماعت کوعوامی سطح پر وار کرنے کی ہمت ہی نہیں رہی، سب کے سب خاموش رہے میڈیا بھی اور خلافت کا دعویدار بھی کیونکہ عسکری ادارے کے سربراہ جنرل باجوہ نے کہاتھا “دشمن قوتوں کو الیکشن بہ عرفِ عام سلیکشن سے شکست دینگے انہوں نے اپنے بیان کو سیاسی قوتوں کے سامنے سچ کر دکھایا اور عمران خان کی جماعت کو سلیکٹ کرکے پاکستان کے نام نہاد جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا اگر یہ کام سول ادارے سر انجام دیتے تو جمہوریت کے دعویدار آسمان سر پر اٹھا لیتے لیکن طاقت کے سامنے سب کو سانپ سونگھ لیتا ہے عمران خان کو سلیکٹ کرنے کے ثبوت دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے اپنے انٹرویو جو الیکشن سے پہلے جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں ہوا تھا میں کہا کہ کچھ لوگ میرے پاس آئے اور کہا کہ اس بار عمران خان کو اقتدار میں لائیں گے لیکن عسکری طاقت نے اس پروگرام کو چلانے کی اجازت نہ دیکر اپنی طاقت کے ذریعے میڈیا کو بھی خاموش کروادیا ۔
بہرحال عسکری قیادت نے ثابت کردیاکہ جہاں ھم وہاں اور کوئی نہیں
آئی ایس آئی اور فوج کا لاڈلہ پاکستان کا سیاسی سماجی کارکن رشوت سے پاک باپ کا نیا بیٹا ملک کا تقدیر بدل سکتاہے کہ نہیں؟
میدانِ سلکیشن سے منتخب ہونے میں کوئی عار نہیں میڈیا نے کئی برس کے بعد ہلابول دیا مگر سلیکٹرز نے کھلاڑی کو آؤٹ آف فارم ہونے کے باوجود سلیکٹ کردیا تھا، بازیگر اب ملاؤں، ن لیگ اور پی پی سے کہاں کہاں ٹکر لے گا آگے قسط میں دیکھیں گے۔
بلوچستان اسمبلی فوج اور آئی ایس آئی کا نیا سیاسی ونگ (باپ)کو 6/7مہینے نہیں گزرے کہ بلوچستان سے سلیکٹ کیا گیا اور کئی سالوں سے بلوچ جبری گمشدگی بلوچ کے قتل عام میں پاکستانی فوج کا دست راست نیشنل پارٹی کا سورج غروب ہوگیا اور اختر مینگل 6نکات کا شور مچانے اسلام آباد میں موجود دکھائی دیتے ہیں،
شاید جس ملک کے اپنے سیاسی نکات پچھلے 70 سالوں سے مکمل نہیں ہوئےوہاں اخترمینگل کے 6نکات کی اہمیت کوڑے دان کی زینت ضرور ہونگے، ہاں البتہ مینگل صاحب نے پاکستانی منافق میڈیا کو اپنے سوالوں اور سیاسی مکاریوں سے اپنی طرف کھینچا ضرورہے لیکن عسکری قیادت کا دل جیتنے کے لیے اسے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستانی عسکری قیادت مینگل پر بھروسہ نہیں کرتی
ابھی اختر مینگل اپنے چھ نکات کے لئے دباؤ ڈال رہے تھے اسی اثناء پاکستانی فوج نے مشکے سے تین بلوچ خواتین سمیت کئی بے گناہ بلوچوں کو لاپتہ کرکے اپنے کیمپ منتقل کردیا۔ جن گمشدگان اور مسخ شدہ لاشوں کی بات اپنے6نکات میں اختر مینگل پیش کررہے ہیں ان کا اختیار فوج کے علاوہ کسی اور کو نہیں ایسے فیصلے فوج اور ایجنسیز کی زیر نگرانی ہوتے ہیں۔
عمران خان کےسلیکشن سےبلوچ قوم کا مسقبل سنور نہیں سکتاکیونکہ بلوچ نسل کشی سےپاکستان کا مسقبل محفوظ ہوسکتا ہے اور پاکستان کے ساتھ بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں جس ملک میں آپ کے بوڑھے بچے عورتیں لاچاری اور بے بسی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو وہاں چھ نکات کا رونا رونا کسی درد کی دوا نہیں یہ اسی عمل کا شاخسانہ ہے جو پانچ سال قبل نیشنل پارٹی کی قیادت نے سات نکات کے مطالبے پر عوام کا سودا کیا اور آپریشن میں تیزی لائی گئی جس کا تسلسل آج تک جاری ہے بلوچ قوم کو اپنے گھر زمین اور وطن سے بیگانہ کردیا گیا ہے۔
اختر مینگل پر بلوچ قوم کا اعتماد اُس دن ٹوٹ گیاتھا جب مینگل صاحب نواز شریف کے دور میں وزیر اعلی کے منصب پر برا جمان ہوئے اور بلوچ عوام پر راسکوہ کا پہاڑ گرایا اور انہی گناہوں کی سزا بلوچ عوام بھگت رہی ہیں اور مینگل صاحب اپنے گناہوں کو چھپانے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ اختر مینگل کا یہ کھیل اب پرانا ہوچکا ہے، آج بلوچ عوام سیاسی حوالے سے باشعور ہوچکا ہے اور آج بلوچ عوام یہ ادراک رکھتی ہے کہ عمران خان اور اختر مینگل فوج کے کٹھ پتلی کی طرح اپنے خدمات سر انجام دینگے اور بلوچ عوام کو لاشوں کے تحفے اسی تواتر کے ساتھ ملتے رہیں گے۔ نئے پاکستان کے نئے حکمران اور نئے عسکری پارٹی اور ان کا تشکیل کردہ مذہبی ڈیتھ اسکواڈ گروہ بلوچ سیاسی پارٹیوں کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں مستقبل میں بلوچ پارٹیوں اور تنظیموں کا اشتراک عمل ہی بلوچ کا مقدر بدل سکتا ہے اگر اشتراک عمل نہ ہوا تو جنگ آزادی مزید طول پکڑ کر عوامی اعتماد کو کھو دینے کا باعث بن سکتی ہے۔